جتوئی،مظفر گڑھ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

جتوئی، پاکستان کا پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع مظفر گڑھ کا ایک شہر ہے۔ یہاں کے زیادہ تر زراعت سے وابستہ ہیں مگر کچھ لوگ مزید کاروبار بھی کرتے ہیں۔ یہاں کی آبادی ایک اندازے کے مطابق 50000 ہے۔ شہر میں صرف ایک سرکاری اسکول، ایک سرکاری کالج اور ایک ہی سرکاری ہسپتال ہے۔ یہاں کی آب و ہوا موسم سرما میں ٹھنڈی اور موسم گرما میں گرم ہوتی ہے۔ یہاں بارشیں اپنے معمول کے حساب سے ہوتی ہیں عموما جنوری سے مارچ تک اور جولائی میں یہاں بارشیں ہوتی ہیں۔ اس کے مغرب میں پاکستان کا سب سے بڑا دریا (دریائے سندھ) ہے۔پنجابی اور سرائیکی زبان کے معروف شعرا یتیم جتوئی جانباز جتوئی مونس جتوئی، کہترجتوئی کوثر جتوئی، راز جتوئی اور عیسن کا تعلق اسی قصبہ سے تھا۔

ضلع مظفر گڑھ کا، قصبہ اور ایک تحصیل، علی پور سے 16 کلومیٹر اور دریائے سندھ سے 6 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے جبکہ دریائے چناب یہاں سے 14 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ جتوئی قبیلے کے آباد کرنے کی وجہ سے اس کا نام مشہور ہوا۔ بیان کیاجاتاہے کہ اسے جتوئی قبیلے کے میر بجار خان نے کم و بیش چھ سو سال پہلے آباد کیا تھا۔ جتوئی قبیلے کا تعلق میر جلال خان کی صاحبزادی مسمات جتو کے ساتھ ہے۔ میر جلال خان نے اپنی میراث میررند خان، میراشار خان، میر کورائی خان، میر ہوت خان اور مسمات جتو کے درمیان برابر تقسیم کی۔ جتو کی شادی میرچاکر خان کے بیٹے میر مراد خان کے ساتھ ہوئی، تو اس کے چاروں بھائیوں نے اپنی جائداد اپنی بہن کو جہیز میں دے دی ۔ اس طرح مراد بن چاکر کی اولاد جتوئی کہلائی۔ 1874ء میں یہاں میونسپلٹی تھی، جسے 1886ء میں ختم کر دیا گیا، 1924ء میں اسے سمال ٹاؤن کمیٹی کا درجہ ملا۔ 1931ء کی مردم شماری کے مطابق اس کی آبادی 3953 افراد پر مشتمل تھی۔انگریزی دور میں یہاں تھانہ اور ریلوے اسٹیشن قائم ہوئے۔ 1880ء میں اسکول کی عمارت تعمیر ہوئی۔ اب یہاں تحصیل سطح کے دفاتر، طلبہ و طالبات کے کالجز، ہائی اسکول، دفتر بلدیہ، ہسپتال وغیرہ موجود ہیں۔ یہاں جتوئی ، سادات، غیز لانی، راجپوت، تیلی، موچی، بھٹی، کھوکھر، شیخ قریشی، جولاہے، کمھار، جوئیہ، نوتانی، خواجہ ، کمبوہ ، ہاشمی ، ارائیں اور پتافی وغیرہ قوموں کے افراد آباد ہیں۔ محلہ بلوچاں ، محلہ خواجگان، محلہ راجپوتاں، محلہ کمبوہاں، محلہ تیلیاں، محلہ شیخاں، محلہ نور فریدیہ، محلہ بھورے خان، محلہ سادات اور محلہ آرائیاں یہاں کی اہم رہائشی بستیاں ہیں۔ اندرون شہر سرکلر روڈ، جھگی والا روڈ، جتوئی روڈ، مسافر شاہ روڈ، امام بارگاہ روڈ، تھانہ روڈ، ہسپتال روڈ، جنگلات روڈ اور جام پور روڈ نام کی سڑکیں ہیں جبکہ یہ شہر سلطان روڈ، جتوئی شاہ جمال روڈ اور جام پور روڈ کے ذریعے دوسرے شہروں سے ملا ہوا ہے۔ شہر میں بیس کے قریب مساجد، دو امام بارگاہیں اور سات عید گاہیں موجود ہیں۔ درجن بھر فیکٹریاں بھی ہیں شہر میں چوک دلالاں، چوک نور یہ فریدہ ، چوک علی، چوک صدیق اکبر، چوک فاروق اعظم، چوک کوڑے خان، چوک مسافر شاہ اور چوک چادر والی سرکار بھی ہیں۔مشہور جتوئی سردار کوڑا خاں اسی شہر کے رہنے والے تھے۔ان کی وفات 1878ء میں ہوئی اور مزار یہیں پر ہے۔ انھوں نے 18ہزار ایکڑ زمین ڈسٹرکٹ بورڈ کے نام وقف کی تھی اور اس جائداد کی آمدنی سے غریب طلبہ کو وظائف دیے جاتے تھے۔ کوڑے خان سرائیکی زبان کے بڑے شاعر بھی تھے۔ سردار نذر محمد خاں جتوئی بھی اس قبیلے کے سردار رہے اور سیاسی قدوقامت رکھتے تھے۔ سردار زادہ عبد القیوم خاں جتوئی ممبر قومی اسمبلی رہے۔ یہاں پیر مسافر شاہ اور پیر مگل شاہ کے مزرات بھی ہیں۔ پیرمسافر شاہ کا ہر سال عرس میلہ دھوم دھام سے ہوتا ہے۔ پنجابی اور سرائیکی زبان کے معروف شعرا یتیم جتوئی جانباز جتوئی مونس، کہتر ، راز جتوئی اور عیسن کا تعلق اسی قصبہ سے تھا۔ یتیم جتوئی کا اصل نام غلام حیدر خاں جتوئی تھا۔ 1894ء میں قصبہ جتوئی میں پیدا ہوئے۔ شاعری میں یتیم تخلص کرتے تھے۔ درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ رہے۔، انھیں سرائیکی کا شاعرِ انقلاب کہا جاتا ہے جبکہ انھیں فردوسی ملتان کا خطاب بھی دیا گیا۔ دُرِّیتیم کے نام سے آپ کا کلام 1967ء میں شائع ہوا تھا جبکہ جانباز جتوئی کا اصل نام غلام رسول خاں جتوئی ہے۔ 1918ء میں پیدا ہوئے۔ کئی ادبی تنظیموں کے رکن رہے اور اعزازات حاصل کیے۔ آپ کی تصانیف میں ارداساں اور فضائل محمد شامل ہیں۔ ممتاز عالم، ادیب، سفر نامہ نگار اور نقاد ڈاکٹر اے جی اشرف کا تعلق بھی قصبہ جتوئی سے ہے۔ بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی کے شعبہ اُردو کے صدر رہے۔ اس کے بعد انقرہ یونیورسٹی کے شعبہ اردو سے منسلک ہوئے۔آپ کی تصانیف میں آغا حشر اور ان کا فن ، اقبال اور قائد اعظم، لیکچرز آن اقبال اور ڈاکٹر این میری شمل،ادب اور سماجی عمل، منٹو کی بیس کہانیاں، اُردو سٹیج ڈراما، غالب اور اقبال، مسائل ادب، ذوق دشت نوردی (سفرنامہ)وغیرہ شامل ہیں۔ قصبہ جتوئی کے دیگر شعرا میں سے کہتر جن کا پورا نام مولانا نور محمد تھا 1871ء میں پیدا ہوئے اور 1941ء میں انتقال کیا۔ وڈا مجموعہ مولود شریف، اصل مجموعہ کلاں وغیرہ آپ کی تصانیف ہیں۔ غلام حیدر مونس 1896ء میں پیدا ہوئے اور 1956ء کے لگ بھگ فوت ہوئے۔ مختلف اصناف پر مشتمل دیوان کے علاوہ ’’سسّی‘‘ جو قریباً 500 صفحات پر مشتمل ہے ،اپنی مثال آپ ہے۔ رازجتوئی جن کا اصل نام مرید حسین خان ہے۔ 1917ء میں قصبہ جتوئی میں پیدا ہوئے۔ آپ سرائیکی زبان کے مشہور شاعر اور نثرنگارہیں۔ آپ کی کئی تحریریں شائع ہوئیں۔ محمد اقبال جو شاعری میں تحسین تخلص کرتے ہیں1943ء میںپیدا ہوئے۔ آپ نے ایک شعری مجموعہ ’’ڈکھ دا بار‘‘ ترتیب دیا۔ کوثر جتوئی بھی سرائیکی کے شاعر ہیں۔ کوثر جتوئی دے دوہڑے اور ہجری دوہڑے ان کی تصانیف ہیں۔ منیر طائر اور ڈاکٹر خالد پرویز بھی شعری شناخت رکھتے ہیں۔ جتوئی کی آبادی 1981ء میں 21422 اور 1998ء کی مردم شماری کے مطابق 38986 نفوس پر مشتمل تھی۔ اب اس کی آبادی 55 ہزار کے لگ بھگ ہے۔ (اسد سلیم شیخ کی تصنیف ’’نگر نگر پنجاب:شہروں اور قصبات کا جغرافیائی، تاریخی، ثقافتی اور ادبی انسائیکلوپیڈیا‘‘ سے مقتبس) ٭…٭…٭

[1]

حوالہ جات[ترمیم]