مامونی رایسم گوسوامی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
مامونی رایسم گوسوامی
 

معلومات شخصیت
پیدائش 14 نومبر 1942ء  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
گوہاٹی  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 29 نومبر 2011ء (69 سال)[1]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت بھارت (26 جنوری 1950–)
برطانوی ہند (–14 اگست 1947)
ڈومنین بھارت (15 اگست 1947–26 جنوری 1950)  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ شاعرہ،  اکیڈمک  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان آسامی زبان[2]  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
نوکریاں دہلی یونیورسٹی  ویکی ڈیٹا پر (P108) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اعزازات
گیان پیٹھ انعام  (2000)[3]
ساہتیہ اکادمی ایوارڈ  (برائے:Mamare Dhara Tarowal Aru Dukhan Upanyasa) (1982)[4]
پرنس کلاز ایوارڈ
 پدم شری اعزاز   ویکی ڈیٹا پر (P166) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
IMDB پر صفحہ  ویکی ڈیٹا پر (P345) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

مامونی رایسم گوسوامی (انگریزی: Mamoni Raisom Goswami) (14 نومبر 1942ء-29 نومبر 2011ء) (آسامی زبان:ইন্দিৰা গোস্বামী) ایک آسامی مصنفہ، شاعرہ، پروفیسر اور لکھاری تھیں۔ انھیں 1983ء میں ساہتیہ اکیڈمی اعزاز،[5] 2001ء میں گیان پیٹھ انعام،[6] اور پرنسپل پرنس کلاوس لاوریٹ انعام، 2008ء [7][8] سے نوازا جا چکا ہے۔ وہ عصر حاضر کی مشہور ادیبہ ہیں جن کی کئی کتابیں آسامی سے انگریزی میں ترجمہ ہو چکی ہیں۔

اپنی ادبی دنیا کے علاوہ وہ سماجی تبدیلی کے لیے بھی مشہور ہیں۔ انھوں نے اپنی تحریروں میں سماجی آزادی اور سماجی تبدیلی کی بات کی ہے اور آزاد آسام اور حکومت ہند کے مابین ثالثی بن کر صلح و امن کی خوب کوششیں کیں۔ ان کی کوششوں کی وجہ سے ایک گروپ بنام پپلز کنسلٹیٹو گروپ بنا۔ وہ خود کو امن کی متلاشی مانتی تھیں۔ ان کی تحریروں کو کئی اسٹیج اور ناٹک میں دکھایا گیا ہے۔ ایک فلم اداجیہ ان کی ناول پر بنی ہے۔ اور اسے بین الاقوامی اعزازات سے بھی نوازا گیا ہے۔ ان کی زندگی پر ایک فلم بنی جس کا نام ورڈس فروم دی مسٹ ہے اور جسے جہنو بروا کے ڈیریکٹ کیا ہے۔

ابتدائی زندگی اور تعلیم[ترمیم]

اندرا گوسوامی کی ولادت گوہاٹی میں ہوئی۔ ان کے والد اومرکنٹ گوسوامی اور والدہ امبیکا دیوی ہیں۔ انتدائی تعلیم گوہاٹی میں حاصل کرنے کے بعد کوٹن کالج کوہاٹی سے آسامی ادب میں گریجویشن کیا اور وہیں سے اسی موضوع میں ماسٹر بھی کیا۔

کیرئر[ترمیم]

1962ء میں ان کی پہلی کتاب ““چناکی موروم“ منظر عام ہر آئی جو کہانیوں کا مجموعہ تھی اور اس وقت وہ طالبہ ہی تھی۔[9] آسام میں انھیں مامونی بائدیو کے نام سے جانتے ہیں۔[10] ان کی پہلی کتاب کے ناشر کیرتی ناتھ نے انھیں اپنے رسالہ میں لکھنے کے لیے دعوت دی اور اس وقت وہ محض 8 برس کی تھیں۔[11]

ذہنی دباؤ[ترمیم]

بچپن ہی سے انھیں ذہنی دباو کا سامنا کرنا پڑا۔[12][13][14] اپنی خود نوشت سوانح عمری، دی ان فنشڈ آٹوبایگرافی،[12] میں انھوں نے لکھا ہے کہ انھوں نے شیلونگ میں کئی بار اپنے گھر سے کودنے کی کوشش کی۔[15] متعدد خود کشی کے اقدام نے ان کی جوانی کی زندگی کو اجیرن بنا دیا۔ شادی کے محض 18 ماہ بعد ان کے کرناٹک نزاد شوہر کا کشمیر میں ایک سڑک حادثہ میں انتقال ہو گیا جس کے بعد انھوں نے نیند کی گولیاں لینی شروع کر دیں۔[16][17] اس کے بعد انھیں آسام لایا گیا اور انھوں نے درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا اور سینک اسکول، گوالپارا میں معلمہ ہو گئیں۔ یہاں نے انھوں پھر لکھنا شروع کیا لیکن اس بار ان کی تحریروں میں زندگی کے حادثات کی جھلک صاف دکھائی دیتی تھی بالخصوص شوہر کی وفات اور مدھیہ پردیش اور کشمیر میں زندگی گزارنے کا تجربہ ان پر کافی اثر کر چکا تھا۔[18]

ورانداون کی زندگی[ترمیم]

گوالپارا میں تدریس کے بعد ان کے استاد نے انھیں ورنداون جانے کا مشورہ دیا تاکہ کچھ ذہنی سکون مل سکے۔ انھوں نے اپنی بیوگی کا تذکرہ اپنی ناول دی بلیو نیکیڈ بارجا، 1976ء میں کیا اور ورنداون کی دکھ بھری زندگی کا بھی نقشہ کھینچا ہے۔ ایک درندناک پہلو ورنداون کا یہ بھی ہے کہ جوان بیوہ عورتوں کو آشرم والے خوب ترجیح دیتے ہیں جبکہ بوڑھی عورتیں محروم رہ جاتی ہیں۔ ورانداون میں انھوں نے راماین کا مطالعہ شروع کیا تلسی داس کے راماین کا کثیر حصہ پڑھ ڈالا۔ تلسی داس کی راماین انھوں نے محض 11 روپیہ میں خریدی تھی۔</ref> written by Madhava Kandali۔[19]

دہلی یونیورسٹی[ترمیم]

دہلی یونیورسٹی کے شعبہ بھارتی زبان و ادب میں آسامی زبان کی پروفیسر ہو گئیں اور اس طرح اب ان کا مسکن دہلی ہو گیا۔[20] یہیں رہ کر اہوں نے اپنی شاہکار کتابیں لکھیں جن میں کئی افسانے جیسے ہری دوئے، ننگوتھ شوہور، بوروفور رانی شامل ہیں۔

انھوں نے اپنی کتاب پیجیز سٹینڈ وتھ بلڈ میں سکھوں پر ہونے مظالم کو موضوع بنایا جب سابق وزیر اعظم بھارت اندرا گاندھی کے قتل کے بعد سکھ مخالف فسادات کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ گوسوامی اس وقت دہلی شکتی نگر، اترپردیش علاقہ میں قیام پزیر تھیں اور انھوں نے اپنی آنکھوں سے فسادات کا مشاہدہ کیا تھا۔

کامیابی[ترمیم]

1982ء میں انھیں ساہتیہ اکادمی اعزاز کے نوازا گیا۔ 2000ء میں گیان پیٹھ انعام سے سرفراز ہوئیں۔ گوسوامی کے ناول کے دو خاص موضوعات عورت اور آسامی سماج ہے مگر انھوں آسامی سماج میں ایک مرد کردار اختراع کیا جو اندرناتھ کا ہے جسے انھوں نے اپنی کتاب دتال ہنتیر اونی ہودہ میں لکھا ہے۔

کتابیات[ترمیم]

ناول[ترمیم]

  • 1972ء ۔ چیناور سروت
  • 1976ء نیل کنٹھی براہ
  • 1980ء اہیرون
  • 1980ء میمور دھورا
  • 1980ء بدھو ساگور دھوکھور گیشا
  • 1988ء دتال ہتیر اونی کھوا ہودا
  • 1989ء اودے بھانور چرترو
  • ننگوتھ سوہور

خود نوشت سوانح[ترمیم]

  • این ان فنشڈ آٹوبایوگرافی (آسامی زبان:আধা লেখা দস্তাবেজ)
  • بایوگراگیز نیو پیجیز (آسامی زبان:দস্তাবেজ নতুন পৃষ্ঠা)
  • بایوگراگیز نیو پیجیز (آسامی زبان:অপ্সৰা গৃহ)

افسانے[ترمیم]

  • بیسٹ
  • دوارکا اینڈ ہز سن
  • دی جرنی

شاعری[ترمیم]

  • پین اینڈ فلیش
  • پاکستان
  • اوڈے تو ا ہور

غیر افسانوی ادب[ترمیم]

  • راماین فروم گنگا ٹو برہم پتر، دہلی 1996ء

آن لائن[ترمیم]

اعزازات[ترمیم]

مزید دیکھیے[ترمیم]

بھارتی مصنفات کی فہرست

حوالہ جات[ترمیم]

  1. http://english.samaylive.com/nation-news/676496808/renowned-writer-indira-goswami-dies.html
  2. http://data.bnf.fr/ark:/12148/cb12534971w — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
  3. http://www.jnanpith.net/page/jnanpith-laureates
  4. http://sahitya-akademi.gov.in/awards/akademi%20samman_suchi.jsp#ASSAMESE — اخذ شدہ بتاریخ: 20 فروری 2019
  5. A History of Indian Literature آرکائیو شدہ 10 مئی 2016 بذریعہ وے بیک مشین
  6. Jnanpith Award Presented, The Hindu، 25 فروری 2002 آرکائیو شدہ 7 نومبر 2012 بذریعہ وے بیک مشین۔
  7. "Principal Prince Claus Award for Indira Goswami"۔ Assam Times۔ 11 دسمبر 2008۔ 27 جولائی 2011 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  8. Chaudhuri, Supriya (2008)۔ "Indira Goswami: Writer, Woman, Activist"۔ 2008 Prince Claus Awards (PDF)۔ Amsterdam: Prince Claus Fund۔ صفحہ: 30–43۔ ISBN 978-90-76162-14-0۔ 4 مئی 2012 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 دسمبر 2016 
  9. "Dr. Mamoni Raisom Goswami"۔ India-north-east.com۔ 26 اگست 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ  [غیر معتبر مآخذ؟]
  10. Pisharoty, Sangeeta Barooah (9 دسمبر 2011)۔ "Adieu baideo…"۔ دی ہندو 
  11. "Mamoni Raisom Goswami | Dr Mamoni Raisom Goswami | Indira Raisom Goswami | Indira Goswami"۔ www.assaminfo.com۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 مئی 2019 
  12. ^ ا ب Goswami, Mamoni Raisom (1990)۔ The Unfinished Autobiography۔ New Delhi: Sterling Publishers۔ ISBN 978-81-207-1173-0 
  13. Assam's Fiery Pen
  14. Khan, Shehar Bano۔ "Dr Indira Goswami: Assam's fiery pen" [غیر معتبر مآخذ؟]
  15. Adha Lekha Dastabej، 1983, Students' Stores, Guwahati
  16. Indira Goswami آرکائیو شدہ 27 فروری 2012 بذریعہ وے بیک مشین
  17. Confessions : Indira Goswami آرکائیو شدہ 23 فروری 2015 بذریعہ وے بیک مشین
  18. "The Days of Mamoni Raisom Goswami"۔ onlinesivasagar.com۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 مئی 2019 
  19. "Dr Mamoni Raisom Goswami"۔ Assam Online Portal (بزبان انگریزی)۔ 2013-01-09۔ 25 مئی 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 مئی 2019 
  20. Dr Mamoni Raisom Goswami آرکائیو شدہ 24 اکتوبر 2013 بذریعہ وے بیک مشین، Assamportal.com