استصحاب

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

استصحاب فقہ اِسلامی کی ایک اصطلاح ہے۔ اِسے استدلال کی ایک جزوی قسم سمجھا جاتا ہے۔

اشتقاقیات[ترمیم]

استصحاب کا مادہ صحب ہے، اس کے لغوی معنی مصاحبت کے طلب کرنے کے بھی ہیں اور صحبت و رفاقت کے طلب کرنے کے بھی ہیں اور صحبت و رفاقت کے استمرار کے بھی[1]،استصحاب میں چونکہ سابق حکم کااستمرار و تسلسل باقی رہتا ہے ، اس لیے علما اصول نے اس اصطلاح کو استعمال کیاہے۔

تعریف[ترمیم]

فقہا نے استصحاب کی مختلف تعریفیں کی ہیں ، چند تعبیرات یہاں ذکر کی جاتی ہیں :

(1) دلیل کے نہ ہونے کی وجہ سے کسی حکم کی نفی یا جو بات دلیل سے ثابت ہو اس کے باقی رہنے پر استدلال کرنا[2]۔

(2) جو چیز زمانۂ اول میں ثابت ہو اس کو آئندہ زمانہ میں بھی ثابت ماننا ، کیونکہ تغیر حال پر کوئی دلیل موجود نہیں[3]

(3)کسی دلیل عقلی یا دلیل شرعی کو اس بنیاد پر اختیار کرنا کہ باوجود تلاش کے اس حکم میں تغیر کی کوئی دلیل موجود نہ ہو، یہ امام غزالی کی تعریف کا خلاصہ ہے[4]

(4)جو حکم ثابت ہو اس کو ثابت اور جس بات کی نفی ثابت ہو ، اس بات کی نفی کا حکم اس وقت تک برقرار رکھنا جبتک کہ تبدیلئ حکم پر کوئی دلیل نہ آجائے، یہ ابن قیم کی تعریف ہے[5]

(5) جو بات متحقق ہو چکی ہو اور اس کے ختم ہونے کا گمان نہ ہو، اس کے باقی رہنے کا ظنی حکم، یہ تعریف علامہ ابن ہمام اور ان کے شارحامیر بادشاہ کی ہے [6]

(6) جب تک تبدیلی پر کوئی دلیل موجود نہ ہو حکم کو باقی قرار دینا [7]

(10) جوحکم ماضی میں کسی دلیل سے ثابت ہو اس کے بر خلاف حکم نہ ہونے کی وجہ سے زمانۂ حال میں بھی اس حکم کو باقی قرار دینا یہ تعریف شیخ عبد الوہاب الخلاف نے کی ہے[8]

ان تعریفات کا خلاصہ یہ ہے کہ دلیل کے ذریعہ کوئی حکم پہلے سے ثابت ہو اور کوئی صرح دلیل اس حکم کے آئندہ باقی رہنے پر موجود ہواور نہ اس حکم کے ختم ہو جانے پرایسی صورت میں اس حکم کو باقی اور مسلسل قرار دینے کا نام استصحاب ہے، خواہ ماضی کے حکم کو حال میں یا حال کے حکم کو مستقبل میں یا ماضی میں  موجود سمجھا جائے۔

فقہی تشریح[ترمیم]

اِستِصحاب کے لغوی معنی ہیں: ’’باقی رکھنا‘‘۔ ازروئے استدلال یہ طے کرنا کہ کسی چیز کا وجود یا عدمِ وجود علیٰ حالہٖ قائم رہے، تا آنکہ تبدیلیٔ حالات سے اِس میں تبدیلی پیدا نہ ہوجائے۔ یہ گویا وہ عقلی دلیل ہے جس کی بنا نہ تو نص پر ہے، نہ اجماع پر اور نہ ہی قیاس پر ہی ہے۔ جیسا کہ علی بن محمد الآمدی (متوفی 631ھ) نے کہا ہے کہ: ’’ھُوَ عِبَارَۃٌ عَنْ دَلِیْلِِ لَا یَکُوْنُ نَصًّا وَ لَا اِجْمَاعًا وَ لَا قِیَاسًا ۔[9]

استدلال کی 2 اِقسام ہیں: اول استدلال منطقی، جس کو مثال سے یوں پیش کیا جا سکتا ہے کہ بیع کا ایک معاملہ ہے اور یہ ہر معاملے کا سب سے بڑا جزو کہلاتا ہے، یعنی رضا مندی۔ جسے اگر تسلیم کر لیا جائے تو یہ ایک ایسا قول ہوگا جس کے ساتھ ایک دوسرا قول بھی تسلیم کرنا پڑے گا اور وہ یہ کہ بیع کا سب سے بڑا جزو رَضا مندی ہے، کیونکہ یہ منطقی نتیجہ ہے قولِ اَول کا، جس پر ازروائے عقل کوئی اعتراض وارد نہیں ہوتا اور جسے اِس لیے من و عن صحیح ماننا پڑے گا۔ استدلال کے دوسری قسم ’’استدلال عقلی‘‘ ہے جسے اصطلاحاً اِستصحاب الحال کہا جاتا ہے اور اِس کی تعریف یوں کی جا سکتی ہے کہ:’’ یہ وہ دلیل عقلی ہے کہ کوئی اگر اور دلیل (یعنی نص، اجماع اور قیاس کی) موجود نہیں تو پھر اِس (یعنی اِستصحاب) سے کام لیا جائے گا۔مثلاً اِس صورت میں جب کسی چیز کے وجود یا عدمِ وجود کو باقی رکھنا مقصود ہے حتیٰ کہ حالات تبدیل ہوجائیں یا بدل جائیں۔ امام شافعی کے متّبعین میں سے اکثر یعنی المزنی، الصیرفی، امام غزالی اور ایسے ہی امام احمد بن حنبل اور اُن کے اکثر پیرو اور اِسی طرح شیعہ امامیہ بھی خاص خاص صورتوں میں استصحاب کے قائل ہیں۔ البتہ احناف میں سے بعض کو اور متکلمین کی ایک جماعت کو اِس سے اِنکار ہے۔[10]

امام ابن قَیَّم الجوزیہ کا قول[ترمیم]

امام ابن قَیَّم الجوزیہ (متوفی 751ھ) نے اِستصحاب کی تعریف اِن الفاظ میں کی ہے کہ: ’’جو ثابت ہے، اُس کا اثبات اور جس کی نفی ہو چکی ہے، اُس کی نفی کو قائم رکھنا ہے اور اِس کی تین اِقسام ہیں: ’’اسْتِدَامَۃُ إثْبَاتِ مَا کَانَ ثَابِتًا اَوْ نَفْیُ مَا کَانَ مَنْفِیًا وَ ھُوَ ثَلَاثَۃُ اَقْسَامِِ۔[11]

استصحاب کی صورتیں[ترمیم]

علما اصول نے استصحاب کی پانچ صورتیں ذکر کی ہیں،

(1) جو حکم شرعی پہلے سے سے ثابت ہو جب تک اس میں تبدیلی کی کوئی دلیل نہ آجائے ، اس کے باقی رہنے کا حکم لاگایا جائے، جیسے نکاح صحیح کے ذریعہ جب مردو عقرت ایک دوسرے کے لیے حلال ہو گئے، تو جب تک نکاح کے ختم ہونے پر کوئی دلیل نہ ہو وہ ایک دوسرے کی لیے حلال ہی رہیں گے۔

(2)بعض احکام وہ ہیں جو عقل اور شریعت دونوں ہی کے ثبوت و استمرار کا تقاضا کرتے ہیں، مثلا کسی شخص نے دوسرے سے قرض لیا یا ادھار سامان خریدا، تو جب تک دین ادا نہ کر دے یا دوسرا فریق بری نہ کر دے،  اس وقت تک اس کی ذمہ داری باقی رہے گی۔

(3) کوئی حکم عام ہو تو جب تک تخصیص پر کوئی دلیل نہ آجائے وہ عام رہے گا، اسی طرح  جب کوئی نص وارد ہو تو جب تک دلیل نسخ نہ آجئے وہ حکم باقی رہے گا۔

ان تینوں صورتوں کے معتبر ہونے پر اہل علم کا اتفاق ہے۔

(4) جب تک کسی امر کے بارے میں نص وارد نہ ہو اس وقت تک وہ جائز شمار کیا جائے، انسان اسی وقت مکلف ہوگا ، جب اس کو کسی حکم کا مکلف قرار دینے پر نص موجود ہو۔

(5) اختلافی مسئلہ میں اتفاقی مسئلہ کے حکم کو باقی رکھا جائے، جیسے ایک شخص نے تیمم کیا اور نماز شروع کردی ، تو اگر پانی نظر آنے سے پہلے اس نے اپنی نماز پوری کرلی تو بالاتفاق نماز پوری ہوجائے گی اور اگر نماز کے ختم ہونے سے پہلے پانی نظر آجائے تو اس صورت میں اختلاف ہے ، اس اختلافی صورت میں پانی نظر آنے سے پہلے والے حکم کو باقی رکھا جائے یہ بھی استصحاب کی ایک قسم ہے، جس کو استصحا اجماع کہتے ہیں، حافظ ابن قیم کے بقول ان میں سے آخری دو صورتوں کے بارے میں اختلاف ہے اور باقی صورتوں کے معتبر ہو نے کے سلسلہ میں اصولی طور پر اتفاق ہے۔[12]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. القاموس المحیط: 134
  2. تخریج الفروع علی الاصول از شہاب الدین زنجانی: 79
  3. نہایۃ السول: 3/131
  4. المستصفی: 1/128
  5. اعلام الموقعین:1/339
  6. تیسیر التحریر: 4/176
  7. ارشاد الفحول: 208
  8. مصادر التشریع : 191
  9. محمد بن علی الآمدی: الاِحکام فی اُصولِ الاَحکام، جلد 4، صفحہ 161۔
  10. اردو دائرہ معارف اسلامیہ: جلد دؤم، صفحہ 112/113۔
  11. امام ابن قَیَّم الجوزیہ: إعلام الموقعین، جلد 1، صفحہ 294۔ مطبوعہ ادارۃ الطباعۃ المنیریہ، قاہرہ، مصر۔
  12. اعلام الموقعین:1/341