ابو النصرمنظور احمد شاہ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

خواجہ ابوالنصر منظور احمد شاہ ہاشمی (بانی و سابق شیخ الحدیث جامعہ فریدیہ، ساہیوال) ایک علمی و روحانی شخصیت تھے۔ آپ کو فاتح عیساٸیت ، فرید العصر ، شیخ الحدیث ، مفسر قرآن اور سفیرِ عشقِ رسولﷺ کے تعارف سے جانا جاتا ہے۔ آپ خاندانِ ہاشمیہ کے چشم و چراغ ہیں۔ حضرت مسلم بن عقیل کی اولاد سے ہیں۔ آپ نے ملتِ اسلامیہ اور ملکِ پاکستان کے لیے عظیم خدمات سر انجام دی ہیں۔ آپ نے جامعہ فریدیہ ساہیوال جیسا عظیم ادارہ قاٸم کیا۔ ساری عمر تدریس کرتے رہے۔ وفات سے دو دن پہلے بھی درسِ صحیح بخاری دیا۔ 100 سے زائد کتابیں تصنیف کی ہیں جن میں تفسیر نور القرآن، سیرت پر جلوہ جاناںﷺ، مدینة الرسولﷺ، مثنوی کے بعض مقامات کی شرح پر سوزِ دروں اور عیساٸیت کے رد میں آٸینہ حق جیسی اہم کتب شامل ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں تلامذہ ملک کے طول و عرض اور بیرونِ ممالک خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ صدر ضیإ الحق کے دور میں وفاقی شرعی عدالت کے مشیر بھی رہے۔ جمعیت علمإ پاکستان کے لیے آپ کی خدمات بہت اہم ہیں۔ تنظیم المدارس اہلسنت پاکستان کے قیام میں آپ کا کردار بہت اہم تھا جس کا ذکر مفتی اعظم پاکستان مفتی منیب الرحمن صاحب جامعہ فریدیہ میں کیا۔ جماعتِ اہلسنت پاکستان کے سٹیج پر مرکزی قاٸدین میں سے ایک تھے۔ قیامِ پاکستان کے وقت اپنے والد حضرت مخدوم المشاٸخ پیر شاہ چراغ علیہ الرحمہ کے ساتھ جلال آباد انڈیا سے ہجرت کرکے پاکپتن کے نواح میں آ کر آباد ہوٸے۔ بعد میں مستقل سکونت ساہیوال میں اختیار کی۔ آپ ہر سال یورپ میں تبلیغ کے لیے جاتے رہے ہیں۔ اور یورپی ممالک میں کٸی ادارے قاٸم کیے۔ ستر سال تک لگاتار حج کی سعادت حاصل کی۔ ملک و بیرون ممالک میں مریدین کی تعداد لاکھوں تک پہنچتی ہے۔

ولادت[ترمیم]

ابوالنصر منظور احمد شاہ بن مولانا چراغ علی شاہ 24؍ رجب المرجب 1339ھ / 15 دسمبر 1930ء میں موضع چوہان ضلع فیروزپور (انڈیا) کے مقام پر پیدا ہوئے۔ آپ نسباً ہاشمی سید ہیں اور آپ کا سلسلۂ نسب چالیس واسطوں سے سیّد امام مسلم(مسلم بن عقیل) تک پہنچتا ہے۔ آپ کے والد ماجد مولانا چراغ علی شاہ مستند عالم ہونے کے علاوہ طبیب بھی ہیں۔ علم الانسان میں کافی دسترس حاصل ہے۔ ’’بدر قریش‘‘ آپ کی مشہور تالیف ہے۔ جلال آباد کی مرکزی جامع مسجد میں خطیب رہ چکے ہیں۔

تعلیم و تربیت[ترمیم]

آپ نے فارسی اور صرف کی کتب (مکمّل) اپنے والد ماجد سے ہندوستان میں ہی پڑھیں اور پھر جلال آباد غربی فیروز آباد کے مدرسہ امداد العلوم میں پڑھتے رہے۔ تقسیم ہند کے وقت جب پاکستان کی طرف ہجرت کر کے ضلع ساہیوال کے موضع ڈھپئی میں سکونت اختیار کی، تو موضع ٹوانہ میں مولانا ابو لسیر مولانا محمد اسماعیل فاضل بصیر پوری سے کنز الد قائق، قدوری اور کافیہ وغیرہ کتب پڑھیں۔ مشکوٰۃ شریف اور جلالین شریف کا درس پاکپتن شریف کے مولانا الحاج محمد شریف تقشبندی سے لیا اور پھر اہل سنّت کی مرکزی درسگاہ دار العلوم حنفیہ فریدیہ بصیر پور میں داخل ہوئے۔ یہاں آپ دو تین سال تک فقیہہ اعظم ابو الخیر مولانامفتی محمد نور اللہ نعیمی سے شرف تلمذ حاصل کرتے رہے اور بالآخر اسی دار العلوم سے 1952ء میں سندِ فراغت اور دستارِ فضیلت حاصل کی۔ آپ نے درسِ نظامی کے نصاب کی تکمیل کے علاوہ میڑک، فاضل عربی اور فاضل فارسی کے امتحانات بھی پاس کیے۔ جامعہ اسلامیہ بہاول پور سے درجہ تخصص (ایم اے) کی ڈگری حاصل کی۔ جامعہ اسلامیہ بہاولپور میں آپ نے حضرت غزالی زماں سید احمد سعید کاظمی علیہ الرحمہ سے شرفِ تلمذ حاصل کیا۔ علاوہ ازیں آپ علما اکیڈمی کوئٹہ و پشاور کے بھی فاضل ہیں۔آپ نے 1954ء میں شیخ الاولیاء حضرت میاں علی محمد آف بسّی شریف سے بیعت اختیار کی۔ تائیدِ خداوندی سے آپ 50 سے زائد مرتبہ حجِ بیت اللہ شریف اور زیارت روضۂ انور سے مشرّف ہو چکے ہیں۔

عملی زندگی[ترمیم]

1952ء میں آپ نے درسِ نظامی کی تحصیل کے بعد ساہیوال کے محلّہ حیدری سے تبلیغِ دین کا آغاز کیا۔ صحیح عقائد کی ترویج اور اصلاحِ معاشرہ کے فرائض، بے شمار رکاوٹوں کے باوجود احسن طریقے سے سر انجام دیتے رہے۔ کچھ عرصہ مسجد قصاباں بیرونِ غلّہ منڈی میں خطابت فرمائی اور پھر سنہری مسجد گول چکر میں تشریف لائے جہاں وفات تک تبلیغ کا سلسلہ جاری رہا۔ یہاں آپ نے ایک دینی ادارہ کی بنیاد ڈالی جو پہلے دار العلوم عربیہ اور پھر جامعہ حنفیہ کے نام سے موسوم ہوا۔ بارہ سال اسی دار العلوم میں مہتمم اور مدّرس کے طور پر کام کرنے کے بعد آپ نے 1963ء میں ایک نیا دار العلوم جامعہ فریدیہ کے نام سے قائم کیا، تحریکِ پاکستان کے وقت آپ کا دور طالب علمی تھا۔ آپ نے طلبہ کے وفود کی نمائندگی کرتے ہوئے مختلف قصبات و دیہات میں عوام کو تحریک کے مقاصد اور اہمیّت سے روشناس کرایا۔ پاکستان بننے کے بعد مرزائیت کے ناسور کو ختم کرنے کی خاطر مسلمانانِ پاکستان نے دومرتبہ 1953ء اور 1974ء) تحریک چلائی جو بالآخر کامیابی سے ہمکنار ہوئی اور پاکستان کی قومی اسمبلی نے مرزائیوں کو غیر مسلم اقلیّت قرار دیا۔ ان دونوں تحریکوں میں آپ نے بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا۔ 1953ء کی تحریک میں آپ نے ساہیوال میں دورے کیے اور مرزائیوں کے عقائد سے عوام کو روشناس کرایا۔ ’’مرزائیوں سے بائیکاٹ کی شرعی حیثیت‘‘ نامی رسالہ دس ہزار کی تعداد میں چھپوا کر تقسیم کیا۔ مختلف باطل فرقوں کے مبلّغین بالخصوص مشہور عیسائی پادریوں سے آپ کے بہت سے مناظرے ہوئے اور انہی مناظروں میں اسلام کی حقّانیت کا اقرار کرتے ہوئے ایک ہزار عیسائی مسلمان ہوئے

تصنیفات[ترمیم]

سیّد منظور احمد نے میدانِ تحریر میں کافی کام کیا ہے۔ آپ کی تالیفات مندرجہ ذیل ہیں:

  • حضور الحرمین
  • آئینہ حق
  • مقالۂ علمیّہ
  • لاتثلیت فی التوحید
  • مسیح کون ہے
  • بہائی اصول
  • اسلام اور ماہِ صیام
  • اسلام اور انفاق فی سبیل اللہ
  • اسلام اور حفظانِ صحّت
  • اسلام اور سوشلزم
  • اسلام اور عید قربان
  • فلسفۂ زکوٰۃ
  • فلسفۂ جہاد
  • علِم القرآن
  • جنگِ مصر
  • مرزائیوں سے بائیکاٹ کی شرعی حیثیت
  • فیوضاتِ فریدی۔فیوضات فریدی کے مختلف دینی و تحقیقی مضامین کا مجموعہ ہے
  • الفریدی کے نام سے آپ کی سرپرستی میں ایک ماہوار تبلیغی رسالہ بھی شائع ہونے لگا۔ [1]
[2]

وفات[ترمیم]

ان کی وفات 25 اگست 2019ء بروز اتوار (23 ذالحجہ 1440ھ) کو ہوئی۔[3]

حوالہ جات[ترمیم]

ذاتی معلومات