عمرو بن حزم

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حضرت عمروبنؓ حزم
معلومات شخصیت
رہائش مدینہ
پیشہ محدث

عمرو بن حزم صحابی رسول اور بیعت عقبہ میں شامل تھے

نام ونسب[ترمیم]

عمرو نام، ابو الضحاک کنیت،خاندان نجار سے ہیں،نسب نامہ یہ ہے،عمرو بن حزم بن زید بن لوذان بن عمرو بن عبد مناف بن غنم بن مالک بن نجار، عمارہ بن حزم جو بیعت عقبہ میں شریک تھے، ان کے برادر علاتی ہیں ان کی ماں خاندان ساعدہ سے تھیں۔

اسلام[ترمیم]

ابتدائے اسلام اورہجرت کے زمانہ تک کم سن تھے، اس بنا پر زمانۂ اسلام کی صحیح تعیین نہیں ہو سکتی، غالباً اپنے گھر والوں کے ساتھ مسلمان ہوئے ہوں گے۔

غزوات[ترمیم]

کم عمری کی وجہ سے بدر اوراحد میں شرکت کے قابل نہ تھے، جب غزوہ خندق واقع ہوا تو پانزدہ سالہ تھے، اس لیے غزوہ میں شریک ہوئے،اس کے بعد اور بھی غزوات میں شرکت کی۔ 10ھ میں آنحضرتﷺ نے خالد بن ولید کو نجران بھیجا تھا، وہاں کے لوگ مسلمان ہوئے تو عمرو کو حاکم بنا کر روانہ فرمایا اورایک یاداشت لکھوا کر حوالہ کی جس میں فرائض سنن، صدقات، دیات اوربہت سے احکام درج تھے، چنانچہ کاروبار حکومت کے ساتھ ساتھ محکمۂ مذہبی بھی انہی کی زیر نگرانی تھا، یعنی تعلیم اورتبلیغ کا مذہبی فرض بھی انجام دیتے تھے، صاحب استیعاب لکھتے ہیں: استعملہ رسول اللہ ﷺ علی نجران لیفقھھم فی الدین ویعلم القرآن ویاخذ صدقاتھم۔ یعنی رسول اللہ ﷺ نے ان کو فقہ قرآن کی تعلیم اور صدقات کی تحصیل پر مامور فرمایا تھا۔[1] اس وقت ان کا سن عام روایت کے لحاظ سے 17سال کا تھا؛ لیکن ہمارے نزدیک یہ صحیح نہیں،کیونکہ غزوہ خندق میں واقع ہوا، اوراس وقت وہ پندرہ سالہ تھے اس بنا پر 10 ھ میں ان کا سن کسی حال میں 20سال سے کم نہیں ہو سکتا ،مدینہ سے روانگی کے وقت بیوی کو جن کا نام عمرہ تھا ہمراہ لے گئے تھے،چنانچہ نجران پہنچ کر اسی سال ایک لڑکا پیدا ہوا،جس کا نام انھوں نے محمد اور ابو سلیمان کنیت رکھی،لیکن پھر آنحضرتﷺ کو مطلع کیا، تو آنحضرتﷺ نے لکھا کہ محمد نام اور ابو عبد الملک کنیت رکھو، آنحضرتﷺ کے بعد غالبا ًمدینہ ہی میں مقیم رہے۔

وفات[ترمیم]

اور یہیں 51ھ میں وفات پائی ،مؤرخین نے سنہ وفات میں سخت اختلاف کیا ہے ؛لیکن صحیح یہی ہے کہ سنہ پچاس کے بعد انتقال کیا۔

اہل و عیال[ترمیم]

دو بیویاں تھیں، پہلی کا نام عمرہ تھا اور عبد اللہ بن حارث غسانی کی بیٹی تھیں جو قبیلۂ ساعدہ کے حلیف تھے، [2] دوسری کا نام سودہ بنت حارثہ تھا، [3] اوریہ ان کے اخیر وقت تک زندہ تھیں۔ اولاد کی صحیح تعداد معلوم نہیں محمد البتہ مشہور ہیں جو عہد نبوت میں پیدا ہوئے حضرت عمرؓ وغیرہ سے حدیث سنی 63ھ یوم حرہ میں لشکر شام سے مقابلہ ہوا اور اسی میں شہادت حاصل کی اس موقع پر قبیلہ خزرج کا علم انہی کے ہاتھ میں تھا، قاضی ابوبکر فقہیہ جو روایت واجتہاد دونوں کے مالک تھے،انہی کے بیٹے ہیں۔

فضل وکمال[ترمیم]

علمی قابلیت ،اصابت رائے ،قوت فیصلہ ،احکام شریعت پر عبور کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کو نجران کا حاکم مقرر کیا تھا،20 سال کی عمر میں حکومت کے ایک عہدہ جلیلہ کی انجام دہی اورپھر قرآن و فقہ کی تعلیم ان کی غیر معمولی قابلیت کا بین ثبوت ہے۔ احادیث نبویﷺ بھی ان سے روایت کی گئی ہیں جن میں وہ کتاب بھی ہے جو آنحضرتﷺ نے ان کو لکھوا کر دی تھی، اس کو ابو داؤد ،نسائی، ابن حبان، دارمی اور دیگر محدثین نے بھی نقل کیا ہے۔

اخلاق[ترمیم]

عمرو کے اخلاق میں حق گوئی سب سے نمایاں جوہر ہے، عمار بن یاسر کے متعلق آنحضرتﷺ نے فرمایا تھا کہ ان کو باغی گروہ قتل کرے گا اس بنا پر جب جنگ صفین میں وہ حضرت علی کی طرف سے شہید ہوئے تو انھوں نے امیر معاویہ اور عمرو بن عاص کو یہ حدیث یاد دلائی۔ ایک مرتبہ امیر معاویہ کے پاس گئے تو کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ بادشاہ سے رعیت کے متعلق قیامت میں سوال ہوگا۔[4][5]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. الاستيعاب في معرفة الأصحاب : أبو عمر يوسف بن عبد اللہ بن محمد بن عبد البر بن عاصم النمري القرطبي :الناشر: دار الجيل، بيروت
  2. طبقات ابن سعد:5/50
  3. (تہذیب التہذیب :8/20
  4. أسد الغابة۔المؤلف: أبو الحسن علي بن أبي الكرم محمد بن محمد بن عبد الكريم بن عبد الواحد الشيباني الجزري، عز الدين ابن الأثير۔الناشر: دار الفكر - بيروت
  5. الإصابة في تمييز الصحابة۔المؤلف: أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني الناشر: دار الكتب العلمية - بيروت