آق شمس الدین

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
آق شمس الدین
 

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1389ء [1]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
دمشق   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 16 فروری 1459ء (69–70 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
گوینوک   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت سلطنت عثمانیہ   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
نسل عربی [2]  ویکی ڈیٹا پر (P172) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ مورخ ،  طبیب ،  ماہر نباتیات ،  عالم مذہب   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی ،  عثمانی ترکی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

آق شمس الدین (پیدائش: 1389ء — وفات: 16 فروری 1459ء) سلطنت عثمانیہ کے صوفی شاعر، طبیب، عالم، فقیہ تھے۔ وہ سلطان محمد فاتح کے مشیر خاص بھی تھے۔ سلطنت عثمانیہ میں اُن کی عظمت و جلالت کا دور دورہ تھا کیونکہ انھوں نے سلطان محمد فاتح کے عہد میں صحابیٔ رسول حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی گمشدہ قبر دریافت کی تھی اور فتح قسطنطنیہ (29 مئی 1453ء) کی پیشگوئی کی تھی۔

بسم الله الرحمن الرحيم
الله

مضامین بسلسلہ اسلام :

سوانح[ترمیم]

نام و نسب[ترمیم]

شیخ شمس الدین کا اصل نام محمد شمس الدین المِلَّۃ والدِّین تھا لیکن آق شمس الدین کے نام سے مشہور ہوئے۔ شیخ شمس الدین شیخ شہاب الدین سہروردی کی اولاد سے تھے۔ شیخ کے والد حمزہ نامی ایک بزرگ تھے جنھوں نے ملکِ شام میں اپنی کرامات کی وجہ سے شہرت پائی اور ضلع قَوَق (جو اَب اماسیا کے نزدیک ہے) میں فوت ہوئے۔

پیدائش[ترمیم]

شیخ شمس الدین کی پیدائش 792ھ مطابق 1389ء میں دمشق میں ہوئی۔

ابتدائی تعلیم[ترمیم]

ابھی پانچ برس کے ہی تھے کہ دمشق سے اپنے والدین کے ہمراہ 799ھ مطابق 1397ء میں ضلع قَوَق میں آگئے۔ سات سال کی عمر میں علومِ دینیہ کا مطالعہ شروع کر دیا۔ اِسی دوران اُن کے والد حمزہ انتقال کرگئے تو انھوں نے بدر الدین بن قاضی سِمَاوْنَہ سے تحصیل علم کی خاطر جانا شروع کر دیا۔ بعد ازاں قصبہ عثمانجِق میں مدرّسِ قرآن مقرر ہو گئے۔[3]

تصوف و طریقت[ترمیم]

علومِ ظاہریہ کی تکمیل کے بعد وہ طریقت و تصوف کی طرف مائل ہونا شروع ہو گئے جو بعد میں اُن کی وجہ شہرت بن گیا۔ تصوف و طریقت میں کسی ایک خاص مرشد کی تلاش میں دور دراز کے مقامات کے سفر کرتے رہے اور یہ جستجو بدستور قائم رہی۔ ایران اور ماورا النہر کے بھی سفر کیے لیکن بالآخر 830ھ مطابق 1427ء میں کچھ تامل کے بعد حاجی بیرام ولی کی بیعت کرلی۔ چند ہی دِنوں بعد حاجی بیرام ولی نے شیخ شمس الدین کو خرقہ خلافت تفویض کیا۔[4]

بطور طبیب[ترمیم]

شیخ شمس الدین علم طب میں خاصی مہارت رکھتے تھے اور تصوف کے مسائل اور علم طب کے ہوتے ہوئے ایک مشترکہ زِندگی گزارنے پر مجبور ہوئے۔ شفاء بخش ادویات کے طبیب ہونے کے واسطے سے اُن کی سرگرمیاں انقرہ کے بازار کے مغربی سمت میں واقع ایک گوشہ یعنی ’’بیگ بازار‘‘ میں جاری رہیں۔ یہیں شیخ نے ایک چھوٹی مسجد بھی تعمیر کروائی اور گندم پیسنے کی ایک چکی بھی لگوائی۔ علم طب چونکہ انھوں نے حاصل کیا تھا اور اصلاً طبیبِ ظاہری تھے۔[5][6]

عبادت[ترمیم]

ضلع اِسکلیب، عثمانجِق، گوینوک اور بروصہ میں بھی مقیم رہے۔ فرض عبادت کے پابند تھے حتیٰ کہ سات بار حج اداء کیا مگر اُن سالوں کی تفصیلات معلوم نہیں ہوسکیں جن میں حج کے لیے سفر کرتے رہے۔

سلطان محمد فاتح کے مشیر خاص[ترمیم]

851ھ مطابق 1448ء اور 855ھ مطابق 1452ء کے درمیانی عرصے میں سلطان مراد ثانی کے قاضی عسکر سلیمان چِلبِی کے علاج کے لیے ادرنہ طلب کیا گیا۔ عثمانی لشکر کے ایک واعظ کی حیثیت سے انھوں نے فتح قسطنطنیہ میں حصہ بھی لیا۔ بعد کے زمانے ایک روایت یہ بھی ملتی ہے کہ انھوں نے صحابیٔ رسول حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کا مدفن بھی دریافت کیا جو اِس سے پہلے گمشدہ سمجھا جاتا تھا۔ شیخ نے سلطان محمد فاتح کی ایک بیٹی کا کامیاب علاج بھی کیا جس سے وہ سلطان محمد فاتح کے منظورِ نظر بن گئے۔[7]

وفات[ترمیم]

فتح قسطنطنیہ کے بعد شیخ واپس گوینوک آگئے تھے اور یہیں اپنی آخری عمر بسر کی۔ تقریباً 70 سال کی عمر میں وہ 16 فروری 1459ء کو گوینوک میں وفات پاگئے۔ اُن کی تدفین گوینوک میں کی گئی جس پر آج تک مقبرہ قائم ہے۔[8]

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. جی این ڈی آئی ڈی: https://d-nb.info/gnd/119386372 — اخذ شدہ بتاریخ: 7 مارچ 2015 — اجازت نامہ: CC0
  2. https://ar.m.wikipedia.org/w/index.php?title=%D8%AE%D8%A7%D8%B5:ZeroRatedMobileAccess&from=%D8%A2%D9%82_%D8%B4%D9%85%D8%B3_%D8%A7%D9%84%D8%AF%D9%8A%D9%86&to=http://dergipark.ulakbim.gov.tr/abuifd/article/view/5000114392
  3. اردو دائرہ معارف اسلامیہ: جلد 1، صفحہ 87۔
  4. اردو دائرہ معارف اسلامیہ: جلد 1، صفحہ 87۔
  5. طاش کوپرولوزادہ: الشقائق النعمانیہ، جلد 1، صفحہ 147۔
  6. نشانچی زادہ محمد بن احمد:  مرأتِ کائنات، صفحہ 556۔
  7. اردو دائرہ معارف اسلامیہ: جلد 1، صفحہ 88۔
  8. اردو دائرہ معارف اسلامیہ: جلد 1، صفحہ 88۔