ختنہ پر تنازع

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

ختنہ پر تنازع (انگریزی: Circumcision controversies) موضوع بحث اس وجہ سے بنا ہے کہ کیوں کہ مردوں اور خواتین کی ختنہ سے متعلق اکثر تنازعات ہوتے رہے ہیں۔ ان تنازعات کی وجہ کبھی مذہبی، کبھی اخلاقی اور طبی رہی ہے۔ ابراہیمی مذاہب میں عمومًا ختنہ کا تصور، خصوصًا مردوں کی ختنہ کا تصور بہت عام ہے۔ چنانچہ مسلمانوں، یہودیوں اور مورمونوں کسی بالغ مرد کا بے ختنہ ہونا عملًا غیر متصور بات ہے۔ اسلام سے الگ ہو کر نو خیز مذہب بننے والے بہائیت کے ماننے والے رسوم سے انکار کرتے ہیں، حالانکہ وہ ایک خدا کو مانتے ہیں محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو پیغمبر مانتے ہیں۔ وہ اس کے آگے بہاءاللہ کو پیغمبر مانتے ہیں اور ختنہ کو لازمی نہیں مانتے۔ تاہم عام طور سے مسیحیت کے ماننے والے ختنہ سے انکار کرتے ہیں۔

مردوں اور عورتوں کی ختنہ پر تنازع[ترمیم]

مرد کی ختنہ پر تنازع[ترمیم]

جدید دور میں انٹرنیٹ پر ختنہ پر مخالفت کرنے کے لیے کئی فورم قائم کیے گئے ہیں۔ ان ہی میں سے ڈاکٹرز اپوزنگ سرکم سیشن (انگریزی: Doctors Opposing Circumcision (D.O.C.)) ہے۔ ان کی مخالفت کی وجوہ اس طرح ہیں:

O ریاستہائے متحدہ امریکا کو چھوڑ کر کوئی بھی ملک روز مرہ طور پر اپنے کم عمر بچوں کی غیر مذہبی بنیادوں پر ختنہ کرواتا رہتا ہے۔
O حشفہ سے جڑا چمڑا بالکل فطری ہے اور یہ جنسیت میں ایک اہم کردار نبھاتا ہے۔
O ختنہ سے کوئی منصفانہ فائدہ حاصل نہیں ہوتا بلکہ یہ مضرت رساں ہے، درد اور تکلیف، جراحی کے نشان اور ماں اور نولود کے بندھن کو کمزور کرنے والا ہے۔
O دنیا بھر طبی ذمے داران ختنہ کو طبی طور پر غیر ضروری اور غیر اخلاقی قرار دیتے ہیں۔[1]

خواتین کی ختنہ پر تنازع[ترمیم]

مردوں کی ختنہ کے علاوہ عالمی سطح پر خواتین کے ختنہ پر تنازع ہے۔ اس تعلق سے حدیثوں کو حنفی اور اہل حدیث کے لوگ ضعیف قرار دیتے ہیں۔ اس وجہ سے عام سنیوں کے درمیان اس کا رواج کم ہے۔ تاہم شافعی لوگ اس کے قائل ہیں۔ خاص طور پر مصر میں یہ عام ہے اور اس پر انسانی حقوق کے کارکن کافی احتجاج کرتے ہیں۔ بھارت میں بوہرہ لوگوں پایا جاتا ہے، جس کے خلاف ان کی برادری کے کچھ لوگ اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت نے اس تعلق سے چند حقائق کو اپنی ویب گاہ پر جاری کیے ہیں:

O خواتین کی ختنہ میں ایسے طریقے شامل ہیں جو دانستہ طور پر نسوانی جنسی اعضا کو زخمی یا تبدیل شدہ بنا سکتے ہیں، جو غیر طبی وجوہ کی بنا پر ہیں۔
O اس طریقے سے لڑکیوں اور خواتین کو کچھ بھی فائدہ نہیں ہے۔
O ان طریقوں سے شدید خون کے بہاؤ اور پیشاب کرنے میں دشواری ہو سکتی ہے اور بعد میں پھوڑوں، انفیکشن اور زچگی میں پیچیدگی اور نومولود کی موت کا خطرہ لگا رہتا ہے۔
O افریقہ، مشرق وسطی اور ایشیا کے 30 ملکوں میں 200 ملین لڑکیوں اور عورتوں کی ختنہ کی گئی ہے۔
O خوانین کی ختنہ اکثر کم عمر لڑکیوں اور 15 سے کم عمر لڑکیوں کی کی جاتی ہے۔
O یہ عورتوں کے انسانی حقوق کی پامالی ہے۔ [2]

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]