فرخ زاد غزنوی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
فرخ زاد غزنوی
(فارسی میں: فرخزاد غزنوی ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

معلومات شخصیت
تاریخ پیدائش سنہ 1025ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تاریخ وفات 4 اپریل 1059ء (33–34 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت سلطنت غزنویہ   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والد مسعود   ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بہن/بھائی
مناصب
سلطان سلطنت غزنویہ   ویکی ڈیٹا پر (P39) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
برسر عہدہ
1053  – 1059 
طغرل حاجب  
ابراہیم غزنوی  

سلطان فرخ زاد کا دور انتہائی پرامن رہا۔ وہ 1052ء سے 1058ء تک سلطان رہا۔ اس نے 1058ء میں طبعی وفات پائی۔ اس کا جانشین اس کے چھوٹے بھائی ابراہیم غزنوی کو بنایا گیا۔ [1]

تخت نشینی[ترمیم]

طغرل کے قتل کے بعد توستگیین بھی غزنی آگیا اور اس نے تمام امرا اور دوسرے معزز لوگوں سے مل کر فیصلہ کیا کہ امیر سبکتگین کی اولاد کا سراغ لگانا چاہیے اور ان میں سے جو قابل اور بہترین شخص ہو اسے بادشاہ تسلیم کر لینا چاہیے۔ اس فیصلے کے مطابق سبکتگین کی اولاد کے باقی ماندہ افراد کی تلاش شروع ہوئی۔ بڑی دقتوں اور مشکلوں کے بعد تین شہزادے مل گئے تھے۔ ان میں شہزادہ فرخ زاد غزنوی، شہزاده ابراہیم غزنوی اور شہزادہ شجاع غزنوی یہ تینوں مختلف ممالک میں اسیرانہ زندگی بسر کر رہے تھے۔ ان میں سے بادشاہت کے لیے شہزادہ فرخ زاد کو منتخب کیا گیا۔ تمام اراکین سلطنت نے اسے اپنا بادشاہ تسلیم کر لیا اور اس کی اطاعت گزاری کا عہد کیا۔

سلجوقیوں سے معرکے[ترمیم]

سلطان فرخ زاد نے جب سلطنت غزنی کے تخت پر قدم رکھا تو حکومت کی باگ ڈور توستگین کرخی کے ہاتھوں میں آ گئی۔ داؤد سلجوقی نے جب غزنی کے اس زبردست انقلاب کی خبر سنی تو اس نے غزنی پر حملہ کر دیا۔ توستگین نے غزنی کے بہادر سپاہیوں کا ایک زبردست لشکر تیار کیا اور داؤد سلجوقی کا مقابلہ کرنے کے لیے شہر سے باہر نکلا۔ فریقین ایک دوسرے کے سامنے آئے اور لڑائی کا بازار گرم ہو گیا۔ دونوں لشکروں نے ایک دوسرے کی تباہی و بربادی کے لیے جی توڑ کر کوششیں کیں۔ صبح سویرے سے لے کر شام کے وقت تک دونوں طرف سے لشکری بڑی بہادر سے لڑتے رہے۔ سب ہی کے ذہنوں پر اپنے حریف کو ختم کرنے کا خیال مسلط تھا۔ اس کے علاوہ انھیں کسی بات کا ہوش نہ تھا۔ متواتر لڑائی کے باوجود طرفین میں سے کسی نے کسی قسم کی کوئی کمی ظاہر نہ کی، لیکن بارہ گھنٹے کی جان سوز معرکہ آرائی کے بعد سلجوقیوں کی ہمت جواب دیتی ہوئی نظر آئی اور میدان جنگ سے ان کے قدم اکھڑنے لگے۔ اپنے لشکریوں کو بد حواس و پریشان دیکھ کر سلجوقیوں کا سردار داؤد بھی ہمت ہار بیٹا اور آخر کار مجبور ہو کر میدان جنگ سے بھاگ گیا۔ توسنگین کرخی نے اپنے سپاہیوں کو ساتھ لے کر تھوڑی دور تک مفرور سلجوقیوں کا پیچھا کیا اور ان کے مال و اسباب اور بار برداری کے جانوروں کو قبضے میں کر کے وہ کامیاب و کامران شہر میں داخل ہوا۔ اس فتح سے حکومت غزنی کو بہت استقامت ملی۔ اس کی بنیادیں مضبوط سے مضبوط تر ہوئیں۔ اس فتح کے بعد غزنوی فوج بڑی شان و شوکت کے ساتھ خراسان کی طرف روانہ ہوئی۔ اس زمانے میں خراسان پر کلیسارق نامی شخص حکومت کر رہا تھا۔ وہ سلجوقیوں کا مطیع و فرماں بردار اور ان ہی کا آدمی تھا۔ کلیسارق نے جب غزنوی لشکر کی آمد کی خبر سنی تو وہ بھی ایک زبردست فوج تیار کر کے اس کے مقابلے کے لیے آگے بڑھا۔ ابھی وہ تھوڑی دور ہی چلا تھا کہ غزنوی لشکر سے اس کا سامنا ہو گیا۔ دونوں اطراف کے سپاہی ایک دوسرے پر جھپٹ پڑے اور لڑائی کا بازار گرم ہوا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ فریقین نے بڑی ہمت و جوان مردی کا ثبوت دیا اور ایک دوسرے کے خلاف بڑی جان بازی اور دلیری کے ساتھ لڑے۔ اس معرکہ آرائی کا نتیجہ بھی غزنویوں کے حق میں رہا اور انھیں فتح و کامرانی نصیب ہوئی۔ کلیسارق مع اپنے نامی گرامی ساتھیوں کے غزنویوں کے ہاتھ گرفتار ہوا۔ داؤد سلجوقی نے جب اپنے سپہ سالار کلیسارق کی گرفتاری اور سلجوقی لشکر کی شکست کی خبر سنی تو اس نے اپنے بیٹے الپ ارسلان کو فرخ زاد سے جنگ کرنے کے لیے روانہ کیا۔ توسنگین کرخی نے اپنا لشکر تیار کیا اور الپ ارسلان کے مقابلے پر آیا۔ اس مرتبہ بھی فریقین میں زبردست جنگ ہوئی لیکن اس جنگ کا نتیجہ پہلے سے مختلف تھا یعنی سلجوقوں کو فتح نصیب ہوئی اور غزنویوں کو شکست۔ غزنی فوج کے چند نامی گرامی امیر سلجوقیوں کے ہاتھوں گرفتار ہوئے۔ الپ ارسلان بڑی شان و شوکت اور کروفر کے ساتھ اپنے ملک میں واپس آیا۔ فرخ زاد نے جب اس معرکہ آرائی کے انجام کی خبر سنی تو اس نے کلیسارق اور دوسرے سلجوقی سرداروں کو (جنمیں پہلی جنگ میں غزنویوں نے گرفتار کیا تھا) گراں قدر اور اعلی درجے کے خلت پہنا کر آزاد کر دیا۔ سلجوقیوں کو جب فرخ زاد کی اس مہربانی اور انسانی ہمدردی کا علم ہوا تو انھوں نے بھی اس کے جواب میں غزنوی قیدیوں کو رہا کر دیا۔

فرخ زاد کس کا بیٹا؟[ترمیم]

فرخ زاد کا باپ کون تھا؟ اس بارے میں ٹھیک ٹھاک کسی نے کچھ نہیں لکھا روضتہ الصفا (مشهور تاریخی کتاب) میں بیان کیا گیا ہے کہ فرخ زاد سلطان مسعود کا بیٹا تھا۔ احمد الله مستوفی نے لکھا ہے کہ وہ سلطان عبد الرشید کا بیٹا تھا۔

وفات[ترمیم]

سلطان فرخ زاد کی وفات سے ایک برس پہلے کا واقعہ ہے کہ اس کے غلاموں کی ایک باغی جماعت نے سلطان کو قتل کرنے کا ارادہ کیا۔ ایک دن سلطان حمام میں نہا رہا تھا کہ یہ باغی وہاں گھس گئے اور اس پر حملہ کر دیا۔ فرخ زاد نے اپنی تلوار نیام سے نکال لی اور ان نمک حراموں کے مقابلے پر آ گیا۔ ان تمام غلاموں کے ساتھ فرخ زاد تن تنہا لڑتا رہا۔ اس نے اس عالم میں کافی دیر تک حملہ آور گروہ کا مقابلہ کیا اور اپنی شمشیر زنی کے جوہر دکھائے۔ اس دوران میں حمام کے باہر کھڑے ہوئے شاہی ملازموں کو اس سانحہ کی خبر ہو گئی۔ یہ لوگ بھی شاہی حمام میں داخل ہو گئے۔ انھوں نے فورا ان غلاموں کو موت کے گھاٹ اتار دیا اور بادشاہ کی جان بچائی۔ مورخین کا بیان ہے کہ اس واقعے کے بعد سلطان ہمیشہ اپنی موت کو یاد کرتا رہتا تھا اور ہر وقت دنیا کی خواہش اور اس کی محبت سے بیزاری کا اظہار کرتا رہتا تھا۔ فرخ زاد نے چھ سال تک غزنی کی باگ ڈور سنبھالی۔ اس دور میں ابتدا میں وزارت کے منصب پر حسن بن مہران فائز رہا اور آخر میں اس عہدے پر ابو بکر بن صالح فائز رہا۔ آخر عمر میں اسے قولنج کا مرض لاحق ہو گیا تھا۔ اس مرض کے سبب اس نے وفات پائی۔ اس کی وفات 450ھ [2]یا 451ھ بمطابق 1058ء میں ہوئی۔

سکے[ترمیم]

سلطان فرخ زاد غزنوی کے جو سکے دستیاب ہوئے ہیں ان پر حسب ذیل عبارت درج ہے۔

  1. فرخ زاد
  2. فرخ زاد بن مسعود
  3. جمال الدولہ و کمال الملتہ

مندرجہ بالا سکوں میں سے بعض پر ابو شجاع کے الفاظ بھی لکھے ہوئے تھے۔ [3]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ہندوستان کا تاریخی خاکہ مولف کارل مارکس فریڈرک اینگلز ترتیب و تعارف احمد سلیم صفحہ17
  2. تاریخ فرشتہ تالیف محمد قاسم فرشتہ اردو متراجم عبد الحئی خواجہ جلد اول صفحہ 116 تا 118
  3. ہندوستان کے مسلمان فاتح و تاجدار مولف سید محمد عمر شاہ صفحہ 53