خواجہ غلام محی الدین قصوری

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
خواجہ غلام محی الدین قصوری
ذاتی
پیدائش( 1202ھ بمطابق 1778ء)
وفات(1250ھ بمطابق 17 اگست1854ء)
مذہباسلام
والدین
  • غلام مصطفٰی (والد)
سلسلہنقشبندیہ ، سہروردیہ
مرتبہ
مقامقصور
پیشروشاہ غلام علی دہلوی

خواجہ غلام محی الدین قصوری دائم الحضوری شیخ المشائخ ، امام الفضلاء اور مرجع العرفاء تھے۔

ولادت[ترمیم]

خواجہ غلام محی الدین قصوری دائم الحضوری ابن غلام مصطفٰی ابن غلام مرتضیٰ 1202ھ؍1778ء میں قصور میں پید اہوئے آپ کے والد ماجد اور جد امجد بلند پایہ ولی اور متبحر اہل علم تھے پنجابی زبان کے شیکسپئر پیر وارث شاہ اور پیر بلہے شاہ آپ کے جد امجد ہی کے شاگرد اور فیض یافتہ تھے

شجرہ نسب[ترمیم]

آپ کا شجرہ نسب خلیفۂ اول یار غار سیدنا ابو بکرصدیق رضی اللہ سے ملتا ہے۔ آپ کے اجداد عرب سے ہجرت کر کے پہلے سندھ تشریف لائے ، پھر سندھ سے آکر قصور کو اپنا مسکن بنالیا[1]

تعلیم و تربیت[ترمیم]

خواجہ قصوری کی عمر بمشکل ایک سال تھی کہ والد ماجد کا ظاہری سایہ سر سے اٹھ گیا اور آپ کی تربیت کا ذمہ آپ کے عم بزرگو ار خواجہ شیخ محمد نے اٹھایا ۔ تمام علوم متداولہ معقول منقول کی تحصیل عم بزرگو ار سے اور انہی سے سلسلۂ عالیہ قادریہ میں بیعت ہو کر خلافت حاصل کی ۔ عم محترم کے علاوہ دیگر اساتذہ سے بھی اکتساب فیض کیا جن میں سے مولانا باب اللہ کا اسم گرامی ملتا ہے

بیعت و خلافت[ترمیم]

قطب الاقطاب شاہ غلام علی دہلوی کے دست مبارک پر بیعت ہوئے اور گیارہ ماہ شیخ کی خدمت میں رہنے کے بعد سلسلۂ عالیہ قادریہ چشتیہ اور سہر وردیہ میں ماذون و مجاز ہوئے ، شاہ صاحب نے بیعت کے بعد آپ کا ہاتھ ہوا میںلہرادیااور فرمایا:۔

’’تمھارا ہاتھ غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ میں دیا ،وہ تمھارے ہر کام دینی و نیوی میں ممدو معاون ہوں گے۔‘‘[2] شاہ غلام علی آپ پر نہایت مہربان تھے، گاہ بگاہ ان کی عنایات کا ظہور ہوتا رہتا تھا۔ ایک دفعہ خان نجیب الدین خاں قصوری حاضر تھے، شاہ صاحب نے بہ طور انبساط فرمایا’’ غلام محی الدین کو کس جگہ کا پیر بنایا جائے؟‘‘ خاں صاحب نے کہا ’’ انھیں قصور کا پیر بنادیجئے‘‘ اس پر حضرت شاہ صاحب جوش میں آگئے اور فرمایا:۔ ’’تم بہت کم ہمت ہو، ہم انھیں سارے پنجاب کا پیر بنائیں گے ۔‘‘ آپ نے علم حدیث شاہ عبد العزیز محدث دہلوی سے پڑھا اور علم حدیث پڑھانے کی باقاعدہ سند حاصل کی [3]

درس و ارشاد[ترمیم]

خلافت و فراغت کے بعد آپ نے اپنے مسکن قصور کو رشد و ہدایت کا مرکز بنایا اور اپنے شیخ کے حکم سے دور و دراز کا سفر کیا اور درس توحید معرفت کو عام کیا، ہزاروں افراد آپ کی تربیت اور راہنمائی سے راہ راست پر آئے ۔ یہ وہ دور تھا جب پنجاب پر سکھوں کے تسلط نے ہر شخص کو ہراساں کر رکھا تھا ۔ آپ کے اخلاق کریمہ ، اخلاق نبوی کا بہترین نمونہ تھے لباس، خوراک ، گفتگو ، نشست و برخاست ،غرض ہر کام میں سنت مطہرہ کے اتباع کو ملحوظ خاطر رکھتے تھے ،بزرگان دین خاص طور پر حضور سیدنا غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کمال عقیدت و محبت رکھتے تھے،

سیرت و عادات[ترمیم]

آپ ہمیشہ ملاقات کرنے والوں کو اتباع شریعت کی تلقین ، علما سوء اور انگریز سے دور رہنے کا درس دیا کرتے تھے، چنانچہ نواب شیر محمد خاں ٹوانہ کو فرمایا: ’’ علما سوء کے وعظ میں شرکت نہ کرنا ، شریعت کے احکام کی پابندی کرنا ، فرنگی حکام سے نفرت رکھنا [9]۔‘‘ خواجۂ قصوری اپنے دور کے خدا رسیدہ بزرگ اور بلند پایہ ولی تھے۔ آپ سے کرامات کا ظہور ایک عام سی بات تھی، کوئی شخص اولاد کے حصول کے لیے تعویذ مانگتا تو تعویذ دیتے وقت اگر آپ ارشاد فرماتے کہ اسے چاندی کے خول میں بند کر کے رہنا تو اس کا مطلب یہ ہوتا کہ لڑکی ہوگی اور اگر فرماتے کہ اسے جست کے خول میں رکھنا تو یہ لڑکا پیدا ہونے کی بشارت ہوتی تھی۔ایک مرتبہ کسی نے تعویذ طلب کیا تو آپ نے فرمایا سے چاندی کے خول میں رکھنا آپ کے خلیفۂ اعظم مولانا غلام نی للّہی نے عرض کی: حضور اسے لڑکے کی خواہش ہے۔ آپ نے فرمایا اب تو چارہ ماہ گذر چکے ہیں چنانچہ اس شخص کے ہاں لڑکی پیدا ہوئی تبلیغ کے علاوہ تدریس پر بھی کافی توجہ صرف فرماتے تھے ، تشنگان علوم ، ظاہری اور باطنی علوم کے فیض سے سرشار ہوتے تھے۔

شاعری[ترمیم]

آپ تمام متدا ولہ علوم میں مہارت کا ملہ رکھنے کے سات ساتھ شعر و سخں کا بہرین ذوق بھی رکھتے تھے لیکن حمد باری ، نعت شریف اور منقبت کے علاوہ کسی موضوع پر خامہ فرسائی نہ فرماتے تھے۔ آپ عربی ، فارسی اردو اور پنجابی میں بے تکلف اظہا رخیال فرماتے تھے۔ آپ کے کلام میں روانی ، قوت بیان،کیف سرور اور استاد انہ پر کاری کے جوہر بدرجۂ اتم موجود ہیں۔

خلفاء کرام[ترمیم]

آپ نے متعدد با کمال ہستیوں کی تربیت فرما کر انھیں خلافت سے نوازا اور مسند رشد و ہدایت پر سر فراز فرمایا جن میں سے

تصنیفات[ترمیم]

آپ نے اصلاح عقائد ، اصلاح اعمال و اخلاق کے ساتھ ساتھ متدد تصانیف قلم بند فرمائیں جنہیں اہل علم و عرفان حضرات نے حرز جاں بنایا ، تصانیف کے نام یہ ہیں :۔

  • 1۔ تحفۂ رسولیہ (فارسی نظم )
  • 2۔ دیوان حضور ی
  • 3۔ رسالۂ نظامیہ (مسئلہ توحید ، فارسی نظم)
  • 4۔ خلاصۃ التقریر فی مذمۃ المز امیر
  • 5۔ رسالہ در دفرقۂ ضالہ وہابیہ
  • 6۔ رسالۂ سلالہ
  • 7۔ زاد الحاج (پنجابی)
  • 8۔ خطبات جمعہ و عیدین (عربی و فارسی نظم)
  • 9۔ شرح دیبا چہ بوستاں (عربی)
  • 10۔ شرح درود مستغاث شریف
  • 11۔ چہل مجالس (ملفوظات حضرت شاہ غلام علی دہلوی)
  • 12۔ مکتوبات شریف

وفات[ترمیم]

مولانا محی الدین قصوری دائم الحضور ی کا وصال 22 ذیعقدہ، 17 ؍اگست (1250ھ؍1854ء) کو ہوا ، [5] موجودہ گدی نشین سید علی حیدر شاہ بخاری جانشین پیر سید منیر احمد شاہ بخاری ہیں

حوالہ جات[ترمیم]

  1. شبیر احمد ،سید : انوار محی الدین ، ص 41
  2. مشائخ نقشبندیہ مجددیہ صفحہ359محمد حسن نقشبندی قادری رضوی کتب خانہ لاہور
  3. شبیر احمد ،سید : انوار محی الدین ، ص 50
  4. تاریخ مشائخ نقشبند ،محمد عبد الرسول للہی صفحہ 495،زاویہ پبلشر لاہور
  5. تذکرہ اکابرِ اہلسنت،محمد عبد الحکیم شرف قادری،ص343،نوری کتب خانہ لاہور