قدم رسول بہرائچ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
قدم رسول بہرائچ
قدم رسول بہرائچ
بنیادی معلومات
مذہبی انتساباسلام
ضلعبہرائچ
ملکبھارت
مذہبی یا تنظیمی حالتمسجد و مقبرہ
تعمیراتی تفصیلات
نوعیتِ تعمیرمسجد و مقبرہ
طرز تعمیرہندوستانی اسلامی

قدم رسول بہرائچ درگاہ کے احاطہ میں واقع ایک تاریخٰی عمارت ہے۔اس عمارت کی تعمیر ’’ملک مولائی آخر زمانہ آصف الدولہ میں ناظم بہرائچ نے کرائی تھی۔[1]

تاریخ[ترمیم]

قدم رسول خواجہ عین الدین مولائی ناظر بہرائچ نے یہ زمین خادم درگاہ سے خریدی تھی۔اس جگہ پر قدم رسول، امام باڑہ اور ایک مکان بنوانا چاہتے تھے۔اس کے بعد ان کے لڑکے کے قبضے میں یہ زمین رہی۔ان کے کوئی وارث نہ ہونے کی وجہ سے یہ زمین اللہ باندی نام کی طوائف((Dancing girl میں گئی جو ان کی وارث تھی۔(فصلی 1266 ؍1863ء) مسماۃ پھلکا کے باپ نے درگاہ شریف کی یہ زمین (1183فصلی)ناظم بہرائچ کے ہاتھ بیچی ’’9‘‘ بیگھے6 بسرے زمین مسلبھ پھلکو کے حق میں درگزار ہوئی۔’’ملک مولائی آخر زمانہ نواب آصف الدولہ میں ناظم بہرائچ تھے۔ناظم بہرائچ نے ایک عمارت تیار کرکے قدم رسول سے اس کو مشرف کیا۔استدا اور زمانہ سے یہ عمارت بھی جگہ جگہ سے شکست اور قابل مرمت ہو گئی تھی اور کل احاطہ نہایت کثیف اور گندہ رہتا تھا الوعنگہ آراضی معافی اس کے متعلق تھی۔اس کے محاصل اور دوکانات و مکانات عمارت قدم رسول کی آمدنی متولی وقت اپنے تصرف میں لاتے تھے اور جس کے متعلق یہ آمدنی تھی اس پر ایک حبہ بھی صرف نہ کرتے تھے۔کمیٹی درگاہ نے سفارش کرکے قدم رسول کوبھی1880ء میں متعلق بہ وقف درگاہ سید سالار مسعود غازی کیا اور اپنے انتظام میں اس کو بھی لے لیا۔اب اس کے جملہ مصارف محاصل درگاہ سے ہوتے ہیں۔اور آمدنی آراضی معافی مسماۃ پھلکو طوائف کو تاصین حیات معاف ہے۔[2] خواجہ عین الدین مولائی نے خادمان درگاہ سے یہ قطعہ آراضی خرید لیا وہ اس پر امام باڑہ مقبرہ اور ایک حویلی تعمیر کرنے کا ارادہ کیا تھا۔عوام درگاہ کی ملکیت کے فروخت کے خلاف تھے۔اس لیے شکایت بادشاہ تک پہنچیں۔بادشاہ ہر سال دورے پر آتے تھے۔اتنی عمارت بن چکی تھی۔ملک مولائی نے بازپرس سے بچنے کے لیے اس میں پتھر نصب کراکر قدم رسول نام رکھ دیا اور بادشاہ کے عتاب سے بچ نکلے۔ عباس خاں شیروانی عمارت قدم رسول کے بارے میں لکھتے ہیں کہ اس کو دراسل حاکم بہرائچ نے اپنے متعلقین کو رکھنے کے لیے بلا اجازت شاہ اودھ تعمیر کرایا تھا۔مگر شاہ اود ھ نے اس پر اعتراض کیا تو مشہور کر دیا کہ رسول اللہ محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم مبارک کا نشان رکھنے کے لیے بنایا گیا ہے۔اس میں شبہ نہیں کہ عمارت شاہان اوددھ کے زمانہ کی تعمیر ہے۔[3]

مزید دیکھے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ترنم خداداد و ذکر مسعود مطبوعہ 1886
  2. بہرائچ ٹائمس 1983
  3. حیات مسعودی

بیرونی روابط[ترمیم]