باگھا جتن

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
باگھا جتن
(بنگالی میں: বাঘা যতীন ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

معلومات شخصیت
پیدائش 7 دسمبر 1879ء  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کوشتیا ضلع،  بنگال پریزیڈنسی  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 10 ستمبر 1915ء (36 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بالاسور،  اڑیسہ،  برطانوی ہند  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ وفات فائرنگ کا تبادلہ[1]  ویکی ڈیٹا پر (P509) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت برطانوی ہند  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
جماعت جوگانتر  ویکی ڈیٹا پر (P102) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی جامعہ کلکتہ  ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ فلسفی،  انقلابی  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تحریک تحریک آزادی ہند  ویکی ڈیٹا پر (P135) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

جتندر ناتھ مکھرجی المعروف باگھا جتن (انگریزی: Bagha Jatin، بنگالی= বাঘা যতীন)، (پیدائش: 7 دسمبر، 1879ء - وفات: 10 ستمبر، 1915ء) ہندوستان کے مشہور و معروف انقلابی لیڈر، تحریک آزادی ہند کے رہنما تھے۔ وہ بنگال کی انقلابی تنظیم جوگانتر کے اہم رہنماؤں میں سے ایک تھے۔ اس کے علاوہ انھوں نے غدر پارٹی کے لیے بھی کام کیا۔

حالات زندگی[ترمیم]

باگھا جتن 7 دسمبر 1879ء کو کوشتیا ضلع (موجودہ کھلنا ڈویژن بنگلہ دیشبنگال پریزیڈنسی، برطانوی ہند میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے 1895ء میں کرشنانگر اینگلو ورناکیولر اسکول سے انٹرنس کا امتحان پاس کر کے کلکتہ سینٹرل کالج میں فنون لطیفہ کی تعلیم کے لیے داخلہ لیا۔ 1900ء میں جتن نے اندوبالا بینرجی سے شادی کی جن سے ان کے چار بچے پیدا ہوئے۔ وہ پیشے کے اعتبار سے سرکاری ملازم تھے لیکن شروع سے ہی انقلابی سوچ رکھتے تھے۔ اسی بنا پر انھوں نے انقلابی پارٹی میں شمولیت اختیار کی اور بنگال انقلابی تحریک کے ایک ممتاز لیڈر بن گئے۔ انھوں نے وطن پرستانہ سرگرمیوں میں فعال کردار ادا کیا۔ ایک پولیس افسر شمس العالم کے قتل میں شرکت کے الزام میں 1910ء میں گرفتار کر لیے گئے۔ ہاوڑہ سازش کیس کے سلسلے میں دوبارہ گرفتار ہوئے لیکن 1911ء میں انھیں بری کر دیا گیا۔ انھوں نے ہندوستان میں برطانوی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے ایک مسلح انقلابی تحریک کی ابتدا کرنے میں سرگرم حصہ لیا اور جاپان، جرمنی، ریاستہائے متحدہ امریکا اور ولندیزی شرق الہند (حالیہ انڈونیشیا) سے اسلحہ اور گولہ بارود مہیا کرنے کا بندوبست کیا۔ ستمبر 1915ء میں اپنے ساتھیوں کے ہمراہ جرمن جہاز ماورک سے مشرقی ساحل کے ایک ویران مقام پر اسلحہ اور گولہ بارود لینے کے لیے بالاسور (اوڑیسہ) پہنچے۔ مسلح پولیس نے انھیں بالاسور کے نزدیک کاٹی پودا پر روکا۔ 9 ستمبر 1915ء کو وہ مسلح مقابلہ میں بری طرح زخمی ہو گئے اور 10 ستمبر 1915ء کو بالاسور میں واقع ایک ہسپتال میں وفات پا گئے۔[2]

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. https://swarajyamag.com/culture/bagha-jatin-the-bengal-tiger-whom-the-british-feared
  2. شہیدانِ آزادی (جلد اول)، چیف ایڈیٹر: ڈاکٹر پی این چوپڑہ، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی، 1998ء، ص 485