مکاشفات عینیہ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

مکاشفات عینیہ مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی(971ھ/ 1564ء تا 1034ھ/1624ء) کی کتاب ہے۔
مجدد الف ثانی کی یہ تصنیف ایسی تحریروں پر مشتمل ہے جو آپ کے بعض خلفاء نے محفوظ کر لی تھی لیکن انھیں آپ کے نامور خلیفہ اور زبدۃ المقامات کے مصنف محمد ہاشم کشمی نے کتابی صورت میں یکجا کر دیا اور اس طرح ایک گراں قدر ذخیرہ کو ضائع ہونے سے بچا لیا یہ رسالہ حضرت مجدد الف ثانی کے وصال کے بعد1051ھ میں شروع کیا گیا اور خیال ہے کہ بعض معلومات جیسا کہ محمد ہاشم کشمی مرتب کرتے ہیں اس لیے اس رسالے کا نام بھی تاریخی ہے یعنی یہ جو 1053ھ بنتا ہے بعض تذکروں میں اس کا نام مکاشفات غیبیہ بھی آتا ہے اس رسالے کے بعض مضامین حضرت مجدد الف ثانی کے مکتوبات شریف اور دیگر رسائل میں آچکے ہیں اور بعض ایسے بھی ہیں جو حضرت مجدد الف ثانی کے ابتدائی تذکروں میں نہیں ہیں اس لحاظ سے یہ رسالہ بہت ہی اہم ہے جس سے ہمیں متفرق صوفیانہ مسائل اور مکاشفات کا بیان ملتا ہے اور کیونکہ یہ کسی ایک مخصوص وقت اور مقام پر نہیں لکھے گئے اس لیے رسالے کے بعض مندرجات بہت پرانے معلوم ہوتے ہیں مثلاً مکاشفہ نمبر5 اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ یہ اندراج حضرت خواجہ باقی باللہ کی زندگی میں کیا گیا یہ رسالہ پہلی مرتبہ ادارہ مجددیہ کراچی نے 1384ھ میں شائع کیا۔[1]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. جہان امام ربانی جلد 5 صفحہ 83 پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد امام ربانی فاؤنڈیشن کراچی پاکستان