محمد سراج الدین

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
محمد سراج الدین
معلومات شخصیت
تاریخ پیدائش 15 محرم (مہینہ) 1297 ہجری (30 دسمبر 1879)
وفات 26 ربیع الاول 1333 ہجری (12 فروری 1915)
Mussa Zai Sharif, ڈیرہ اسماعیل خان، پاکستان

خواجہ محمد سراج الدین دامانی ایک نقشبندی بزرگ تھے۔

ولادت[ترمیم]

آپ خواجہ محمد عثمان دامانی کے گھر 1297ھ بمطابق 1880ء میں موسیٰ زئی شریف میں تولد ہوئے۔ آپ کے والدین کریمین نہایت صاحب تقویٰ اور سنت و شریعت کے پابند، محبت و معرفت الٰہیہ کے پیکر تھے۔

تعلیم[ترمیم]

آپ نے کچھ ہوش سنبھالا تو آپ کو قرآن مجید فرقان حمید کی تعلیم کے لیے ملا شاہ محمد کے پاس بٹھایا گیا۔ قرآن ناظرہ و حفظ کے بعد علم قرات، نثر و نظم، صرف و نحو، منطق، علم عقائد و فقہ، علم تفسیر و علم حدیث وغیرہ آپ نے مولانا محمود شیرازی سے پڑھیں اور ان میں کمال حاصل کیا۔ وہاں سے فراغت کے بعد آپ نے علم التفسیر کامل، صحاح ستہ اور علوم عقلیہ و نقلیہ کی باقی کتابیں خانقاہ عالیہ موسیٰ زئی شریف آکر والد خواجہ محمد عثمان دامانی سے پڑھیں۔ نہ صرف یہ بلکہ علم تصوف کی تکمیل میں بھی مشغول ہوئے۔ اکتساب فیض کے ساتھ ساتھ آپ نے کتب تصوف و مکتوبات امام ربانی مجدد الف ثانی، مکتوبات معصومیہ بھی اپنے والد سے تفصیلًا پڑھیں۔

القابات[ترمیم]

عارف کامل مرشد صادق سراج السالکین

خلافت[ترمیم]

اس وقت آپ کی عمر مبارک صرف چودہ برس تھی۔ بروز پیر مؤرخہ 7 ربیع الاول سنہ 1314ھ کو والد و مرشد مربی نے علالت کے باعث آپ کو خلفاء کرام اور متعلقین کی موجودگی میں حلقۂ ذکر و مراقبہ کا امر فرمایا۔ پہلے ہی حلقۂ ذکر و مراقبہ میں برکات و فیوضات کی وہ بارش برسی کہ ہر صاحب دل کے قلب پر انوار کی بارانی تھی۔ جذب و مستی، گریہ زاری، محویت و بیخودی کی کیفیت ہر سالک پر طاری تھی۔ خواجہ محمد عثمان دامانی شہباز لامکانی عوارضات کے باعث فقراء و سالکین کو زیادہ وقت نہ دے پاتے تھے اس لیے حضرت صاحبزادہ صاحب ہی حلقۂ ذکر و مراقبہ کراتے رہے تاوقتیکہ والد محمد عثمان دامانی واصل بحق ہوئے۔ والد و مرشد گرامی کی وفات حسرت آیات کے بعد جملہ خلفاء و مریدین نے آپ کے دست حق پرست پر تجدید بیعت فرمائی۔ مسند خلافت یا سلسلہ عالیہ کی باقاعدہ اشاعت پر جب آپ مامور ہوئے تو اس وقت آپ کی عمر مبارک صرف سترہ برس تھی۔ اس مختصر سی عمر میں تمام علوم نقلیہ و عقلیہ کا حصول اور مقامات سیر و سلوک طے کرنے اور پھر مسند رشد و ہدایت پر متمکن ہونا یہ صرف عطیۂ خداوندی ہے

سیرت و کردار[ترمیم]

جود و سخا کا یہ عالم تھا کہ آپ کی خانقاہ پر خواجہ عبیداللہ احرار کی خانقاہ کا گماں ہوتا تھا۔ بڑے بڑے علما کرام و فضلا عظام آپ سے اکتساب فیض کرنا سعادت دارین سمجھتے تھے۔ آپ کے خوشہ چینوں میں مولانا محمود شیرازی صاحب، مولانا حسین علی صاحب بھچراں والے اور مولانا محمد امیر صاحب جھنڈیروی تھے جن سے آپ نے علوم نقلیہ و عقلیہ پڑھے تھے۔ یہ سب نہ صرف آپ سے مستفیض ہوئے بلکہ خلافت سے بھی مشرف ہوئے۔ جب آپ ڈیپ شریف وادئ سون کی خانقاہ میں موسم گرما گذارتے تو یہ علما کرام و مشائخ عظام خانقاہ کی حدود میں کبھی جوتیاں پہن کر نہ چلتے اور جب واپسی ہوتی تو کئی میل لمبا راستہ اختیار کرتے، مبادہ کہ پیر خانہ کی ط رف پیٹھ نہ ہوجائے۔ اسی طرح خانقاہ شریف پر جس سمت پیر خانہ ہوتا سوتے ہوئے ادھر پاؤں نہ کرتے۔ یہ سب آداب شیخ میں شامل ہے۔

ادائیگی حج[ترمیم]

1324ھ کو آپ قافلے کی شکل میں حج بیت اللہ کی طرف تشریف لے گئے۔ آپ کے ہمراہ 36افراد تھے۔ اس سفر مبارک میں آپ پر بے انتہا فیوض و برکات کا نزول ہوا اور مقربین آپ کے مقام و مرتبے سے آگاہ ہوئے۔ مدینہ منورہ میں آپ کی سخا کا عجب عالم تھا۔ مدینہ کے فقراء و مساکین آپ کو دعائیں دے رہے تھے۔ حج سے واپسی کا سفر بھی عجیب تھا کیونکہ جس بحری جہاز سے آپ واپس آئے اس میں مساکین اور غرباء کی تعداد زیادہ تھی جو جہاز کی خوراک حاصل کرنے کے متحمل نہ تھے۔ کپتان نے آپ سے عرض کیا تو آپ نے فرمایا کہ جہاز کے سرکاری گودام سے ہمیں سرکاری قیمت پر غذا دی جائے۔ اس کے بعد آپ نے جہاز ہی میں لنگر عام کا اعلان فرمایا اور دو وقت کی غذا ہر فرد کو لنگر سے حاصل ہوتی رہی اور یہ سلسلہ بمبئی تک جاری رہا۔ آپ کے فیوض و برکات سے ایک عالم فیضیاب ہوا۔ ہندوستان، کشمیر، بخارا و سمرقند، عرب و خراسان وغیرہ ممالک میں آپ کے فیض کے ڈنکے بجے۔ آپ نے تقریبًا 34 افراد کو خلافت عطا فرمائی جن سے اس سلسلے کی مزید اشاعت ہوئی، مگر خلفاء کرام میں جو شہرت دام شیخ العرب و العجم پیر فضل علی قریشی کو حاصل ہوئی وہ کسی اور کے حصے میں نہ آئی۔

وفات[ترمیم]

ابھی آپ کو مسند رشد و ہدایت پر متمکن ہوئے تقریبًا 17برس ہی ہوئے تھے۔ یاد رہے کہ 17برس کی عمر مبارک میں آپ نے سلسلہ عالیہ کی اشاعت کا فریضہ انجام دینا شروع کر دیا تھا۔ ابھی آپ کی عمر مبارک 35برس ہی تھی کہ مسلسل مجاہدات اور انتھک محنت پے درپے تبلیغی اسفار جسمانی قوت مدافعت پر اثر انداز ہوئے اور آنتوں کی سوزش آپ کو لاحق ہوئی۔ کافی علاج معالجہ کرایا۔ بروز جمعہ بوقت اشراق 25ربیع الاول سنہ 1333ھ 36برس کی عمر مبارک کو آپ واصل بحق ہوئے۔[1]

حوالہ جات[ترمیم]