فرانس میں خواتین

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
ایک فرانسیسی خاتون کی تصویر

1789ء کے فرانسیسی انقلاب نے یورپ کی تاریخ کو بدل ڈالا۔ اس انقلاب کے نتیجے میں جو نظریات و افکار پیدا ہوئے، ان کی وجہ سے یورپ کے سماج کی نئی تشکیل کی۔ قومیت، سیکولرازم، اشتراکیت اور نسوانیت اسی انقلاب کی پیدا وار سمجھے جاتے تھے، جن کی وجہ سے فکر کی نئی راہیں کھلی۔ خاص طور سے انقلاب کے دوران عورت نے اپنے حقوق کی آواز بلند کی۔ پدر سری اور قدامت پسندی کو چیلنج کیا اور انقلاب میں بھر پور حصہ لیا۔ ان عورتوں کا تعلق امرا کے طبقے سے نہیں تھا بلکہ یہ متوسط اور نچلے طبقے کی عورتیں تھیں جنہیں تعلیم سے محروم کر کے گھریلو کاموں میں جکڑ دیا تھا۔ اس انقلاب نے انھیں موقع دیا کہ وہ گھروں سے نکلیں اور پیرس کے مجمع میں شریک ہو کر انقلاب میں حصہ لیں۔ لہٰذا جب 14 جولائی کو پیرس کے عوام نے بیستیل کے قلعے پر دھاوا بولا تو عورتیں بھی ان کے ساتھ تھیں۔[1] ان تاریخی شواہد کی وجہ سے فرانس حقوق نسواں کا علمبردار اور فرانس میں خواتین (انگریزی: Women in France) کو بااختیار سمجھا جاتا ہے۔

ملک میں خواتین کے مسائل[ترمیم]

ایک فرانسیسی خاتون کھلاڑی بر سر عام اپنے کھیل کا مظاہرہ کرتی ہوئی دکھائی دے رہی ہیں۔

یورپ میں عورت کے خلاف تشدد میں تیزی سے اضافہ ہونے لگا۔ یورو اسٹیٹ کی 2017ء کے اعداد و شمار سے متعلق رپورٹ کے مطابق یورپی یونین کے رکن ممالک میں سے فرانس، جرمنی اور برطانیہ میں عورتوں کے قتل کی شرح سب سے بلند رہی، جب کہ ان میں بھی فرانس پہلے نمبر پر رہا۔ فرانس میں ایک سال کے دوران میں 601 عورتوں کو قتل کر دیا گیا۔[2] ایک اندازے کے مطابق فرانس میں سالانہ 130 سے زائد عورتوں کا قتل ہوتا ہے۔[3] اس کے علاوہ 2018ء کے سروے کے مطابق چالیس لاکھ یعنی خواتین کی کل آبادی کے بارہ فیصد کی کم از کم ایک مرتبہ آبرو ریزی ہو چکی ہے۔[4]

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]