اصحاب رقیم

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

اصحاب الرقیم اصحاب کہف کو قرآن میں اصحاب الرقیم بھی کہا گیا الرقیم : بائبل میں اسے’ راقیم ‘ کہا گیا ہے ، وہ تختی جس پر اصحاب کہف کا قصہ اور ان کے نام لکھے ہوئے تھے ۔ [1] الرقیم۔ اس کے متعلق مختلف اقوال ہیں :

  • (1) بعض کے نزدیک اصحاب کہف کے کتے کو رقیم کہتے ہیں۔ جیسا کہ امیہ بن صلت کا قول ہے۔
  • (2) الرقیم۔ روم میں ایک قریہ کا نام ہے یہ الضحاک کا قول ہے۔
  • (3) یہ اس پہاڑی کا نام ہے جس میں الکہف ہے۔
  • (4) نوشتہ۔ تحریر۔ لکھی ہوئی عبارت۔ قرآن میں اور جگہ آیا ہے کتاب مرقوم (83:9، 20) ایک لکھی ہوئی کتاب۔ لہٰذا الرقیم وہ لوح جس پر اصحاب کہف کے نام۔ ان کا حسب و نسب ۔ ان کا قصہ اور ان کے خروج کے اسباب تحریر ہیں اور جو ان کے مدفن پر لگائی گئی ہے۔[2]

الرقیم کے بارے میں اختلاف کیا ہے، پس ابن عباس نے کہا ہے : قرآن میں موجود ہر شے کے بارے اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا ہے سوائے چار کے، یعنی غسلین، حنان، الاوہ اور الرقیم۔ مرہ سے الرقیم کے بارے پوچھا گیا تو انھوں نے فرمایا : کعب کا خیال ہے کہ یہ وہ گاؤں ہے جس سے وہ اصحاب نکلے تھے۔ مجاہد نے کہا ہے : الرقیم سے مراد وادی ہے۔ اور سدی نے کہا ہے الرقیم سے مراد چٹان ہے جو اس غار پر تھی۔ اور ابن زید نے کہا ہے : الرقیم وہ کتاب ہے جس کا حکم اللہ تعالیٰ نے ہم پر غالب کر دیا، لیکن اس کے واقعہ کی ہمارے سامنے وضاحت نہ کی اور ایک گروہ نے کہا ہے : الرقیم سے مراد وہ تحریر ہے جو تانبے کی تختی میں لکھی ہوئی تھی۔ اور ابن عباس (رضی اللّٰہ عنہ) نے کہا ہے : تانبے کی ایک تختی میں قوم کفار نے ان نوجوانوں کا واقعہ لکھا تھا جو ان سے بھاگے تھے اور انھوں نے اسے ان کی تاریخ بنا دیا، انھوں نے ان کے گم ہونے کا وقت ذکر کیا، ان کی تعداد ذکر کی کہ وہ کتنے تھے اور یہ بھی بیان کیا گیا کہ وہ کون تھے ؟ اور اسی طرح فراء نے کہا ہے، انھوں نے بیان کیا ہے : رقیم تانبے کی ایک تختی ہے جس میں ان کے اسماء ان کے نسب، ان کا دین اور جس سے وہ بھاگے تھے سب لکھا ہوا تھا۔ ابن عطیہ نے کہا ہے : ان روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ایسی قوم تھے جو واقعات اور حوادث کی تاریخ لکھتے تھے اور یہ مملکت کی فضیلت ہے اور یہ مفید کام ہے۔ اور یہ اقوال الرقیم سے ماخوذ ہیں اور اسی سے “ کتاب مرقوم ” ( لکھی ہوئی کتاب) ہے۔ اور اسی سے الارقم (زہریلے سانپ) وہ اپنے اوپر سیاہ وسفید نشانات اور لکیروں کی وجہ سے کہلاتا ہے۔ اور اسی سے رقمہ الوادی ہے، یعنی وہ جگہ جہاں پانی چلے اور وہ اس میں اکٹھا ہوجائے۔
ابن عباس (رضی اللّٰہ عنہ) سے بھی مروی ہے : الرقیم لکھی ہوئی کتاب ہے جو ان کے پاس تھی اس میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے دین میں سے وہ شریعت تھی جس پر عمل پیرا تھے اور اسے تھامے ہوئے تھے۔ اور نقاش نے حضرت قتادہ سے نقل کیا ہے کہ الرقیم سے مراد ان کے در اہم ہیں۔ اور حضرت انس بن مالک رضی اللّٰہ عنہ اور شعبی نے کہا ہے کہ الرقیم سے مراد ان کا کتا ہے۔ اور عکرمہ نے کہا ہے : الرقیم دوات ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : کہ الرقیم سونے کی وہ تختی ہے جو اس دیوار کے نیچے تھی جسے حضرت خضر (علیہ السلام) نے سیدھا کیا تھا۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ الرقیم سے مراد غار والے ہیں جن پر وہ بند ہو گئی تھی، پھر ان میں سے ہر ایک نے اپنے اصلح عمل کا ذکر کیا۔
اس بارے میں معروف خبر ہے جسے صحیحین نے ذکر کیا ہے اور اسی طرف امام بخاری بھی مائل ہیں۔ اور ایک قوم نے کہا ہے : اللہ تعالیٰ نے اصحاب کہف کے بارے تو خبر دی ہے اور اصحاب رقیم کے بارے کسی شے کا ذکر نہیں کیا۔ اور ضحاک نے کہا ہے : الرقیم روم کا ایک شہر ہے [3]

موجودہ دور کی تحقیق میں جو ڈیڈ شی اسکرولز کی دریافت ہوئی ہے جس میں مٹی کے گھڑوں میں چھپائے گئے مقدس اوراق بحیرہ مردار کے آس پاس کے علاقوں سے دریافت ہوئے ہیں اس سے اصحاب الرقیم سے مراد ان اوراق کے لکھنے والوں سے قیاس کیا جاتا ہے-

حوالہ جات[ترمیم]

  1. تفسیر سراج البیان ۔ مرتب مولانا حنیف ندوی
  2. انوار البیان فی حل لغات القرآن، سورہ الکہف آیت 9،علی محمد،مکتبہ سید احمد شہید لاہور
  3. تفسیر قرطبی ۔ ابو عبد اللہ محمد بن احمد بن ابوبکر قرطبی