بجیر بن زہیر

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حضرت بجیربن زہیرؓ
معلومات شخصیت

نام ونسب[ترمیم]

بجیر بن زہیر یہ زہیر بن ابی سلمہ کے بیٹِے ہیں۔ ابو سلمہ کا نام ربیعہ بن ریاح بن قرط بن حارث بن مازن بن خلاوہ بن ثعلبہ بن ثور بن ہزمہ ابن لاطم بن عثمان بن مزینہ مزنی۔

اسلام[ترمیم]

کعب بن زہیر کے بھائی ہیں اپنے بھائی کعب سے ہہلے اسلام لائے تھے اور یہ دونوں بھائی بڑے عمدہ شاعر تھے اور ان کے والد بھی بڑے نامور شعرا میں تھے۔ حجاج بن ذی الرقیبہ بن عبد الرحمن بن کعب بن زہیر بن ابی سلمی نے اپنے والد سے انھوں نے ان کیدادا سے روایت کی ہے کہ کعب اور بجیر جو دونوں زہیر کے بیٹے تھے اپنے گھر سے نکلے یہاں تک کہ مقام ابرق عذاف میں پہنچے تو بجیر نے کعب سے کہا کہ تم ہماری بکریوں کو لیے ہوئے اس مقام پر ٹھہرو میں ذرا اس شخص یعنی نبی ﷺ کے پاس جاؤں سنوں کہ وہ کیا کہتا ہے راوی کہتا ہے کہ کعب وہیں ٹھہر گئے اور بجیر رسول خدا ﷺ کے حضور میں حاضر ہوئے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان پر اسلام پیش کیا اور وہ مسلمان ہو گئے یہ خبر کعببن زہیر کو پہنچی تو انھوں نے کہا۔

الا ابلغا عنی بجیرا رسالۃ علی ای شے ویب غیر ک دلکا

(ترجمہ۔ آگاہ ہو جاؤ بجیر کو میری طرف سے یہ پیغام پہنچا دو کہ کس چیز نے تجھے غیر کے دین کی طرف راہ دکھائی)

اس کے علاوہ اور اشعار بھی ہیں کعب بن زہیر نے کہے یہ کعب رسول خدا ﷺ کے ہمراہ طائف میں شریک ہوئے پھر جب رسول خدا ﷺ طائف سے لوٹے تو بجیر بن زہیر نے کعب بن زہیر کو لکھا کہ اگر تجھے کچھ خوف ہو (تو خوف نہ کر) رسول خدا ﷺ کے پاس چلا آ کیونکہ وہ کسی ایے شخص کو جو توبہ کر کے آجائے قتل نہیں کرتے اور یہ اشعار بجیر نے ان کو لکھے۔

من بلغ کعبا فہل لک فی اللتی تلوم علیہا باطلا وہی اجزم الی اللہ لا العزی ولا اللات وحدہ فتنجو اذا کان النجاء و تسلم

لدی یوم لاینجو ولیس بمفلت من النار الاطاہر القلب مسلم فدین رہیر فہولاشی عندہ و دین ابی سلمی علی محرم

(کوئی ہے جو کعب کو یہ خبر پہنچا دے کہ کیا تجھے دین کی طرف کچھ رغبت ہے۔جس پر تو (مجھے) ملامت کرتا ہے حالانکہ وہ دین نہایت مضبوط ہے۔ اللہ کی طرف رجوع نہ کر نہ لات و عزی کی طرف۔ تب تجھے بوقت نجات نجات ملے گی۔ اس وقت نہ تو بچے گا اور نہ کوئی شخص بچے گا سوا اس شخص کے جس کا لقب سلیم ہو اور۔ مسلمان ہو۔ پس زہیر کا دن جو اس (دین اسلام) کے سامنے لاشئی ہے اور نیز ابو سلمی کا دین مجھ پر حرام ہے۔)

ان میں بجیر نے غزوہ طائف کے دن یہ اشعار کہے تھے۔

کانت علالتہ یوم بطن حیننکم وغزاۃ اوطاس و یوم الابرق جمعت ہوازن جمعہا فتبددوا کالطیر تنجومن قطام ازرق

لم یمنعوا مانا مقام واحدا الا جدار ہم و بطن الخندق ولقد تعرضنا لکی مایخر جوا فتحصنوا منابیاب مغلق

(ترجمہ۔ جنگ حنین اور اوطاس اور ابرق کے دن تمھارے بڑے بڑے سردار تھے ہوازن میں انھوں نے اپنی پوری جماعت فراہم کر لی تھی مثل اس پرندے کے جو ابلق باز سے نجات پاکے آئے ہوں ہم سے وہ کسی مقام میں نہ بچ سکے سوا اپنی دیواروں کے اور خندقوں کے۔ اور ہم سامنے آگئے تاکہ وہ باہر نکلیں۔ مگر انھوں نے قلعہ کے اندر جاکے دروازہ بند کر لیا)۔[1] [2]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. اسد الغابہ ،مؤلف: أبو الحسن عز الدين ابن الاثير جلد اول صفحہ 252 المیزان پبلیکیشنز لاہور
  2. الاصابہ فی تمیز الصحابہ جلد1صفحہ 287 مؤلف: حافظ ابن حجر عسقلانی ،ناشر: مکتبہ رحمانیہ لاہور