عبد العلی حسنی ندوی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
عبد العلی حسنی ندوی
سید عبد العلی حسنی
معلومات شخصیت
مدفن دائرہ شاہ علم اللہ، رائے بریلی
قومیت  بھارت
مذہب اسلام
فرقہ سنی حنفی
اولاد سید محمد الحسنی
والد عبد الحی حسنی
رشتے دار ابو الحسن علی ندوی (بھائی)، امۃ اللہ تسنیم (بہن)۔
خاندان حسنی سادات
عملی زندگی
مادر علمی دار العلوم ندوۃ العلماء
شعبۂ عمل طب، نظامت
وجۂ شہرت طبیب، ناظم ندوۃ العلماء

ڈاکٹر سید عبد العلی حسنی ندوی (متوفی: 7 مئی 1961ء) ہندوستان کے مشہور عالم و طبیب اور مشہور ادارہ دار العلوم ندوۃ العلماء کے ناظم تھے، علامہ حکیم عبد الحی حسنی کے بڑے فرزند اور سید ابو الحسن علی حسنی ندوی کے باپ شریک بڑے بھائی تھے۔ پیشے سے نامور طبیب اور ڈاکٹر بھی تھے۔[1]

ولادت و ابتدائی احوال[ترمیم]

ڈاکٹر عبد العلی، اپنے نانیہال ضلع فتح پور "ہنسوہ" میں 22 جمادی الاولی 1311ھ میں پیدا ہوئے، بچپن میں زیادہ تر زمانہ نانیہال میں گزارا، پھر اپنے دادیہال رائے بریلی ضلع کے گاؤں "تکیہ کلاں" دائرہ شاہ علم اللہ آ گئے، علمی وروحانی خاندان اور ماحول کی وجہ سے نیک اور سنجیدہ تربیت ہوئی۔

تعلیم[ترمیم]

ابتدائی تعلیم نانیہال"ہنسوہ" میں حاصل کی، مکتب نشینی مولانا عبد الحکیم کیرانوی کے پاس ہوئی۔ آٹھ سال کی عمر میں والدہ محترمہ کا انتقال ہو گیا۔ ناظرہ قرآن کے بعد عربی تعلیم شروع کر دی، فارسی زبان اپنے فاضل دادا "حکیم سید فخر الدین" سے سیکھی۔ ابتدائی تعلیم کے بعد دار العلوم ندوۃ العلماء میں داخل ہوئے اور وہاں اس زمانے کے اساتذہ سے کسب فیض کیا، جس میں ادب عربی "سید علی زینبی" سے، فقہ واصول "مولانا شبلی جیراجپوری" سے، علم ہیئت "مولانا سلطان محمد کابلی" سے اور بعض درسیات اپنے والد ماجد "عبد الحی حسنی" سے پڑھی۔ ندوہ سے فراغت کے بعد ایک سال دار العلوم دیوبند قیام کیا اور وہاں کے اساتذہ سے اجازت حدیث حاصل کی، صحیح بخاری و سنن ترمذی شیخ الہند محمود حسن دیوبندی سے اور سنن ابو داؤد سید محمد انور شاہ کشمیری سے پڑھی۔

1330ھ میں لکھنؤ واپس آئے اور طب پر توجہ شروع کر دی، والد ماجد اور دادا محترم بھی حکیم اور طبیب تھے۔ چنانچہ طب کی ساری متداول کتابیں اپنے والد عبد الحی حسنی سے پڑھی، پھر مزید تجربہ و تعلیم کے لیے حکیم اجمل خان کے مطب میں چھ ماہ تک رہے۔ وہاں ڈاکٹر مختار احمد انصاری سے ڈاکٹری کی بھی معلومات حاصل کی۔

21 سال کی عمر میں وہ دینی تعلیم اور طب کے حصول سے فراغت کے بعد 30 مارچ 1912ء کو "مولانا سید ابو القاسم ہنسوی زیدی واسطی" کی صاحبزادی سے نکاح ہوا۔ اس کے بعد انگریزی زبان سیکھنی شروع کر دی، اس میں مہارت پیدا کر کے "ایلوپیتھک" پڑھی، انٹرمیڈیٹ کا کامیاب امتحان دیا، اس کے بعد "بی ایس سی" کیا اور امتیازی تمغے حاصل کیے اور پھر "ایم بی بی ایس" (MBBS) کر کے ڈاکٹر بن گئے۔ [2]

عملی زندگی[ترمیم]

1343ھ/1925ء میں والد صاحب کا انتقال ہو گیا، وفات کے دو سال بعد میڈیکل کالج کا امتحان دیا اور کامیاب ہوئے، نومبر 1925ء میں سند ملی۔ جنوری 1926ء سے "گوئن روڈ، لکھنؤ" میں مطب کا آغاز کیا اور وفات تک برابر مطب کرتے رہے، شہر بلکہ ملک کے کامیاب معالجوں، طبیبوں اور ڈاکٹروں میں شمار ہونے لگا۔

اسی سال حج کو تشریف لے گئے، شاہ عبد العزیز بن عبد الرحمن آل سعود سے ملاقات بھی کی، وہاں کے علما ومشائخ اور کتبخانوں سے استفادہ کیا۔ [3]

ندوۃ العلماء میں[ترمیم]

ان کے والد محترم سید عبد الحی حسنی ندوے کے ناظم اور اولیں بانیوں میں سے تھے۔11 جمادی الاولی 1342ھ کو ڈاکٹر عبد العلی کو رکن انتظامی منتخب کیا گیا، 1347ھ/1928ء میں نائب ناظم مقرر ہوئے، محرم 1350ھ مطابق جون 1931ء کو دار العلوم ندوۃ العلماء کا ناظم منتخب کیا گیا اور وفات تک رہے۔

20 نمبر پر ڈاکٹر حکیم سید عبد العلی حسنی ندوی ناظم دار العلوم ندوۃ العلماء، ٢١ نمبر پر غلام بھیک نیرنگ معتمد عمومی جمعیت مرکزیہ تبلیغ السلام، ٢٢ نمبر پر سید محمد عبدالحی کوڑوی معتمد تبلیغ جمعیت مرکزیہ تبلیغ السلام، ١٧، 18، ١٩، ٢٣، ٢٤ نمبر پر دار العلوم ندوۃالعلماء کے اساتذہ ہیں باقی سب ندوۃ العلماء کے طلب علم ہیں (یہ فوٹو 1938ء کی ہے)

ڈاکٹر صاحب کا دور نظامت، ایک کامیاب دور رہا، نصاب تعلیم کی اصلاح ہوئی، عالم عرب سے روابط بڑھے اور عالیشان مسجد کی تعمیر ہوئی۔ اس دور میں دار العلوم ندوۃ العلماء سے متعدد ادیب اور انشا پرداز عربی و اردو کے مشہور ونامور فضلا نکلے، جن میں نمایاں نام ان کے چھوٹے بھائی سید ابو الحسن علی حسنی ندوی کا ہے۔[4]

وفات[ترمیم]

1956ء سے ڈاکٹر صاحب علیل رہنے لگے، آئے دن ضعف ونقاہت بڑھنے لگی۔ 7 مئی 1961ء کو لکھنؤ گوئن روڈ کے مکان میں 70 سال کی عمر میں انتقال ہوا، نعش کو "تکیہ کلاں، رائے بریلی، لے جایا گیا اور وہاں دائرہ شاہ علم اللہ کے قبرستان میں شاہ علم اللہ کے سرہانے دفن کیا گیا۔ پسماندگان میں ایک صاحبزادے سید محمد الحسنی اور پانچ صاحبزادیاں تھیں۔[5]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. https://abulhasanalinadwi.org/book-category/books-by/hakim-sayyed-abdul-ali-hasani/
  2. حیات عبد الحی، صفحات 332 سے 356۔
  3. حیات عبد الحی، صفحہ؛ 367۔
  4. کتاب؛ "سوانح مولانا سید محمد الحسنی"، از؛ مولانا سید محمد ثانی حسنی ندوی، صفحہ: 47۔
  5. "سوانح مولانا سید محمد الحسنی" صفحہ: 47۔