حکیم محمد رمضان علی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

حکیم محمد رمضان علی قادری، سنجھورو (سانگھڑ) کے اکابر علمائے اہلسنت ہیں

ولادت[ترمیم]

ابوالحسان مولانا حکیم محمد رمضان علی قادری بن حکیم اللہ بخش قریشی 6؍رمضان المبارک 1340ھ/ 3؍مئی 1922ء میں بمقام شاہ پور جاجن، تحصیل بٹالہ ضلع گورداسپور (بھارت) پیدا ہوئے

تعلیم و تربیت[ترمیم]

مولانا حکیم محمد رمضان علی قادری نے فارسی میں گلستان، بوستان اور عربی کی تمام کتب درسِ نظامی مدرسہ عربیہ مظہرالعلوم محلہ کھڈہ کراچی میں پڑھیں۔1936ء میں پنجاب یونیورسٹی سے فارسی کا امتحان ’’منشی فاضل‘‘ پاس کیا۔دورۂ حدیث محدثِ اعظم مولانا محمد سردار احمد صاحب سے جامعہ رضویہ مظہرِ اسلام فیصل آباد میں پڑھ کر سندِ حدیث اور دستارِ فضیلت حاصل کی۔

علمِ طب کی ابتدائی کتب مولوی محمد صادق مہتمم مدرسہ عربیہ مظہرالعلوم کراچی سے پڑھیں اور پھر اپنے والد ماجد سے بقیہ کتبِ طب پڑھنے کے ساتھ عملی تربیت بھی حاصل کی۔ سندِ طب ’’ممتاز الاطباء‘‘ طبیہ کالج طبِ جدید شاہدرہ (لاہور) سے حاصل کی۔

بیعت[ترمیم]

1934ء میں آپ نے پیر سید جماعت علی شاہ لاثانی (علی پور سیداں سیالکوٹ) کے دستِ حق پرست پر بیعت کا شرف حاصل کیا۔ پھر ان کے وصال پر محدث اعظم پاکستان مولانا محمد سردار احمد اور پھر پیر طریقت حضرت فضل الٰہی صاحب (چک نمبر 66 ج۔ ب دہاندرہ، فیصل آباد) سے تجدیدِ بیعت کی، موخر الذکر نے آپ کو 1973ء میں خلافت سے نوازتے ہوئے بیعت کی اجازت مرحمت فرمائی۔

دینی و ملی خدمات[ترمیم]

آپ کے شب و روز تبلیغِ دین اور اسلام دشمن قوتوں کے خلاف قلمی جہاد میں گزرتے ہیں۔ اگست 1936ء سے اگست 1942ء تک چھ سال کا عرصہ اپنے آبائی شاہپور جاجن میں امامت و خطابت کے فرائض سر انجام دیتے رہے اور پھر 1956ء سے تاحال جامع مسجد غوثیہ سنجھور و ضلع سانگھر میں امام و خطیب کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ تحریکِ پاکستان کے دوران میں قصبہ شاہپور ضلع گورداسپور میں باوجود یکہ سکھوں اور ہندوؤں کا زور تھا۔ آپ نے پرائمری مسلم لیگ قائم کی جس کا نام مصلحتاً ’’انجمن تنویر الاسلام‘‘ رکھا اور نیشنل گارڈ قائم کرکے اس کا نام ’’غلامانِ رسول‘‘ رکھا۔ آپ جمعہ کے خطبات کے علاوہ پبلک جلسوں میں مسلم لیگی امیدواروں کے حق میں تقاریر کرتے رہے، چنانچہ ان سرگرمیوں کی بنا پر سکھوں اور ہندوؤں نے آپ کو ’’فسادی ملا‘‘ کے نام سے پکارا اور آپ کے قتل کے لیے مبلغ پانچ ہزار روپے مقرر کیے۔ تحریکِ ختم نبوت میں آپ نے بھرپور حصہ لیا۔ جمعہ کے اجتماعات میں ختمِ نبوت کے موضوع پر تقاریر کے ذریعے عوام کو قادیانیوں کی حقیقت اور عزائم سے روشناس کراتے رہے اور مرزائیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے لیے قراردادیں پاس کرکے حکومت کو بھیجتے رہے۔ مشرقی پاکستان کے سقوط کے بعد جب ذو الفقار علی بھٹو برسرِ اقتدار آیا، تو آپ نے ایک تحریک چلائی، جس کے ذریعے ملک میں عملاً اسلام کے نفاذ، مشرقی پاکستان میں مسلمانوں کے قتلِ عام کے بند کردیے، مارشل لا کے خاتمے اور بھارت سے پاکستانی جنگی قیدیوں کی فوری واپسی کا مطالبہ کیا گیا اور ان مطالبات پر مشتمل ایک پرچہ چھپواکر ملک بھر کی اہم شخصیتوں کو بھیجا گیا اور ہزاروں کی تعداد میں تقسیم کیا گیا۔

تصنیفات[ترمیم]

آپ نے مسلکِ اہل سنت کی صداقت اور گستاخانِ رسول علیہ السلام کے خود ساختہ اور بغض و عداوت پر مبنی عقائد کے رد میں چند کتب بھی تحریر فرمائیں، جو مندرجہ ذیل ہیں:

  • تنویر الایمان بوسیلۃ اولیاءالرحمٰن 248 صفحات (اولیاء کرام سے توسل کا جواز)
  • تنویرالبرہان 122 صفحات (غیر مقلدین کے چند اعتراضات کے مسکت جوابات)
  • مکمل تاریخ وہابیہ 256 صفحات (دورِ حاضر کے خوراج وہابیہ کی نقاب کشائی)
  • تنویر المصابیح فی حدود التراویح (بیس تراویح کا ثبوت)
  • معدنِ اخلاق (غیر مطبوعہ) (اخلاقیات پر جامع کتاب)[1]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. تعارف علما اہل سنت ص 106 محمد صدیق ہزاروی،مکتبہ قادریہ جامعہ نظامیہ لاہور