قحط

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
صومالیہ قحط کے دوران بچے خوراک کے منتظر ہیں۔

قحط غذائی قلت پر محیط ایسی صورت حال ہے، جس میں کسی بھی جاندار کو خوردنی اشیاء دستیاب نہ ہوں۔ یا خوردنی اشیاء کی شدید قلت پڑ جائے جو عموماً زمینی خرابی، خشک سالی اور وبائی امراض کی بدولت ہو سکتی ہے۔ ایسی صورت حال میں بڑے پیمانے پر اموات کا بھی خدشہ ہوتا ہے۔

ہندوستان[ترمیم]

ہندوستان کے لوگ غیر متوقع خشک سالی کے نتائج سے بخوبی واقف تھے اور اتنا اناج ذخیرہ کر کے رکھتے تھے کہ بارش نہ ہونے کے باوجود غذا کی کمی نہ ہو۔ مغلوں کے دور حکومت میں لگان (ٹیکس) 10 سے 15 فیصد ہوا کرتا تھا جسے ادا کرنے کے بعد بھی عوام کے پاس کافی غلہ بچ جاتا تھا۔ مگر 1765ء میں معاہدہ الٰہ باد طے پایا جس کے نتیجے میں شاہ عالم ثانی نے ٹیکس وصول کرنے کے اختیارات ایسٹ انڈیا کمپنی کو بخش دیے۔ راتوں رات ٹیکس بڑھ کر 50 فیصد ہو گیا۔ اس سے غربت میں شدید اضافہ ہوا اور آنے والے بُرے وقتوں کے لیے بچت کرنا انتہائی مشکل ہو گیا۔

Cornelius Wallard کے مطابق ہندوستان میں دو ہزار سالوں میں 17 دفعہ قحط پڑا تھا۔ مگر ایسٹ انڈیا کمپنی کے 120 سالہ دور میں 34 دفعہ قحط پڑا۔ مغلوں کے دور حکومت میں قحط کے زمانے میں لگان (ٹیکس) کم کر دیا جاتا تھا مگر ایسٹ انڈیا کمپنی نے قحط کے زمانے میں لگان بڑھا کر 60 فیصد کر دیا۔
1770-1771 ء کے قحط کے باوجود ایسٹ انڈیا کمپنی کو 1771ء میں 1768ء سے زیادہ منافع ہوا۔
وارن ہیسٹنگز ( Warren Hastings) کے مطابق بنگال کے قحط میں لگ بھگ ایک کروڑ افراد بھوک سے مر گئے جو کل آبادی کا ایک تہائی تھے۔ لوگ روٹی کی خاطر اپنے بچے بیچنے لگے تھے۔[1]

1876–1878ء کے جنوبی ہندوستان کے قحط زدگان۔ انگریز اس زمانے میں بھی ہندوستان سے غلہ ایکسپورٹ کرتے رہے۔ اس قحط میں لگ بھگ 70 لاکھ لوگ مر گئے۔
1876–1878ء کے قحط کے زمانے میں مدراس کے ساحل پر غلہ ایکسپورٹ کے لیے منتظر ہے۔ (February 1877)

1943ء کے بنگال کے قحط کے بارے میں ونسٹن چرچل نے کہا تھا "مجھے ہندوستانیوں سے نفرت ہے۔ یہ جنگلی لوگ ہیں اور ان کا مذہب بھی جنگلی ہے۔ قحط ان کی اپنی غلطی ہے کیونکہ وہ خرگوشوں کی طرح آبادی بڑھاتے ہیں"۔ 1945ء میں چرچل کو نوبل انعام برائے امن کے لیے نامزد کیا گیا مگر اسے یہ انعام نہ مل سکا۔ اس لیے 1953ء میں چرچل کو ادب کا نوبل انعام دیا گیا۔

Talking about the Bengal famine in 1943, Churchill said: “I hate Indians. They are a beastly people with a beastly religion. The famine was their own fault for breeding like rabbits.”[2]

چرچل نہ صرف سفید فاموں کی برتری (white supremacist) کا قائل تھا بلکہ وہ انڈیا کے لوگوں کو جانور سمجھتا تھا اور چرچل کی پالیسیوں کی وجہ سے 1940 کی دہائی میں انڈیا میں بڑا قحط رہا۔

Churchill viewed Indian people as animals, and that his policies regarding India led to mass starvation there in the early 1940s.[3]

جب برطانوی افسروں نے چرچل کی توجہ بنگال میں بڑے پیمانے پر ہونے والی اموات کی طرف دلائی تو چرچل کا جواب تھا کہ "پھر گاندھی ابھی تک کیوں نہیں مرا؟"

“And when conscience-stricken British officials wrote to the Prime Minister in London pointing out that his policies were causing needless loss of life all he could do was write peevishly in the margin of the report, ‘Why hasn’t Gandhi died yet?'"[4]
بنگال کے قحط[5]
1770ء
1783ء
1866ء
1873ء
1892ء
1897ء
1943ء

قحط بطور ہتھیار[ترمیم]

  • 1943-1944 ء کے بنگال کے قحط کی وجہ خراب فصل نہیں تھی۔[6] انگریز سارا غلہ دوسرے ممالک میں اپنی بر سر پیکار فوجوں کو بھیج رہے تھے جس کی وجہ سے غلے کی قلت ہو گئی تھی۔ انگریزوں کو یہ خطرہ بھی تھا کہ جاپانی برما کی طرف سے ہندوستان میں نہ داخل ہو جائیں اس لیے انھوں نے بنگال کا سارا اناج برآمد کر دیا کہ جاپانی فوج کو غلہ نہ مل سکے۔ اس قحط میں 30 لاکھ لوگ مر گئے۔ یاد رہے کہ اس زمانے میں بنگال میں انگریزوں کے خلاف شورش چل رہی تھی۔
  • ٹائمز آف انڈیا اخبار نے 16 نومبر 1943ء کو لکھا:
'مشرقی بنگال میں ایک ہولناک مگر عام منظر یہ تھا کہ نصف صدی کی سب سے شاندار فصل کے درمیان پڑا ہوا گلا سڑا کوئی انسانی ڈھانچہ نظر آ جاتا تھا۔'[7]
  • مغرب کی خوش حالی مشرق کی قبروں پر تعمیر ہوئی ہے۔
the riches of the west were built on the graves of the East.[8]
  • لوگ ہمیشہ سے جانتے ہیں کہ غلہ کی قلت سے قحط آتا ہے۔ لیکن کاغذی کرنسی کے دور میں قحط کی ایک نئی قسم ایجاد ہوئی جب اناج کی فراوانی کے باوجود قحط آنے لگے۔ یہ دراصل قحط نہیں بلکہ انتہائی غربت ہے۔
the issue and destruction of money by the money-lender is not a service, but a weapon which can be and has been used to perpetuate poverty amidst abundance,[9]

آئر لینڈ[ترمیم]

1845 میں آئرلینڈ میں شدید قحط آیا جس سے 1,029,000 لوگ مر گئے۔ تاریخ میں وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ آلو کی فصل ناکام ہونے کی وجہ سے یہ قحط آیا تھا جبکہ اسی سال آئرلینڈ سے اتنا غلہ ایکسپورٹ ہوا جو بھوک سے مرنے والوں کی چار سال تک غذائی ضرورت پوری کر سکتا تھا۔[10]

"آئر لینڈ کے قحط کے دوران بھی ماہرین معاشیات یہی بتاتے رہے کہ معاشی تھیوری کے تحت آئرلینڈ کا غلہ ایکسپورٹ کرنا ضروری ہے۔"نوم چومسکی[11]

قحط کی سیاست[ترمیم]

قحط کو ایک قدرتی آفت سمجھا جاتا ہے لیکن ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا۔ 1980ء کے جنوبی سوڈان کے قحط سے بالکل واضح ہے کہ صادق ال مہدی کی جمہوری حکومت، حکومت کے حمایت یافتہ جنگجو گروہ، بین الاقوامی امدادی ادارے اور SPLM نے دنکالینڈ میں قحط پیدا کرنے میں بھرپور حصہ لیا۔[12]
امرتیا سن (Amartya Sen) کا یہ نظریہ بالکل غلط نکلا کہ غربت کی وجہ سے قحط آتا ہے۔ دنکالینڈ پر ثروت کی وجہ سے قحط آیا اور ان کی دولت چند دوسرے بااثر لوگوں کو منتقل ہو گئی۔ اس مثال سے انسانی ہمدردی کرنے والے بین الاقوامی اداروں کی ساکھ مشکوک ہو گئی ہے۔ [13]

یوکرین[ترمیم]

یوکرین سویت یونین کا سب سے زرخیز علاقہ تھا اور دولت اور ثروت میں روس کے بعد دوسرے نمبر پر تھا۔ لیکن 1928ء میں جب وہاں کے کسانوں نے اسٹالن کی پالیسیوں کی مخالفت کری تو اسٹالن نے 1932-1933 میں وہاں بدترین قحط پیدا کر دیا جسے Holodomor کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس قحط میں لگ بھگ 70 لاکھ لوگ مر گئے۔

Through the Ukranian famine and genocides similar to it (The Kazakstan Famine, The Muslim Deportations) Stalin assured that Russia would dominate the Soviet Union and would not be challenged by nationalism (Infoukes).[14]

اقتباس[ترمیم]

  • "یہ بالکل واضح تھا کہ (ہندوستان میں) قحط سے نمٹنے کے لیے جس رقم کی ضرورت تھی وہ 1878 ء سے 1880ء کی افغانستان سے جنگ پر خرچ ہو رہی تھی۔"[15]
  • "امریکی تاریخ دان میتھیو وائٹ نے 'دا گریٹ بُک آف ہاریبل تھنگز' کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے جس میں انھوں نے تاریخ کی ایک سو بدترین سفاکیوں کا جائزہ پیش کیا ہے جن کے دوران سب سے زیادہ انسانی جانیں ضائع ہوئیں۔ اس کتاب میں تاریخ کی چوتھی بدترین سفاکی برطانوی دور میں ہندوستان میں آنے والے قحط ہیں جن میں وائٹ کے مطابق دو کروڑ 66 لاکھ ہندوستانیوں کی جانیں ضائع ہوئیں۔"[16] اس تعداد میں وائٹ نے دوسری جنگِ عظیم کے دوران بنگال میں آنے والے قحط کو شمار نہیں کیا جس میں 30 سے 50 لاکھ کے قریب لوگ مارے گئے تھے۔[7] اس کے برعکس جب چنگیز خان نے بغداد اور گرد و نواح میں 1206ء میں حملہ کیا تھا تو 20 سالوں میں 4 کروڑ لوگ مارے گئے تھے۔
  • "امیر ترین لوگوں کو قحط سے فائدہ ہوتا ہے۔ قحط عالمی معیشت کی جڑ ہے۔ بھوکے لوگ زیادہ کام کرتے ہیں خاص طور پر وہاں جہاں ہاتھ سے کام ہوتا ہے۔"۔۔۔۔۔"اگر دنیا میں بھوکے نہ ہوں تو کھیتوں میں کون ہل جوتے گا؟۔۔۔ ٹوائیلٹ کون صاف کرے گا؟ ہم میں سے بہت سے لوگوں کے لیے بھوک کوئی مسئلہ نہیں ہے بلکہ دولت حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔"[17]
“A great positive value to many people. Indeed, it is fundamental to the working of the world’s economy. Hungry people are the most productive people, especially where there is a need for manual labour.”
“if there were no hunger in the world, who would plow the fields?… Who would clean our toilets?… For many of us, hunger is not a problem, but an asset.”[18]
  • سرمایہ دارانہ معیشت کی ایک باقاعدہ اور جائز خصوصیت یہ تھی کہ قیمتوں کو منافع بخش بلند سطح پر برقرار رکھنے کے لیے پیداوار کو تباہ کر دو۔ چنانچہ اسی وجہ سے اگست 1933ء میں انگلستان اور اسپین کے درمیان 15 لاکھ نارنگیاں جان بوجھ کر سمندر میں پھینک کر ضائع کر دی گئیں۔ اس سے بھی زیادہ شرمناک بات یہ تھی کہ آئرلینڈ کی گایوں سے حاصل شدہ بھرپور دودھ جو گلاسگو پہنچ چکا تھا، بڑی مقدار میں دریائے کلائیڈ میں بہا دیا گیا۔ اور، یقیناً، برازیل میں کافی کو جلانا کافی مشہور ہے، حالانکہ شاید عام طور پر یہ احساس نہیں ہوتا کہ یہ کس قدر بڑے پیمانے پر کیا گیا ہے۔ 1931ء اور 1936ء کے درمیان تقریباً 40,000,000 کافی کے تھیلے جلائے جا چکے ہیں۔۔۔ اتنی کافی دنیا بھر کے لیے دیڑھ سال کی کھپت کے برابر ہے۔
ایک اندازے کے مطابق 1943ء تک دنیا بھر میں 80 کروڑ لوگ ملیریا کے مرض میں مبتلا ہوتے تھے جن میں سے دس کروڑ انڈیا میں ہوتے تھے۔ دنیا بھر میں ملیریا سے سالانہ 30 لاکھ لوگ مرتے تھے جن میں سے 10 لاکھ ہندوستانی تھے۔ اُس زمانے میں ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی جاوا میں 37,500 ایکڑ رقبے پر سنکونا (cinchona) درختوں سے بننے والی ملیریا کی دوا کوئینین (Quinine) پر مکمل اجارہ داری رکھتی تھی۔ دنیا بھر کو دستیاب کوئینین کا 95 فیصد حکومتی سرپرستی میں ڈچ سنڈیکیٹ کے ہاتھوں میں تھا۔ کوئینین کی قیمت زیادہ رکھنے کے لیے پیداوار کم رکھی جاتی تھی۔ ہر ملک کا کوئینین کا کوٹہ مقرر تھا۔ اگر سنکونا کی پیداوار دنیا بھر کے کوٹے سے زیادہ ہو جاتی تھی تو آدھی فصل جلا دی جاتی تھی تاکہ کوئینین کی قیمت گر نہ جائے۔ اس طرح ملیریا سے ہونے والی اموات میں خاطر خواہ اضافہ ہو جاتا تھا۔
" a regular feature of our capitalist-ridden economy was the destruction of the fruits of the earth as a legitimate method of maintaining price-levels at a profitable height. Thus , for this reason, in August, 1933, between England and Spain, 1,500,000 oranges were thrown into the sea deliberately. Even more disgraceful has been the pouring into the river Clyde of gallons of rich milk obtained from Irish cows imported and landed at Glasgow. And, of course, the burning of coffee in Brazil is quite well known, although perhaps it is not generally realized on what a gigantic scale this has been done. Between 1931 and 1936 about 40,000,000 bags have been destroyed . . . enough to supply the whole world for nearly a year and a half." [19]

شہاب نامہ[ترمیم]

قدرت اللہ شہاب کی خواہش پر سہروردی صاحب نے 1943ء میں ان کو تملوک بنگال میں بطور SDO تعینات کیا اور قدرت اللہ شہاب نے بنگال کے قحط کی صورت حال کو بڑے نزدیک سے دیکھا۔ تملوک کے آس پاس تین انگریز کلکٹر تخریبی عناصر کے ہاتھوں یکے بعد دیگرے قتل ہو چکے تھے۔ ۔ اپنی کتاب شہاب نامہ میں وہ لکھتے ہیں کہ:

  • "بنگال کا قحط بلائے ناگہانی کا نتیجہ کم اور حکومت کی بد انتظامی کا نتیجہ زیادہ تھا۔ مشرق بعید میں ملک پر ملک فتح کرنے کے بعد اب جاپانی فوجیں آسام کی سرحد پر ہندوستان کا دروازہ کھٹکھٹا رہی تھیں۔ کلکتہ اور مدراس پر جاپانی ففتھ کالم کے ایجنٹوں کے اترنے کی خبریں بھی متواتر پھیل رہی تھں۔ 1942ء کی Quit India (انڈیا سے جاو) تحریک کے بعد برٹش گورنمنٹ بھی تذبذب میں تھی کہ اگر جاپان نے واقعی حملہ کیا تو خدا جانے مقامی آبادی کس کا ساتھ دے۔ بنگال میں سبھاش چندر بوس کے فارورڈ بلاک کا خاصا اثر تھا۔ اس لیے جاپانی حملے کی صورت میں اس صوبے کی وفاداری کے متعلق حکومت کے ذہن میں بہت بڑا سوالیہ نشان تھا۔ ان تمام خطرات کے پیش نظر حکومت نے ایک طرح کی Scorched Earth Policy کو اپنی حکمت عملی کا حصہ بنا لیا۔ اس پالیسی کے تحت صوبے میں چند بڑے بڑے Procurement Agents مقرر کر دیے گئے۔ انھوں نے شہروں اور بڑے بڑے (قصبوں) میں جگہ جگہ اپنے گودام کھول لیے اور ایڈمنسٹریشن کی مدد سے دھان اور چاول کی ساری فصل سستے داموں خرید خرید کر اپنے گوداموں میں بھرنی شروع کر دی۔ دیکھتے ہی دیکھتے صوبے کی تقریباً ساری خوراک پروکیورمنٹ ایجنٹوں کے گوداموں میں مقفل ہو گئی۔ یہ ذخیرے زیادہ تر حکومت کی اپنی سول اور ملٹری ضروریات پوری کرنے کے لیے کام میں لائے جاتے ہیں۔ ان کے متعلق مستقل احکام یہ تھے کہ جاپانیوں کی پیش قدمی کی صورت میں ان سب کو جلا کر تباہ کر دیا جائے تا کہ خوراک کا کوئی ذخیرہ دشمنوں کے ہاتھ میں نہ آنے پائے۔
جو تھوڑا بہت چاول پروکیورمنٹ ایجنٹوں کی دسترس سے بچ رہا تھا، اسے مقامی زمینداروں، بنیوں اور امیر لوگوں نے دھونس، دھاندلی یا لالچ کے زور سے خرید کر اپنے اپنے ذاتی ذخیروں میں جمع کر لیا۔ رفتہ رفتہ اناج کی منڈیاں بند ہو گئں، کاشتکاروں کے اثاثے ختم ہو گئے اور زمینداروں اور بنیوں کے چاول کی قیمت آسمان سے باتیں کرنے لگی۔ شروع شروع میں غریب دیہاتیوں نے چاول کی جگہ ساگ پات پر گزارا کرنا شروع کر دیا۔ پھر وہ درختوں کے پتے ابال ابال کر کھانے لگے۔ گاؤں گاؤں میں بھوک اور موت نے چھاؤنی ڈال دی۔ آدمیوں کی کمریں خمیدہ ہو گئیں۔ عورتوں کی چھاتیاں سوکھ کر مردار گوشت کی طرح لٹکنے لگیں۔ بچوں کی پسلیاں تڑ مڑ کر اندر گھس گئیں اور پیٹ غباروں کی طرح پھول کر باہر نکل آئے۔ اس حالت میں وہ گھبرا کر اپنی ویران جھونپڑیوں سے باہر نکل آتے تھے۔ باہر سڑک پر آ کر وہ اکیلے نہ رہتے تھے۔ ان کے پچھے ایک جہان تھا جو امڈتا چلا آ رہا تھا۔ ان میں بچے تھے جو بلکتے ہوئے جا رہے تھے، بوڑھے آدمی جو سسکتے ہوئے جا رہے تھے، عورتیں جو بر سر عام بکتی ہوئی جا رہی تھیں۔ کچھ مر گئے کچھ لٹ گئے۔ لیکن جو چل سکتے تھے وہ چلتے رہے۔ جو رینگ سکتے تھے وہ رینگتے رہے ۔ اور ایک آسودہ منزل کا مقناطیس لوہ چون کی طرح سمیٹ کر انھیں اپنی طرف کھینچتا رہا۔ ان کی امیدوں کا کعبہ کلکتہ تھا جہاں اونچے اونچے مکان ہیں، رنگ برنگی دکانیں، موٹے موٹے سیٹھ، جہاں کتوں کو گوشت ملتا ہے۔ بلیاں دودھ پیتی ہیں، لوگ ناچتے ہیں ۔ وہاں چاول بھی تو ہوں گے۔ نیم جان ڈھانچوں کے قافلے در قافلے اسی ایک امید کا سہارا لیے چلتے رہے۔ ان کے تخیل نے کلکتہ کے بلند و بالا مکانوں میں اور سڑکوں پر چاولوں کے بورے ہی بورے بچھا رکھے تھے، جو محض ان کے آنے کا انتظار کر رہے تھے۔ یہ خوش آئند ذہنی سراب ان کی ٹوٹی ہوئی کمر میں رسے باندھ باندھ کر اپنی طرف کھینچ رہا تھا۔ وہ قدم قدم پر گرتے تھے۔ اور ہر نئے موڑ پر ان کی امیدوں کا ہجوم چمچما اٹھتا تھا۔ امیدوں کا ہجوم ہی نہیں، کلکتہ کی چمکیلی سڑکوں اور تنگ گلیوں میں بھی نیم جان ڈھانچوں کے ہجوم ہی ہجوم تھے، جو سیلاب کے ریلے کی طرح ہر لمحہ بڑھتے ہی چلے جا رہے تھے۔
"او ماں چاول۔۔۔ ،او بابا چاول۔۔۔ ،او بابو چاول۔۔۔ او دادا چاول۔۔۔" لیکن ماں کہاں تھی؟ بابا کہاں تھے؟ اور پھر وہ چاولوں کے بورے کیا ہوئے جو کلکتہ کی سڑکوں پر بکھرے ہوئے تھے؟ یہاں تو دروازوں پر دربان تھے۔ سڑکوں پر موٹریں۔۔۔ اور سپاہی۔ یہ بھوکے اور پیاسے لوگ موت سے لڑتے آئے تھے۔ اب کلکتہ پہنچ کر وہ زندگی سے لڑنے لگے۔ وہ نالیوں میں تیرتے ہوئے مونگ پھلی کے چھلکوں اور گوبھی کے پتوں کو نکال کر کھاتے تھے۔ وہ گندگی کے ڈھیروں کو کرید کرید کر اپنا پیٹ بھرنے کی کوشش کرتے تھے۔ وہ کارپوریشن کی کوڑا کرکٹ والی گاڑی پر چیلوں کی طرح جھپٹتے تھے۔ وہ ایک دوسرے سے لڑتے تھے، منہ نوچتے تھے۔ بال کھینچتے تھے۔ ان کی لڑائی کتوں سے ہوتی تھی۔ اور جب وہ نڈھال ہو کر سڑک کے درمیان گر جاتے تھے تو لال پگڑی والے سپاہیوں کا دستہ انھیں ٹانگوں سے گھسیٹ کر ایک طرف کنارے لگا دیتا تھا تا کہ سڑک پر چلنے والے سبک رفتار ٹریفک کی آمد و رفت میں کوئی رکاوٹ نہ پیدا ہو۔
شام پڑتے ہی دریائے ہوگلی کے ہوڑہ برج پر فاقہ زدہ عورتوں اور بچوں کا ایک میلہ سا لگ جاتا تھا۔ اس طویل پل کے دونوں جانب بے شمار مائیں اپنے سہمے ہوئے کمسن بچوں کو گلے سے لگائے آہنی جنگلوں اور محرابوں کے ساتھ قطار در قطار کھڑی ہو جاتی تھیں۔ ہر ایک کی کوشش ہوتی تھی کہ کوئی کھاتا پیتا خاندان ان کے بچوں کو خرید لے یا مفت اپنے ساتھ لے جائے۔ کبھی کوئی ماں اپنے لخت جگر کو آخری بار سینے سے لگاتی تھی اور پھر آنکھیں بند کر کے اسے غڑاپ سے دریائے ہوگلی میں پھنک دیتی تھی۔ کبھی کوئی عورت اپنے بچوں سمیت خود دریا میں چھلانگ لگا دیتی تھی۔ دریائے ہوگلی میں بجرے اور سٹیمر خراماں خراماں چلتے رہتے تھے۔ پل پر دونوں جانب تیز رفتار ٹریفک رواں دواں رہتا تھا۔ اور برٹش حکومت کے لیے ایک اور رات جاپانی حملے کے بغیر خیر و عافیت سے گذر جاتی تھی۔"
  • بھوک میں انسان کا جسم بہت پہلے مر جاتا ہے۔ لیکن اس کا دماغ بڑی دیر تک زندہ رہتا ہے۔ آخری دم تک ذہن کے کسی نہ کسی نہاں خانے میں یہ امید ٹمٹماتی رہتی ہے کہ یہ موت عام قضا کی طرح نہ اٹل ہے نہ لابد ہے، نہ مبرم ہے نہ ناگریز ہے۔ شاید ابھی کسی ہمسائے کے گھر سے چاولوں کی ایک پلیٹ آ جائے۔ شاید ابھی کوئی راہگیر دودھ کا پیالہ ہاتھ میں لیے غیب سے نمودار ہو جائے۔ شاید!
راحیل خوندکر کئی روز سے اس طرح موت و حیات امید و بیم کے شکنجے میں جکڑا ہوا اپنی جھونپڑی کے دروازے میں اکیلا پڑا تھا۔ کسی راہگیر یا ہمسائے نے تو اسے دودھ یا چاول لا کر نہیں دیے تھے، البتہ فرینڈز ایمبولینس یونٹ کی ایک امدادی ٹیم ضرور وہاں پہنچی تھی۔ پاؤڈر ملک، گلوکوز کے ڈبوں، بسکٹوں کے پیکٹوں اور وٹامن کی گولیوں سے بھری ہوئی ان کی جیپ دور ایک درخت کے سائے میں کھڑی تھی۔ مسٹر رچرڈ سائمنڈز منیلا ہیٹ پہنے، کالا چشمہ لگائے جھونپڑی کے عقب میں گھٹنوں کے بل اس طرح دم سادھے بیٹھا تھا جیسے مچھلی کا شکاری کنڈی لگا کر خاموشی اختیار کر لیتا ہے۔ ایک ناریل کے درخت کی اوٹ میں مس بینکرٹ بھی بائناکولر آنکھوں سے لگائے جھونپڑی کی طرف ٹکٹکی باندھے بیٹھی تھی۔ جھونپڑی کے قریب ان کا تیسرا ساتھی دبے پاؤں مورچہ جما کر مختلف کیمروں سے کھٹا کھٹ تصویریں کھینچنے میں مشغول تھا۔ راحیل خونڈکر جھونپڑی کے دروازے میں بے حس و حرکت پڑا تھا۔ وہ ابھی مرا نہیں تھا۔ اس کی آنکھیں میں موٹے موٹے آنسو موم بتی کے پگھلتے ہوئے قطروں کی طرح لٹکے ہوئے تھے اور ایک گیدڑ اس کے پاؤں کی ایڑی میں دانت گاڑے کچر کچر منہ مار رہا تھا۔ راحیل کی ٹانگوں میں اتنی سکت نہ تھی کہ وہ گیدڑ کے منہ سے اپنا پاؤں کھینچ لے۔ یہ ایسا نایاب منظر تھا جو امریکی فوٹو گرافر کو کہیں اور ملنا دشوار تھا۔ اس لیے جب میری جیپ کی آواز سن کر گیدڑ بھاگ گیا تو فرینڈز ایمبولینس یونٹ کی امدادی ٹیم نے بڑا برا منایا اور وہ دیر تک آپس میں زیر لب بڑبڑاتے رہے۔
  • تملوک میں حکومت کی طرف سے مختلف مقامات پر آٹھ غریب خانے کھلے ہوئے تھے۔ ریڈ کراس کی جانب سے ہر غریب خانے کو وقفے وقفے پر دودھ کے ڈبے گلوکوز، بسکٹ، وٹامن کی گولیاں صابن اور تیل اچھی خاصی مقدار میں تقسیم ہوتا تھا۔ غریب خانوں کے سپر وائزر ان اشیاء کو وصول کر کے بڑی پابندی سے قصبوں اور شہروں کی دکانوں میں فروخت کر ڈالتے تھے۔ ہر پوور ہاؤس (Poor house) کے رجسٹر میں مکینوں کی تعداد بڑھا چڑھا کر دگنی تگنی درج کی جاتی تھی تا کہ فالتو راشن حکومت سے وصول کر کے با آسانی بلیک مارکیٹ میں بکتا رہے، مکینوں کو بھی ان کی مقررہ مقدار سے کبھی نصف خوراک ملتی تھی، کبھی نصف سے بھی کم۔ چائے چینی اور دودھ روزانہ وصول ہوتا تھا لیکن تقسیم اسی روز ہوتا تھا جب کوئی بڑا افسر معائنے پر آیا ہوا ہو۔ غریب خانے میں داخلہ حاصل کرنے کے لیے بھوک اور افلاس کافی شرط نہ تھے۔ سب سے پہلے گاؤں یا علاقے کا مکھیا زمیندار یا معزز شہری ایک پرچی جاری کرتا تھا۔ جس میں متاثرہ افراد کی تعداد نام، ولدیت سکونت اخلاقی کردار اور سیاسی رجحان کے کوائف کی تفصیل درج ہوتی تھی۔ اس کے بعد سرکل افسر اس پرچی کی تصدیق کرتا تھا۔ ان دونوں مرحلوں میں تاخیر و تعویق کے بڑے امکان تھے۔ لیکن اگر خوش قسمتی سے کسی خاندان میں کوئی جوان اور قبول صورت لڑکی بھی شامل ہے تو ہر مرحلے پر وہ بڑے موثر پروانہ راہداری کا کام دے سکتی تھی۔ غریب خانے میں داخل ہونے کے بعد بھی دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہی رہتا تھا۔ بچوں اور بوڑھوں کو تو ان کے حال پر چھوڑ دیا جاتا تھا لیکن سپروائزر سے لے کر سٹور کلرک، اکاؤنٹ کلرک، باورچی، سقا، مہتر سب اپنی اپنی توفیق کے مطابق جوان عورتوں کی پزیرائی میں منہمک ہو جاتے تھے۔ کوئی انھیں چوری چوری خوشبو دار صابن کی ٹکیاں دیتا تھا کوئی دودھ کا ڈبہ، کوئی بسکٹ، کوئی سگریٹ، کوئی وٹامن کی گولیاں ------ غریب خانہ ہو یا راحیل خوندکر کی جھونپڑی، بھوک کی منڈی میں جسم، جاں اور جنس کا ایک ہی ریٹ تھا۔
ایک روز میں ایک پوور ہاؤس (غریب خانے) کا معائنہ کر رہا تھا تو چودہ پندرہ برس کی ایک بے حد حسین و جمیل بچی کو دیکھا جو اپنی نیم جاں ماں کا سر اپنی گود میں رکھے سب سے الگ تھلگ بیٹھی تھی۔ اس کا نام نورجہاں تھا۔ اگر اس کے ہاتھ میں دو کبوتر ہوتے اور شہزادہ سلیم اسے دیکھ لیتا تو غریب خانے کی بجائے وہ تاج پہنے کسی محل میں بیٹھی ملکہ عالم کہلاتی۔ پوور ہاؤس کا سارا عملہ بڑی بے چینی سے اس کی ماں کے مرنے کا انتظار کر رہا تھا۔ ان کے منہ سے گز گز بھر کی رال ٹپکتے دیکھ کر میں نے ماں بیٹی کو اٹھا کر اپنی جیپ میں ڈالا اور انھیں قریب کے ایک گاؤں کولا گھاٹ لے گیا۔ وہاں پر ایک کھاتے پیتے مسلمان زمیندار حاجی عبد الرحمن رہتے تھے۔ وہ خدمت خلق کے لیے مشہور تھے۔ اور وار فنڈ، ریڈ کراس فنڈ، سیلاب ریلیف فنڈ وغیرہ میں بڑی فیاضی سے حصہ لیا کرتے تھے۔ ان کی عمر ستر برس سے اوپر تھی۔ میں نے ان سے درخواست کی کہ اگر وہ ان ماں یٹی کو اپنے ہاں پناہ دے دیں، تو یہ بڑے ثواب کا عمل ہو گا۔ حاجی صاحب بڑی گرمجوشی سے رضا مند ہو گئے۔ بچاری ماں تو چند روز میں اللہ کو پیاری ہو گئی۔ اور پھر یہ خبر ملی کہ اس کا چالیسواں کرنے کے بعد حاجی صاحب نے خود نورجہاں سے فی سبیل اللہ نکاح کر لیا ہے۔ اگر حاجی صاحب اس کار خیر میں تاخیر کرتے تو ان کے کئی بیٹے بھی یہ ثواب کمانے کے لیے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لیے بے قرار تھے۔
  • لنچ کے اختتام پر وائسرائے لارڈ ویول نے غالباً ایسے ہی رسمی خوش سگالی کے طور پر مجھے سے دریافت کیا کہ اس سب ڈویژن کے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے میرے ذہن میں کوئی خاص تجویز ہے؟
موقع غنیمت جان میں نے کھٹ سے اپنی ایک دلپسند تجویز پیش کر دی جسے اس سے پیشتر کلکتہ میں ریلیف کمشنر کے سامنے پیش کر کے میں کئی بار منہ کی کھا چکا تھا۔ تجویز یہ تھی کہ تملوک کی سب ڈویژن میں جو اک سوا لاکھ من دہان ایجنٹوں کے گوداموں میں مقفل پڑا ہے۔ اس کا کم از کم نصف حصہ بھوک کے مارے ہوئے نادار لوگوں میں مفت تقسیم کر دیا جائے۔ یہی ایک طریقہ ہے جس کے ذریعہ زیادہ سے زیادہ مستحق لوگوں کو زیادہ سے زیادہ سچ مچ کا فائدہ پہنچایا جا سکتا ہے۔
میری تجویز سنتے ہی وائسرائے کی پارٹی پر ایک عجیب ہی سرد مہری چھا گئی۔ گورنر ردر فورڈ نے اپنی آنکھوں کے گوشے سمیٹ کر مجھے ترچھی نظر سے گھورا۔ لارڈ ویول نے اپنی برف جیسی پتھر کی آنکھ میرے چہرے پر بڑی سختی سے گاڑی۔ اور فوجی افسروں نے بے اعتنائی حقارت اور خفگی کے ملے جلے انداز سے اپنے کندھوں کو اچکایا۔ میری تجویز پر اس خاموش تبصرے کے بعد وائسرائے کی پارٹی تملوک سے رخصت ہو گئی۔
چند ماہ بعد اچانک سمندر کے جوار بھاٹے میں ایک بار پھر جوش اٹھا۔ اور تملوک کی دو ندیوں میں غیر معمولی سیلاب آ گیا۔ ان دو ندیوں کے درمیان آٹھ دس گاؤں آباد تھے۔ جو چاروں طرف سے پانی میں گھر کر باقی دنیا سے بالکل کٹ گئے۔ پانی کی دھار اس قدر تیز تھی کہ کشتیوں کے ذریعہ بھی گھری ہوئی آبادی تک پہنچنا دشوار تھا۔ رسل و رسائل کے ذرائع منقطع ہوتے ہی وہاں پر فاقے کی موتوں میں تیزی سے اضافہ ہونے لگا۔ سیلاب سے گھرے ہوئے علاقے میں ایک (حکومتی) گودام تھا جس میں آٹھ ہزار من دھان بوریوں میں بند پڑا تھا۔ میں نے تار پر تار دے کر صوبائی حکومت سے درخواست کی اس گودام سے کچھ غلہ متاثرہ آبادی میں تقسیم کرنے کی اجازت عطا فرمائی جائے۔
لیکن وہاں سے کوئی جواب آنا تھا نہ آیا۔ ایک روز گودام کے آس پاس تین بچوں اور دو عورتوں کی لاشیں پائی گئیں۔ اب مزید انتظار فضول ہی نہیں بلکہ مجرمانہ غفلت کے مترادف تھا۔ چنانچہ میں نے کانگرس، مسلم لیگ اور فارورڈ بلاک سے ایک ایک نمائندہ چن کر پولیس کی سرکردگی میں گودام کا تالہ تڑوا دیا اور آدھا دھان ان کے حوالے کر دیا۔ اس کمیٹی نے بڑی محنت اور ایمانداری سے یہ غلہ سیلاب زدہ دیہات کے مستحق لوگوں میں تقسیم کر دیا۔
میں نے اس کمیٹی میں ہندو سبھا کا نمائندہ جان بوجھ کر شامل نہیں کیا تھا۔ اس پر مہا سبھائی لیڈر ڈاکٹر شیام پرشاد مکر جی نے کلکتہ کے اخباروں میں میرے خلاف بڑے سخت بیان دیے۔ Procurement Agent کے وکیل نے مدنا پور کی سول کورٹ میں میرے خلاف کئی لاکھ روپے کے ہرجانہ کا دعویٰ دائر کر دیا۔ بنگال کے چیف سیکرٹری نے ایک بے حد روکھے سے خط میں مجھے صوبائی حکومت کی بے اطمینانی ناپسندیدگی اور خفگی سے آگاہ کیا اور میری خدمات صوبہ بہار کو واپس کر دیں۔ بہار کے چیف سیکرٹری نے ایک اسی قدر روکھی ٹیلی گرام کے ذریعہ غالباً سزا کے طور پر میرا تبادلہ اڑیسہ کر دیا۔

مزید دیکھیے[ترمیم]

بیرونی ربط[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. The Corporation that Changed World
  2. 5 of the worst atrocities carried out by the British Empire
  3. "Cambridge University Panel: Winston Churchill A "White Supremacist" Leading Empire "Worse Than The Nazis""۔ 15 فروری 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 فروری 2021 
  4. Winston Churchill has as much blood on his hands as the worst genocidal dictators, claims Indian politician
  5. بنگال کا قحط: کس طرح برطانیہ نے منافع کی خاطر تاریخ کا سب سے بڑا قتل عام کیا
  6. Famine in India
  7. ^ ا ب بی بی سی اردو
  8. The Bengal Famine: How the British engineered the worst genocide in human history for profit
  9. Money Manipulation and Social Order by REV. DENIS FAHEY-1944[مردہ ربط]
  10. جنگوں، انقلابوں اور افراط کے باوجود غربت کے پیچھے چھپا "خفیہ ہاتھ"
  11. Keeping the Rabble in Line
  12. ‘politics of famine’
  13. قحط کے فوائد
  14. "Benefits for Russia"۔ 19 دسمبر 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 جنوری 2018 
  15. Florence Nightingale on Health in India: Collected Works of Florence Nightingale
  16. The Great Big Book of Horrible Things
  17. Hungry? The Benefits Of Famine According To Central Planners
  18. UN Deletes Weird 'Satirical' Article Celebrating Benefits Of World Hunger After Backlash
  19. MONEY MANIPULATION AND SOCIAL ORDER by DENIS FAHEY