احمدیہ میں جہاد

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

احمدیہ میں جہاد ایک بنیادی تصور ہے۔ یہ بنیادی طور پر تزکیہ نفس کے لیے کسی کی ذاتی، داخلی اور خارجی جدوجہد ہے۔ مسلح یا عسکری جدوجہد صرف دفاع میں استعمال کی جاتی ہے۔ تاہم، اس کے باوجود بھی یہ صرف ایک خلیفہ کی ہدایت کے تحت عمل میں لایا جا سکتا ہے، جو خدا کی رضا اور دین کے تحفظ کے لیے ہو۔[1] احمدیہ میں یہ جائز نہیں کہ مذہب کو متشدد طور پر پھیلانے کے لیے یا سیاسی مقاصد کے لیے جہاد کا استعمال کیا جائے یا یہ کہ مذہبی آزادی کو برقرار رکھنے والی حکومت کے خلاف جہاد کیا جائے۔ آزادی کے لیے سیاسی تنازعات (یہاں تک کہ دفاعی موقف سے) مذہبی عقائد کے سوا اور وجوہات کی بنا پر زمین اور وسائل کے لیے جنگ کو جہاد نہیں کہا جا سکتا۔ احمدی الہیات میں، جہاد (جدوجہد) اور قتال یا جہاد بل سیف (لڑائی) کے مابین واضح فرق موجود ہے۔ اگرچہ جہاد لڑائی میں شامل ہو سکتا ہے، لیکن ہر لڑائی کو جہاد نہیں کہا جا سکتا۔ بل کہ، احمدیہ عقیدے کے مطابق، قتال یا فوجی جہاد صرف انتہائی سخت حالات میں دفاعی اقدام کے طور پر قابل اطلاق ہے اور یہ حالات اس وقت موجود نہیں ہیں۔[2][3]

مرزا غلام احمد قادیانی کے دور میں[ترمیم]

مرزا غلام احمد نے اپنے عہد میں انگریز حکومت کے خلاف مسلح جد و جہد کرنے کو غلط قرار دیا اور اور باقاعدہ منع کیا۔ اسی دور میں انھوں نے تحفہ گولڑویہ میں لکھتے ہیں: اب چھوڑ دو جہاد کا اے دوستو خیال

دیں کے لیے حرام ہے اب جنگ اور قتال

کیوں بھولتے ہو تم یضع الحرب کی خبر

کیا یہ نہیں بخاری میں دیکھو تو کھول کر

فرما چکا ہے سید کونین مصطفٰی

عیسیٰ مسیح جنگوں کا کر دے گا التوا

یہ حکم سن کے بھی جو لڑائی کو جائے گا

وہ کافروں سے سخت ہزیمت اٹھائے گا

اک معجزہ کے طور سے یہ پیشگوئی ہے

کافی ہے سوچنے کو اگر اہل کوئی ہے [4] لیکن اسی کتاب میں آگے دوسری جگہ مرزا غلام احمد نے لکھا اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اس زمانہ میں اور اس ملک میں جہاد کی شرائط مفقود ہیں۔۔۔ امن اور عافیت کے دور میں جہاد نہیں ہو سکتا[5] جب کہ اپنی دوسری کتاب میں ایک جگہ لکھا کہ ہم کو یہ بھی حکم ہے کہ دشمن جس طرح ہمارے خلاف تیاری کرتا ہے ہم بھی اس کے خلاف اسی طرح تیاری کریں [6] اور ایک جگہ قرآن کا حوالہ دیا کہ اگر دشمن باز نہ آئیں تو تمام مومنوں پر واجب ہے کہ ان سے جنگ کریں [7]

مرزا بشیر الدین محمود احمد کے دور میں[ترمیم]

احمدیہ کے پہلے خلیفہ مرزا بشیر الدین محمود احمد نے پاکستان کے بن جانے کے بعد، بھارت کے خلاف پاکستان کی طرف لڑنے کو درست قرار دیا اور اسے جہاد سے تعبیر کیا۔

  1. ایک زمانہ ایسا تھا کہ غیر قوم ہم پر حاکم تھی۔ اور وہ غیر قوم امن پسند تھی۔ مذہبی معاملات میں وہ کسی قسم کا دخل نہیں دیتی تھی اس کے متعلق شریعت کا حکم یہی تھا کہ اس کے ساتھ جہاد جائز نہیں‘‘
  2. اب حالات بالکل مختلف ہیں اب اگر پاکستان سے کسی ملک کی لڑائی ہو گئی تو حکومت کے ساتھ (تائید میں) ہوکر ہمیں لڑنا پڑے گا اور حکومت کی تائید میں ہمیں جنگ کرنی پڑے گی‘‘
  3. جیسے نماز پڑھنافرض ہے اسی طرح دین کی خاطر ضرورت پیش آنے پر لڑائی کرنا بھی فرض ہے‘‘
  4. جن امور کو اسلام نے ایمان کا اہم ترین حصہ قرار دیا ہے ان میں سے ایک جہاد بھی ہے بلکہ یہاں تک فرمایا کہ جو شخص جہاد کے موقع پر پیٹھ دکھاتا ہے وہ جہنمی ہوجاتا ہے‘‘
  5. جب کبھی جہاد کا موقع آئے تو۔۔۔ اس میدان میں بھی ہم سب سے بہتر نمونہ دکھانے والے ہوں‘‘ [8]

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. "Suspension of Jihad"۔ اپریل 14, 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ ستمبر 3, 2014 
  2. "Introduction to the Ahmadiyya Muslim Community"۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 فروری 2016 
  3. تحفہ گولڑویہ۔ روحانی خزائن جلد17۔ صفحہ 82
  4. تحفہ گولڑویہ۔ مرآو غلام احمد، روحانی خزائن جلد17۔ صفحہ 77۔78
  5. تحفہ گولڑویہ۔ مرآو غلام احمد، روحانی خزائن جلد17۔ صفحہ 82
  6. حقیقۃ المہدی۔ روحانی خزائن جلد14۔ صفحہ۔454
  7. نور الحق حصہ اول۔ روحانی خزائن، مرزا غلام احمد جلد 8۔ صفحہ۔62
  8. رپورٹ مجلس مشاورت 1950ء۔ صفحہ9۔12۔14

بیرونی روابط[ترمیم]