محمد ابراہیم میر سیالکوٹی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
محمد ابراہیم میر سیالکوٹی
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1874ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
سیالکوٹ   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تاریخ وفات 12 جنوری 1956ء (81–82 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت برطانوی ہند
پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ عالم ،  تحریک پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

علامہ محمد ابراہیم میر سیالکوٹی (ولادت: 1874ء - وفات: 12جنوری 1956ء) اہل حدیث عالم دین، کارکن تحریک پاکستان تھے۔[1][2][3][4] میر سیالکوٹی آل انڈیا مسلم لیگ کے رکن تھے۔[5] آپ کو ابراہیم میر سیالکوٹی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔

ولادت[ترمیم]

مولانا ابراہیم میر 1874ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام سیٹھ غلام قادر تھا۔[1][2][4]

تعلیم[ترمیم]

مولانا سیالکوٹی کا گھرانہ دینی تھا۔ چنانچہ مولانا نے 1895ء کو میٹرک کا امتحان ہائی اسکول غلہ منڈی سیالکوٹ سے پاس کیا تو سیالکوٹ کے مشہور کالج مرے کالج میں داخلہ لے لیا۔ اس کالج میں مصور پاکستان شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال ان کے ہم جماعت تھے۔ مگر والدین کی خواہش تھی کہ ہمارا بیٹا دینی تعلیم حاصل کرے اور خود مولانا کا بھی دینی تعلیم کی طرف رجحان تھا، اس لیے کالج کو خیرباد کہا اور دینی تعلیم کے حصول کے لیے کمربستہ ہو گئے۔[4]

ابتدائی تعلیم مولاناغلام حسن سیالکوٹی سے حاصل کی۔ مولانا غلام حسن، شیخ الکل سید نذیر حسین محدث دہلوی کے فیض یافتہ تھے۔ نیز مولانا حسن سیالکوٹی کے شیخ پنجاب حضرت حافظ عبدالمنان وزیر آبادی سے انتہائی گہرے تعلقات تھے۔ اس طرح مولانا غلام حسن کے توسط سے مولانا ابراہیم کے والد سیٹھ غلام قادر سے بھی حضرت حافظ صاحب کے دوستانہ تعلقات ہو گئے۔ یہاں تک کے ایک مرتبہ حضرت حافظ صاحب نے سیٹھ صاحب سے کہا کہ آپ اپنے لڑکے ابراہیم کو میرے پاس وزیر آباد بھیج دیں۔ حافظ صاحب کہ کہنے پر سیٹھ غلام قادر نے اپنے لڑکے کا ہاتھ حافظ صاحب کے ہاتھ میں دے دیا اور ابراہیم میر سیالکوٹی حصول تعلیم کے لیے دار الحدیث وزیر آباد میں آ گئے۔ مولانا نہایت ذہین و فطین قوی الحافظہ تھے۔ اس لیے کم وقت میں جملہ علوم اسلامیہ کی تعلیم حضرت حافظ صاحب سے حاصل کی۔ یہاں سے فراغت کے بعد ابھی تشنگی باقی تھی اور مزید تعلیم حاصل کرنے کا شوق تھا اس لیے وزیر آباد چھوڑ کر علوم و فنون کے مرکز دہلی کا رخ کیا اور شیخ الکل سید نذیر حسین محدث دہلوی کے حضور زانوئے تلمذ طے کیا۔ مولانا میر سیالکوٹی سید صاحب کے آخری دور کے شاگرد ہیں۔ ​ جب مولانا سیالکوٹی دہلی سے فراغت کے بعد وزیر آباد آئے تو والدہ نے کہا کہ بیٹا میری خواہش ہے کہ اس دفعہ تو نماز تراویح میں قرآن سنائے۔ مولانا حافظ قرآن نہ تھے، کہا اماں جان کوئی بات نہیں، آپ دعا کریں اور میں قرآن یاد کرتا ہوں۔ چنانچہ اوّل رمضان سے قرآن یاد کرنا شروع کیا۔ روزانہ ایک پارہ یاد کرتے اور رات کو نمازِ تراویح میں سناتے۔ والدہ صاحبہ نے تمام رمضان دعا کا سلسلہ جاری رکھا غرض ادھر رمضان کے تیس دن پورے ہوئے اور مولانا سیالکوٹی نے قرآن کے تیس سپارے مکمل سنا دیے۔[4]

عملی زندگی[ترمیم]

مولانا نے سیالکوٹ میں ایک دینی درسگاہ دار الحدیث کے نام سے شروع کی۔ دسمبر 1906ء کو آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس کا قیام عمل میں آیا۔ مولانا سیالکوٹی اس اجلاس میں شامل تھے۔ کانفرنس کو متعارف کروانے کے لیے تین رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی۔ مولانا سیالکوٹی اس کمیٹی کے رکن تھے۔ دوسرے دو ارکان مولانا عبد العزیز رحیم آبادی اور مولانا ثناء اللہ امرتسری تھے۔ مولانا مرحوم نے درس و تدریس، تصنیف و تالیف، دعوت و مناظرہ، وعظ و تذکیر غرض ہر محاذ پر کام کیا اور شہرت کی بلندیوں کو پہنچے۔ ملکی سیاست میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ چنانچہ مولانا کی تمام ہمدردیاں مسلم لیگ سے وابستہ تھیں۔ 1930ء میں مسلم لیگ کا اجلاس جو آلہ آباد میں ہوا، مولانا اس میں شریک تھے۔ 1940ء میں اجلاس جس میں قرارداد پاکستان پاس ہوئی اس میں بھی مولانا موجود تھے۔ غرض تحریک پاکستان کی حمایت اور مسلم لیگ کی رفاقت میں مولانا سیالکوٹی کی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ اور مولانا سیالکوٹی کا شمار بانی پاکستان محمد علی جناح کے رفقا میں ہوتا ہے۔ 1945ء میں جمیعت علمائے اسلام کے نام سے ایک جماعت قائم ہوئی۔ مولانا شبیر احمد عثمانی اس کے صدر تھے اور مولانا سیالکوٹی نائب صدر تھے۔ اس کا پہلا اجلاس کلکتہ میں ہوا۔ مولانا عثمانی علالت کی وجہ سے شریک نہ ہو سکے، چنانچہ اجلاس کی صدارت مولانا سیالکوٹی نے کی۔[4]

الھادی[ترمیم]

”الھادی“ کے نام سے مولانا نے پندرہ روزہ علمی مجلّہ جاری کیا جو ایک عرصہ تک علمی، دینی اور تحقیقی خدمات دیتا رہا۔ مولانا اسحاق بھٹی لکھتے ہیں کہ مولانا سیالکوٹی ایک کثیر المطالعہ عالم دین تھے۔ تفسیر، حدیث، فقہ، اصول حدیث، تاریخ و تذکرہ، فلسفہ، منطق اور تقابلِ ادیان وغیرہ علوم سے متعلق ان کی معلومات کی دائرہ بہت وسیع ہے۔[4]

تصانیف[ترمیم]

مولانا سیالکوٹی کی تصنیفی خدمات بھی قابل رشک ہیں۔ مولانا نے بیس سے زیادہ کتابیں لکھی ہیں، جن کی فہرست حسب ذیل ہے۔[4]

  1. واضح البیان،
  2. سیرتِ مصطفیٰ،
  3. تائید قرآن،
  4. تعلیم القرآن،
  5. تاریخ اہل حدیث،
  6. تاریخ نبوی،
  7. اصلاح عرب،
  8. تبصیر القرآن فی تفسیر القرآن(پارہ اول تاسوم)،
  9. تفسیر سورۃ کہف،
  10. عصمت النبی،
  11. بشارتِ محمدیہ،
  12. علم الوصول الی اسرار الرسول،
  13. سراجاً منیرا،
  14. فرقہ ناجیہ،
  15. خلافتِ راشدہ،
  16. اعجاز القرآن،
  17. البخر الصحیح عن قبر المسیح،
  18. آئینہ قادیانی،
  19. فیصلہ ربانی برمرگِ قادیانی،
  20. رحلتِ قادیانی،
  21. انارۃ المصابیح،
  22. زاد المتقین
  23. شہادت القرآن(1959)

وفات[ترمیم]

مولانا سیالکوٹی نے 12 جنوری 1956ء میں وفات پائی۔ نمازِ جنازہ حافظ عبداللہ محدث روپڑی نے پڑھائی اور سیالکوٹ میں دفن ہوئے۔[1][2]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ^ ا ب پ "Allamah Muhammad Ibrahim Mir Sialkoti" 
  2. ^ ا ب پ "برصغیر پاک و ہند میں علمِ حدیث اور علمائے اہل حدیث کی مساعی" [مردہ ربط]
  3. "مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی رحمہ اللہ اور تحریکِ پاکستان"۔ 16 نومبر 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  4. ^ ا ب پ ت ٹ ث ج 40 Ahl-e Hadith Scholars from the Indian Subcontinent (بزبان انگریزی)۔ Independently Published۔ 2019-07-18۔ صفحہ: 224 تا 250۔ ISBN 978-1-0810-0895-6 
  5. Role of Ahl-i Hadith scholar in Tehreek-e-Pakistan page 391