سعدیہ کھتری

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
سعدیہ کھتری
سعدیہ کھتری
معلومات شخصیت
قومیت پاکستان
عملی زندگی
پیشہ مصنف، فوٹوگرافر، فلمی تنقید نگار، صحافی، فیمنسٹ
کارہائے نمایاں صحافی ڈان (اخبار)، ڈھابہ گرلز کی بانی

سعدیہ کھتری کراچی میں مقیم ایک پاکستانی مصنف، فوٹو گرافر اور نسائی ماہر(فیمنسٹ) ہیں۔ انھوں نے ڈان (اخبار) اور کٹھمنڈو پوسٹ میں بطور صحافی کام کیا اور پیپر کٹس میگزین کے ساتھ بطور رپورٹر اور ایڈیٹر کام کیا۔ کھتری ڈھابہ گرلز جو لڑکیوں کی تنظیم ہے، کے بانیوں میں سے ایک ہیں۔[1]

ابتدائی زندگی اور تعلیم[ترمیم]

سعدیہ کھتری نے ماؤنٹ ہولیوک کالج سے گریجویشن کی۔ انھوں نے ابتدا میں فلکیات اور طبیعیات کو بنیادی مضامین کے طور پہ پڑھا اور بعد ازاں صحافت اور میڈیا اسٹڈیز کو بھی شامل کر لیا۔[2]

عملی زندگی[ترمیم]

امریکا جانے سے پہلے، کھتری نے شوق کے طور پر فوٹو گرافی کی۔ فن اور فوٹو گرافی میں ان کی دلچسپی کراچی کے آرٹ اور ثقافت کے منظر کی مہم جوئی شروع ہوئی۔ وہ اکثر اپنی بہن، فضہ کھتری کے ساتھ محافل موسیقی، ادبی لیکچرز اور کمیونٹی آرٹ شوز میں شرکت کرتی تھیں، جو ماؤنٹ ہولیوک کالج میں پڑھتی تھیں۔ امریکی بلاگ " ہیومن آف نیویارک" کی طرح، کھتری نے بھی امریکا میں اپنے کالج سے فارغ التحصیل ہونے والے دور میں " پایئینیر ویلی کے انسان" کے موضوع پر بلاگ لکھا۔[3]

2011ء میں، کھتری نے ان بچوں کی تصاویر کھینچی جو اپنا زیادہ تر وقت کراچی کے تجارتی علاقوں میں سڑک کے کنارے گزارتے ہیں۔ یہ تصاویر کراچی میں ایک نمائش میں آویزاں کی گئیں۔ ہر تصویر کے نیچے، اسی اسٹریٹ چائلڈ کی طرف سے ایک حوالہ دیا گیا تھا تاکہ وہ اپنے الفاظ کے ذریعہ زندگی کے بارے میں اپنے نظریات کو بیان کرسکے۔ حال ہی میں ان کے لکھے گئے سوانح عمری مضمون "خوف اور شہر" کو "زینت ہارون راشد تحریری انعام برائے خواتین" میں خصوصی طور پہ سراہا گیا۔ اس مضمون میں کھتری نے اپنے آبائی شہر کراچی میں عوامی مقامات پر سفر اور جدوجہد کے ذریعے اپنی آزادی کا بیان کیا ہے۔[4][5][6]

سعدیہ ایک مصنف، فوٹو گرافر اور نسائی ماہر(فیمنسٹ) ہیں۔ انھوں نے ڈان (اخبار) [7] اور کٹھمنڈو پوسٹ میں بطور صحافی کام کیا اور پیپر کٹس میگزین کے ساتھ بطور رپورٹر اور ایڈیٹر کام کیا۔ سعدیہ ایک فلمی تنقید نگار [8] بھی ہیں۔ انھیں ایک کہانی کی مصنفہ کے طور پہ سلام ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔[9]

فیمینزم[ترمیم]

ڈھابہ گرلز

سعدیہ، لڑکیوں کی تنظیم ڈھابہ گرلز کے بانیوں میں سے ایک ہیں۔[10][11] سعدیہ کی سماجی فعالیت پسندی کے باعث عام طور پر جنوب ایشیائی خواتین اور خاص طور پر پاکستانی خواتین کو عوامی مقامات تک رسائی حاصل کرنے میں مدد ملی ہے۔ اس تنظیم کا آغاز تب ہوا جب متوسط اور اعلیٰ طبقے کی خواتین نے محسوس کیا کہ عوامی مقامات خواتین کے لیے محفوظ نہیں اور خواتین بغیر کسی وجہ کے اکیلے گھر سے باہر نہیں جا سکتی ہیں۔ اس سے سعدیہ کو گھر میں، نجی جگہوں پر ہونے والے تشدد کے بارے میں سوچنا پڑا، جو سڑکوں پر ہونے والے تشدد سے کہیں زیادہ تھا۔ سعدیہ نے اس مؤقف کو یوں سمجھایا کہ خواتین کو عوامی مقامات تک رسائی دینے سے ہی ان کے خلاف استحصال میں کمی لائی جا سکتی ہے۔

عورت مارچ

ڈھابہ گرلزکی مدد سے سعدیہ کھتری نے عورت مارچ کے انعقاد میں حصہ لیا۔[12][13][14]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. "Meet Sadia Khatri: Karachis Chai Rebel"۔ Daily Times۔ 12 اکتوبر 2017 
  2. Naila Inayat۔ "Women in Pakistan just want to have fun -- like the men"۔ USA TODAY (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 جنوری 2020 
  3. ContributorOnline Marketplace for College Life Uloop (13 دسمبر 2012)۔ "Sadia Khatri: Photographer Behind 'Humans of Pioneer Valley'"۔ HuffPost (بزبان انگریزی) 
  4. "NEWS AND RESULTS 2019"۔ ZHR WRITING PRIZE (بزبان انگریزی) 
  5. "Zeenat Haroon Writing Prize for Women announces the winner of the competition"۔ Daily Times۔ 17 دسمبر 2019 
  6. "2019 AWARD CEREMONY"۔ ZHR WRITING PRIZE (بزبان انگریزی) 
  7. "News stories for Sadia Khatri – DAWN.COM"۔ www.dawn.com (بزبان انگریزی) 
  8. Hera Mannan (24 جولائی 2019)۔ "Pakistani Activist Gets Selected for Switzerland's Film Festival!"۔ Brandsynario 
  9. "Winning Story of 2019"۔ The Salam Award 
  10. Sameera Khan (26 مارچ 2019)۔ "On Pakistan's marching women"۔ The Hindu (بزبان انگریزی) 
  11. "Aurat مارچ 2018 — the rise of sisterhood"۔ The Express Tribune (بزبان انگریزی)۔ 8 مارچ 2018 
  12. "Global Voices – Aurat مارچ (Woman مارچ) Marks Resistance Against Misogyny in Pakistan"۔ Global Voices (بزبان انگریزی)۔ 11 مارچ 2018  [مردہ ربط]
  13. "In pictures: Aurat مارچ brings together new sisterhood clan"۔ www.thenews.com.pk (بزبان انگریزی) 
  14. "The 'womanspreading' placard that caused fury in Pakistan"۔ BBC News۔ 5 اپریل 2019