فرخی سیستانی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

ابو الحسن علی ابن جولوغ سیستانی ، جنھیں فرخی سیستانی کہا جاتا ہے ، پانچویں قمری صدی کے مشہور فارسی شاعروں میں سے ایک ہیں جو خراسانی انداز سبک خراسانی(فارسی شاعری کا ایک خاص اسلوب کا نام) میں لکھتے ہیں ۔ ان کے قصائد بادشاہوں کی تعریف کرنے اور سلطان کو انصاف اور معافی کی ترغیب دینے کے لیے مخصوص ہیں۔ شاعری اور ادب پر عبور حاصل کرنے کے علاوہ ، وہ موسیقی میں بھی مہارت رکھتے تھے اور اسی کے ذریعہ انھوں نے ابو مظفر شاہ چاغیان  اور پھر غزنی کے سلطان محمود کے دربار میں رسائ حاصل کی  اور ایک اعلی مقام حاصل کیا۔ فرخی کو ایران کے سب سے اچھے شاعروں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے ، لہذا یہ کہا جاتا ہے کہ ابو فارس ہمدانی کی شاعری مخصوص عربی میں اور فرخی کی شاعری مخصوص فارسی میں  سہل ممتنع ہے۔ سہل ممتنع (آسان نما مشکل گوئ) ایک ایسا کلام ہے جو تحریر کرنا آسان لگتا ہے ، لیکن کہنا مشکل ہے۔

فرخی ہر طرح کے جذبات کے اظہار میں جس سے اپنے عاشق سے تمسک کرتا ہے ،مہارت رکھتا ہے ۔ شاعر کے شوخی اور اپنے مداحوں سے طنز بھی ان کی تخلیقات کو رونق بخشتا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ فرخی شاعری کے علاوہ اچھی آواز کے بھی مالک تھے اور بربط بجانے میں مہارت رکھتے تھے فرخی کا دیوان چند ہزار اشعار پر مشتمل ہے جو قصیدہ، غزل ،قطعہ ،رباعی، ترکیب بند اور ترجیع بند کی ہیئت میں کہے گئے ہیں۔

چونکہ فرخی کے زیادہ تر قصائد غزنویوں کے دربارسے وابستگی کے دوران لکھے گئے ، لہذا اس میں بہت تعریف اور ستائش موجود ہے۔ تاہم ، فرخی کی نظموں میں ، ایسے اشعار بھی ہیں جن میں اخلاقی نکات ہیں۔

فرخی کا انتقال 429 ہجری میں غزنی میں جوان العمری میں ہوا۔

نمونہِ کلام[ترمیم]

فرخی سیستانی

تا با تو به صلح گشتم ای مایه‌ی جنگ

گردد دل من همی ز بت رویان، تنگ

نشکفت که از ستارگان دارم ننگ

امروز که آفتاب دارم در چنگ

(ترجمه)

اے وہ (معشوق) جس کے سبب فتنے اٹھتے ہیں اگر تمھارا ساتھ نبھاؤں تو میرا دل دوسرے حسینوں کے غمِ یاد میں تنگ ہونے لگتا ہے۔

یہ حیرت انگیز بات نہیں کہ ستاروں سے مجھے ننگ آتا ہے کیونکہ آج میرے چنگل میں سورج ہے۔

فرخی سیستانی

یا ما سر خصم را بکوبیم به سنگ

یا او سرما به دار سازد آونگ

القصه درین زمانه پر نیرنگ

یک کشته بنام به که صد زنده به ننگ

(ترجمه)

پتھر سے یا تو ہم دشمن کے سر توڑ دیں گے یا وہ ہمارے سر کو دار پہ لٹکا دے گا۔

مختصر بات یہ ہے کہ اس ہر پل بدلتی دنیا میں مشہور شہید ہونا، سو بدنام زندگی سے بہتر ہے۔

فرخی سیستانی

ای گلبن نو رسیده در باغ بهار

گلهای ترا ز بیم خار بسیار

زین کار که با تو کردم اندیشه مدار

ایمن کردم گل ترا از غم خار

(ترجمه)

اے باغِ بہار میں اُگے نئے پھول، تیرے گلوں کو ہمیشہ کانٹوں سے خطرہ ہوگا۔

اب یہ جو تیرے ساتھ میں نے کیا اس پہ آزردہ مت ہونا کیونکہ میں نے تیرے پھول کو کانٹے( کی اذیت) سے محفوظ کر دیا ہے۔

فرخی سیستانی

تا در طلب دوست همی بشتابم

عمرم به کران رسید و من در خوابم

گیرم که وصال دوست در خواهم یافت

این عمرگذشته راکجا دریابم

(ترجمه)

محبوب کی چاہت میں پوری زندگی دوڑتا رہا۔ زندگی آخرکار انجام کو پہنچ گئی اور میں اب بھی محوِ خواب ہوں۔

میں یہ سوچتا رہا کہ محبوب کا وصال (کبھی نہ کبھی) ہوکے رہے گا (اور ہوا بھی) لیکن ہاتھ سے نکل جانے والی زندگی کہاں سے لاؤں؟

فرخی سیستانی

گویند که معشوق تو زشتست و سیاه

گر زشت و سیاهست مرا نیست گناه

من عاشقم و دلم بر او گشته تباه

عاشق نبود ز عیب معشوق آگاه

(ترجمه)

لوگ کہتے ہیں کہ تمھارا معشوق نہایت بدصورت اور کالا ہے۔ اگر ایسا ہو بھی تو میرا کیا گناہ ہے؟

میں تو (محض) عاشق ہوں اور میرا دل اس کے پیچھے برباد ہے۔ عاشق کبھی بھی اپنے معشوق کے عیوب سے آگاہ نہیں ہوتا۔

اردو ترجمہ از : علی اصغر الحیدری

حوالہ جات[ترمیم]

http://ganjoor.net/farrokhi/ گنجور