احمد رسمی آفندی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
احمد رسمی آفندی
تفصیل=
تفصیل=

ویانا میں عثمانی سفیر
مدت منصب
1757[1] – 1758[1]
برلن میں عثمانی سفیر
مدت منصب
1763[1] – 1764[1]
روس میں عثمانی سفیر
مدت منصب
1768 – 1774
عثمانی مذاکراتی افسر ِاعلیٰ معاہدۂ کوچک کنارہ[1]
مدت منصب
1774 – 1774
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1694ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ریتھیمنو   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 1783ء (88–89 سال)[2][3]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
قسطنطنیہ   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن قبرستان قراجہ احمد   ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ سفارت کار ،  مورخ ،  مصنف   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عثمانی ترکی [4]،  یونانی زبان   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

احمد رسمی آفندی ، جسے کچھ عربی ذرائع احمد بن ابراہیم کریتی ("احمد ولد ابراہیم جزیرۃ کریٹ کا باشندہ") بھی کہتے ہیں ، نسلی طور پر یونانی نژاد ، [5] عثمانی سفارتکار ، سیاستدان اور مصنف تھا۔ 18 ویں صدی کے آواخر میں بین الاقوامی تعلقات کے طور پر ، ان کا سب سے اہم - اور بدقسمت - کام مذاکرات کے دوران عثمانی وفد کے افسرِ اعلیٰ کی حیثیت سے معاہدۂ کوچک کناری پر دستخط کرنا تھا۔ [1] ادبی دنیا میں ، انھیں مختلف کاموں کی وجہ یاد کیا جاتا ہے جن میں ان کے برلن اور ویانا میں کے سفارت نامے کو ایک نمایاں مقام حاصل ہے۔ وہ برلن میں سلطنت عثمانیہ کے پہلے سفیر تھے۔

ابتدائی زندگی[ترمیم]

احمد رسمی یونانی نژاد خاندان [5] [6] [7] [8] جو جزیرہ کریٹ کے قصبے ریتھمینو ( سلطنت عثمانیہ میں 1700سنہ کے دوران رسمو کے نام سے جانا جاتا تھا) میں پیدا ہوئے۔ محمد مرادی کے بقول ، ان کی ابتدائی زندگی کے بارے میں بہت کم معلومات دستیاب ہیں ، احمد رسمی تقریبا چالیس سال کی عمر میں سن 1734 میں استنبول پہنچے۔ زیادہ تر ذرائع اسے خطاطی اور خطوطی کے فنون میں ماہر قرار دیتے ہیں۔ عثمانی بیوروکریسی کے ذریعہ ابھرتے ہوئے ، اس نے اپنے آپ کو اصلاح پسندوں کے گروہ سے جوڑ لیا ، جس نے 18 ویں صدی میں یورپ کے ساتھ عثمانیوں کے سفارتی تعلقات کو تبدیل کیا اور استنبول میں پہلی دفعہ نجی ذاتی لائبریریاں قائم کیں۔

جب اس کے سسر اور پہلے سرپرست مصطفیٰ تووکچوباشی (سفارت کار اور وزیر اعظم کوجا محمد رجب پاشا کی کابینہ میں شامل اہم شخصیات میں سے ایک )کا سن 1749 میں انتقال ہو گیا تو احمد رسمی نے اپنا پہلا ادبی کام لکھنا شروع کیا یعنی عثمانی کواتب اعلیٰ(کاتب اعلیٰ کا واحد) کے ضمیمہ جات کی تالیف "سفینت الرؤسا"۔ "استثناس فی احوال الافراص" ۔ان کی یہ ادبی تحریریں وزیرِاعظم کوسے باهر مصطفی ٰپاشا سے ان کے تعارف کا ذریعہ بنیں ۔

احمد رسمی کو 1757 کے آخر میں ویانا کے سفارت خانے میں تعینات کیا گیا تھا تاکہ وہ مصطفی ثالث کی تخت نشینی کا اعلان کریں ۔ سن 1749 میں ، اس نے محل کے کالے خواجہ سراؤں (کیزرلر آغالاری) کی فہرست "حاملاتِ الکبیرہ" بھی مرتب کی۔

ویانا میں سفارت خانہ کے بعد برلن میں فریڈرک دوم کے دربار میں پہلے عثمانی سفارتخانے میں 1763/1764 تک تعیناتی رہی۔ دونوں سفارتخانوں کی ملازمت سے فراغت کے بعد ، احمد رسمی نے اپنی تعیناتیوں کے دوران کے جغرافیہ اور درباری سیاست کے بارے میں تفصیلی رپورٹ پیش کی۔ برلن کے سفارت خانے کے معاملے میں ، اس نے صرف سفارتی کاموں کے بارے میں نہیں لکھا بلکہ فریڈرک کی خاکہ کشی اور سات سالہ جنگ کی تفصیل بھی لکھی۔ ان کے اس مشاہدے نے سلطنت عثمانیہ کے لیے یورپی سیاست کا مطالعہ کرنے کی اہمیت اجاگر کی۔

9 نومبر 1763 کو احمد رسمی آفندی کی برلن آمد۔

برلن سے واپسی کے بعد ، وہ وزیر اعظم کا افسرِ اعلیٰ برائے خط کتابت( مکتوب چو) مقرر ہوا۔ سن 1765 میں ، وہ چیف سارجنٹ ( چاوش باشی ) بن گیا اور محسن زادہ محمد پاشا کے ساتھ اس کے طویل تعلقات کا آغاز ہو گیا ، جو دو بار وزیر اعظم مقرر ہوا تھا۔ اعلی ٰعہدوں پر ان کی دیگر تقرریوں میں وزیر اعظم مولدوانلی علی پاشا کے نائب ( صدارت کتھوداسی ) کی حیثیت سے 1769 میں مختصر تقرری بھی شامل ہے جبکہ وزیر اعظم بلغاریہ کے محاذ پر تھے۔ انھوں نے اس عہدے سے ایک بار پھر محسن زادہ محمود پاشا کے ساتھ 1771 سے لے کر روس ترکی جنگ ، 1768-1774 کے اختتام پر وزیر اعظم کی وفات تک خدمات انجام دیں۔ احمد رسمی میدان جنگ میں جنگی مشاورتی اجلاسوں میں موجود ہوتے تھے اور زخمی فوجیوں کے لیے اپنی فیاضی کی وجہ سے مشہور تھے۔

اگرچہ مذکورہ بالا تینوں عہدوں کو وزیر اعظم کے دفتر تک پہنچنے کے لیے سنگ میل کی حیثیت حاصل تھی، لیکن وہ کبھی یہ عہدہ نہ حاصل کرسکے۔ امکان ہے کہ احمد رسمی کی عثمانی فوجی تنظیم کی حالت پر باقاعدہ اور سخت تنقید نے واقعات کو اس سمت موڑنے میں اہم کردار ادا کیا۔

احمد رسمی نے 1774 میں کوچک کناری امن مذاکرات میں مختار کل کا کردار ادا کیا اور اس کے نتیجے میں ہونے والے معاہدے پر دستخط کیے۔ وہ 1775 کے بعد کچھ وقت کے لیے عمداً منظر نامے سے غائب رہے۔ احمد رسمی کو،شاید کریمیا اور تاتاریوں کے مستقبل کے بارے میں روس کے ساتھ مشکل مذاکرات کے دوران ان کی مسلسل پسِ پردہ خدمات کے اعتراف میں، آخری بار وزیر اعظم خلیل حامد پاشا کے ماتحت شاہی محکمہ سواری ( سواری مقابلہ جہ سی ) کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا ۔ احمد رسمی ،کریمیا کو کیتھرین ثانی کے حوالے کرنے کے معاہدے عینالی کاواک کنونشن پر دستخط سے کچھ عرصہ قبل اگست 1783 میں وفات پاگئے۔(معاہدے پر 1784 کے اوائل میں دستخط ہوئے تھے۔) ان کی خاندانی زندگی کے بارے میں آج تک کوئی اور معلومات نہیں ملی۔

رسمو (ریتھمونو) میں ترک مکانات جہاں احمد رسمی آفندی پیدا ہوئے تھے اور انھوں نے اپنی زندگی کے ابتدائی چالیس سال گزارے تھے۔

ادبی کام[ترمیم]

  • حاملاتُ الکُبراء (1749): محمد آغا (1574–1590) سے لے کر موریا کے بشیر آغا ( دوسرا ہمنام خواجہ سرا ، جس نے 1746 اور 1752 کے درمیان خدمات انجام دیں) تک کے کالے خواجہ سراؤں کے سربراہان (قیزلر آغا) کی فہرست کوجہ محمد راغب پاشا کو پیش کی۔ اس میں اڑتیس خواجہ سراؤں کی سوانح حیات شامل تھیں جس میں ان کی اصلیت اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں پر روشنی ڈالی گئی ۔ آخری حصے میں مورالی بشیر آغا کے زوال اور پھانسی کی تاریخ کی نشان دہی کی گئی ہے اور ان واقعات کی وضاحت کے طور پر زیادہ سے زیادہ جواز مہیا کیا گیا ہے۔
  • خلاصۃ الاعتبار(1781): روس-ترکی جنگ ، 1768-1774 کی تنقیدی اور طنزیہ تاریخ۔ احمد رسمی میدان جنگ میں تھے اور ینی چری کی ناکامیوں سے اچھی طرح واقف تھے۔ تحریر قابل فہم، اشتعال انگیز ، کبھی کبھی مزاحیہ ، لیکن ہمدردانہ اور آتشیں ہے۔
  • لایہا: سن 1769 میں فوجی صدر دفتر(ملٹری ہیڈکوارٹر) کی تنظیم نو کی ضرورت کے حوالے سے وزیر اعظم خلیل پاشا کو ایک یادداشت پیش کی گئی۔
  • لایہا: عارضی صلح اور1768-1774 کی جنگ کے خاتمے کے لیے مذاکرات کے دوران محاذِ جنگ پر مرکزی مذاکرات کار محسن زاده محمد پاشا اور عبد الرزاق آفندی کو روس کے بارے میں ایک سیاسی یادداشت پیش کی ۔ احمد رسمی نے یہ لایہا اس لیے پیش کیا کیونکہ عثمانیوں نے روسیوں کے ساتھ 1772 سے 1773 کے درمیان ناکام مذاکرات کیے ، جس میں اس نے امن پر زور دیا ،اس نے کہا روسی بری طرح دبے ہوئے ہیں اور یہ کہ دونوں فریقوں کو اپنی فوجی اور علاقائی حدود کو تسلیم کرنا چاہیے۔ عثمانی مذاکرات میں ایسی زبان کو ایک ناول کی سی حیثیت حاصل رہی ۔ اس آخری تحریر اور خلاصۃ الاعتبار میں احمد رسمی کا نظریہ ان کے سفارت کاری میں توازنِ قوت کے اس فہم کی نشان دہی کرتا ہے جو انھوں نے ویانا اور برلن کے درباروں میں مشاہدہ کیا۔
  • سفارت نامۂ احمد رسمی یا سفارت نامہ پروشیا : احمد رسمی کیبرلن سفارت کا احوال جس میں 1763-1764ء کا دفتری روزنامچہ بھی شامل ہے، دورانِ سفارت جن شہروں سے واسطہ پڑا ان کی عکس نگاری کے ساتھ ساتھ فریڈرک اعظم سے سرکاری ملاقاتوں کا بھی احوال بھی اس میں شامل ہے۔ فریڈرک کے عروج پر ، اس کی طرز حکمرانی پر اور اس کے وسائل کے استعمال میں حدسے زیادہ بخل کو بھی اس میں بیان کیا گیا ہے ۔ یہ اور ویانا سفارت نامہ دونوں کی ہی متعدد بار ترمیم اور نقل کی جاچکی ہیں،مزید براں انگریزی اور ترکی زبان میں ان پر تفصیلی بحث کی گئی ہے۔
  • سفینت الرؤسا یا خلافت الرؤسا: یہ عثمانی ریئس الکواتب کی واحد سوانحی تالیف جو سن 1744 کے قریب احمد رسمی نے شروع کی اور سلیمان فائق کے دور میں 1804 تک جاری رہی۔
  • سفارت نامہ ویانا: 1757-1758 میں ویانا میں احمد رسمی کی سفارت کا احوال، ان کی واپسی کے فوراً بعد طبع کیا گیا۔

جوزف وان ہیمر نے سن 1809 میں ویانا اور برلن کے سفارت ناموں کا جرمن زبان میں ترجمہ کیا ہے۔

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ^ ا ب پ ت ٹ ث Uyar, Mesut، Erickson, Edward J. (2009)۔ A military history of the Ottomans: from Osman to Atatürk۔ ABC-CLIO۔ صفحہ: 116۔ ISBN 978-0-275-98876-0۔ Ahmed Resmi Efendi (1700–1783) was an early example of this new generation. After classical scribal training Ahmed Resmi served as ambassador to Vienna (1757–1758) and Berlin (1763–1764). Additionally, he performed important administrative duties at the front during the disastrous Ottoman-Russian was of 1768-1774, and he was the chief Ottoman negotiator of the Kucuk-Kaynarca peace treaty. Thanks to this unique combination of experiences he witnessed the direct results of the empire’s structural problems and was familiar with its military deficiencies. 
  2. جی این ڈی آئی ڈی: https://d-nb.info/gnd/118647407 — اخذ شدہ بتاریخ: 17 اکتوبر 2015 — اجازت نامہ: CC0
  3. http://data.bnf.fr/ark:/12148/cb14489976z — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
  4. http://data.bnf.fr/ark:/12148/cb14489976z — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
  5. ^ ا ب پ Houtsma, Martinus T. (1987)۔ E. J. Brill's first encyclopaedia of Islam: 1913 - 1936, Volume 6۔ Brill۔ صفحہ: 1145۔ ISBN 90-04-08265-4۔ RESMI, AHMAD Ottoman statesman and historian. Ahmad b. Ibrahim, known as Resmi, belonged to Rethymo (turk. Resmo; hence his epithet) in Crete and was of Greek descent (cf. J. v. Hammer, GOR, viii. 202). He was born in 1113 (1700) and came in 1146 (1733) to Stambul where he was educated, married a daughter of the Ke is Efendi 
  6. Müller-Bahlke, Thomas J. (2003)۔ Zeichen und Wunder: Geheimnisse des Schriftenschranks in der Kunst- und Naturalienkammer der Franckeschen Stiftungen : kulturhistorische und philologische Untersuchungen۔ Franckesche Stiftungen۔ صفحہ: 58۔ ISBN 978-3-931479-46-6۔ Ahmed Resmi Efendi (1700–1783). Der osmanische Staatsmann und Geschichtsschreiber griechischer Herkunft. Translation "Ahmed Resmi Efendi (1700–1783). The Ottoman statesman and historian of Greek origin" 
  7. European studies review (1977)۔ European studies review, Volumes 7-8۔ Sage Publications۔ صفحہ: 170۔ Resmi Ahmad (-83) was originally of Greek descent. He entered Ottoman service in 1733 and after holding a number of posts in local administration, was sent on missions to Vienna (1758) and Berlin (1763-4). He later held a number of important offices in central government. In addition, Resmi Ahmad was a contemporary historian of some distinction. 
  8. Hamilton Alexander Rosskeen Gibb (1954)۔ Encyclopedia of Islam۔ Brill۔ صفحہ: 294۔ ISBN 90-04-16121-X۔ Ahmad b. Ibrahim, known as Resmi came from Rethymno (Turk. Resmo; hence his epithet?) in Crete and was of Greek descent (cf. Hammer- Purgstall, viii, 202). He was born in 1112/ 1700 and came in 1 146/1733 to Istanbul,