ایاس بن معاویہ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
ایاس بن معاویہ
معلومات شخصیت

ایاس بن معاویہؒ جلیل القدر تابعی تھے۔

نام ونسب[ترمیم]

ایاس نام،ابو واثلہ کنیت،نسب نامہ یہ ہے، ایاس بن معاویہ بن قرہ بن ایاس بن ہلال بن رئاب بن عبید بن سواۃ بن ساریہ بن ذبیان بن ثعلبہ بن سلیم بن اوس بن فرینہ مزنی۔

فضل وکمال[ترمیم]

ایاس اس عہد کے مشہور قضاۃ میں تھے۔

حدیث[ترمیم]

حدیث میں ان کا کوئی قابل ذکر پایہ نہ تھا،تاہم اس سے بالکل تہی دامن بھی نہ تھے ابن سعد لکھتے ہیں کہ، احادیث [1] میں انھوں نے اپنے والد معاویہ،انس بن مالکؓ ،سعید بن مسیب،سعید بن جبیر اورابی مجلز وغیرہ سے خوشہ چینی کی تھی اور ایوب،داؤد بن ابی ہند حمید الطویل،حماد،شعبان،شعبہ اورمعاویہ بن عبد الکریم وغیرہ ان کے تلامذہ میں ہیں۔ [2]

فقہ[ترمیم]

فقہ ان کا خاص فن تھا،اس میں وہ امتیازی درجہ رکھتے تھے،عجلی اُن کو فقیہ لکھتے ہیں ۔ [3]

عہدۂ قضا[ترمیم]

اپنے فقہی کمال کی وجہ سے وہ اموی دور میں بصرہ کے عہدہ قضا پر مامور ہوئے،ان کے تقرر کے وقت حضرت حسن بصریؒ ان کے پاس تشریف لے گئے، انھیں دیکھ کر ایاس رونے لگے ۔ [4]

فہم وفراست[ترمیم]

ایاس کو فہم و فراست سے غیر معمولی حصہ ملا تھا اوروہ عقل وہ دانش کا پیکر تھے،ابن سعد لکھتے ہیں ، کان عاقلا من الرجال فطنا (ایضا)ابن سیرین کے سامنے جب ان کا ذکر آتا تو کہتے تھے،وہ مجسم فہم ہیں [5]ان کے عہد کے لوگ کہتے تھے کہ ہر صدی میں ایک بڑا عاقل پیدا ہوتا ہے اور اس صدی کے عاقل ایاس ہیں [6] ابن عماد حنبلی لکھتے ہیں کہ ان کی ذکاوت اورفطانت ضرب المثل تھی،ابوتمام کا ایک شعر ہے۔ [7] اقدام عمر وفی شجاعۃ غنترفی حلم احنف فی ذکاء ایاس

ذہانت وذکاوت کے بعض واقعات[ترمیم]

قضا میں مہارت بڑی حد تک ذہانت اورذکاوت پر منحصر ہے،اس لیے ایاس اس عہد کے ممتاز ترین قضاۃ میں تھے،اس موقع پر ان کی ذہانت کے بعض واقعات نقل کیے جاتے ہیں۔ ایک شخص نے ایک شخص کے پاس کچھ مال امانت رکھوایا تھا،جب اُس نے واپس مانگا تو امانت دار نے انکار کر دیا، مال کے مالک نے ایاس کی عدالت میں دعوی کیا ،انھوں نے کہا اس وقت لوٹ جاؤ اس واقعہ کو پوشیدہ رکھنا، اس شخص کو یہ نہ معلوم ہونے پائے کہ تم میرے پاس آئے تھے، دودن کے بعد پھر آنا، اس کو لوٹا کر ایاس نے امانت دار کو بلوایااور اس سے کہا کہ میرے پاس بہت سا مال آگیا ہے میں اس کو تمھارے پاس رکھوانا چاہتا ہوں تمھارا گھر محفوظ ہے،اس نے کہا ہاں ،ایاس نے کہا تو مال رکھنے کے لیے کوئی جگہ منتخب کرلو،اوردو بار بردار لے کر آؤ،اس گفتگو کے بعد ایاس نے مال کے مالک کو بلواکر کہا کہ اب جاکر تم اس شخص سے اپنا مال مانگو، اگر دے دے تو فبہا ورنہ اس سے کہنا کہ میں جاکر قاضی کو اطلاع دے دوں گا، اس شخص نے جاکر کہا کہ میرا مال دو، ورنہ میں قاضی کو جاکر اطلاع دیتا ہوں، یہ سن کر اس نے کل روپیہ واپس کر دیا اورصاحب مال نے آکر قاضی ایاس کو اطلاع دے دی کہ میرا مال مجھ کو مل گیا اس کے بعد سابق قرارداد کے مطابق وہ شخص ایاس کے پاس روپے لینے کے لیے آیا، انھوں نے اس کو ڈانٹ کر نکال دیا۔ [8]

قضاۃ سے واقفیت[ترمیم]

کسی شعبہ اورصنف کے اشخاص کا اس شعبہ کے متعلق ایک کمال یہ بھی ہے کہ وہ اپنے ہم پیشہ اشخاص کی خصوصیات پر پوری نظر رکھتے ہوں، ایاس اس عہد کے تمام مفتیوں اور قضاۃ کے محاسن معائب اورخصوصیات سے پورے طور سے واقف تھے،حبیب بن شہید کا بیان ہے کہ ایک شخص ایاس کے پاس ایک مقدمہ میں مشورہ کے لیے آیا کہ وہ اس میں کسی کی طرف رجوع کرے،انھوں نے کہا اگر تم اس کا صحیح فیصلہ چاہتے ہو تو عبد الملک بن یعلی کے پاس جاؤ، وہ صحیح معنوں میں قاضی ہیں اوراگر محض فتویٰ لینا ہے، تو حسن بصری کے پاس جاؤ، وہ میرے اور میرے باپ کے استاد ہیں اوراگر صلح مقصود ہے تو حمید الطویل کی طرف رجوع کرو وہ اس طریقہ سے صلح کرادیں گے کہ تم سے کہیں گے کہ تم اپنے حق کا کچھ حصہ لے لو اورکچھ چھوڑدو اوراگر مقدمہ بازی کرنا ہے تو صالح الدوسی کے پاس جاؤ،وہ تم کو رائے دیں گے کہ دوسرے کے حق سے بالکل انکار کردو، اپنے حق سے زیادہ کا مطالبہ کرو اورجو لوگ موجود نہیں ہیں ان کو گواہ بناؤ۔ [9]

صحت عقائد اورمبتد عین سے مناظرہ[ترمیم]

ایاس بایں ہمہ ذہانت عقائد میں جدت، اختراع اور موشگافیوں کو سخت ناپسند کرتے تھے اوران کی ذہانت اس کی تردید میں صرف ہوتی تھی،وہ مبتدعین خصوصا قدریوں سے مناظرہ کیا کرتے تھے،قدریہ کا عقیدہ ہے کہ خدا عادل ہے،یہاں تک تو بالکل صحیح ہے؛لیکن اس اصول کے نتیجہ میں وہ ان افعال کو بظاہر ظلم معلوم ہوتے ہیں،خدا کی جانب منسوب نہیں کرتے اوراس میں یہاں تک شدت برتتے ہیں کہ خدا کی قدرت مسلوب ہوجاتی ہے ایک مرتبہ ان میں اور قدریوں میں مناظرہ ہوا انھوں نے قدریہ سے پوچھا ظلم کسے کہتے ہیں،انھوں نے کہا کسی کا ایسی چیز کو لے لینا جو اس کی نہیں ہے،انھوں نے کہا کہ خدا کی تو تمام چیزیں ہیں،یعنی جب وہ تمام چیزوں کا مالک ہوا تو پھر اس کے کسی فعل پر ظلم کا اطلاق صحیح نہیں ہے۔ [10]

بعض اقوال[ترمیم]

ان کے بعض اقوال نہایت دلچسپ ہیں،کہتے تھے جس میں کوئی عیب نہیں و احمق ہے کسی نے پوچھا آپ میں کیا عیب ہے کہا فضول گوئی [11] کہتے تھے کہ میں نے انسان کی تمام فضیلتوں کو آزمایا ان سب میں اشرف زبان کی سچائی ہے۔ [12]

وفات[ترمیم]

122ھ میں وفات پائی۔ [13]


حوالہ جات[ترمیم]

  1. (ابن سعد،جلد7،ق2،ص5)
  2. (تہذیب :1/39)
  3. (ایضاً)
  4. (ابن سعد،جلد7،ق2،ص5)
  5. (تہذیب التہذیب :1/39)
  6. (تہذیب التہذیب:1/350)
  7. (شذرات الذہب :1/160)
  8. (الطرق الحکمیہ ابن قیم جوزی :25)
  9. (تہذیب التہذیب:1/390)
  10. (تہذیب التہذیب :1/391)
  11. (ابن سعد،جلد7،ق2،ص5)
  12. (تہذیب التہذیب :1/391)
  13. (ایضاً:390)