رجاء بن حيٰوة

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
رجاء بن حيٰوة
(عربی میں: رَجَاءُ بنُ حَيْوَةَ بنِ جَرْوَلٍ الكِنْدِيُّ ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 660ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بیت شیان   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تاریخ وفات سنہ 730ء (69–70 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
استاذ عبد اللہ بن عمرو بن العاص ،  معاویہ بن ابو سفیان ،  ابوسعید الخدری   ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تلمیذ خاص امام مکحول ،  ابن شہاب زہری   ویکی ڈیٹا پر (P802) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ فقیہ ،  خطاط   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مادری زبان عربی   ویکی ڈیٹا پر (P103) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل فقہ ،  علم حدیث   ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

رجاءبن حیوٰۃ ؒ مشہور تابعین میں سے ہیں۔آپ نے 112ھ میں وفات پائی ۔

نام ونسب[ترمیم]

رجاء نام، ابونصر کنیت، نسب نامہ یہ ہے،رجاء بن حیوٰۃ بن جرول بن احنف ابن سحط بن امرؤ قیس بن عمرو الکندی ارونی رجاء کے دادا جرول بھی صحابی رسول تھے۔

فضل وکمال[ترمیم]

فضل وکمال کے اعتبار سے رجاء شام کے اکابر علما میں تھے۔ علامہ ابن سعد لکھتے ہیں۔ کان ثقۃ عالما فاضلا کثیر العلم [1] علامہ نووی لکھتے ہیں ان کی جلالت اوران کی شخصی اور علمی فضیلت پر سب کا اتفاق ہے۔ [2]

حدیث[ترمیم]

وہ حدیث اور فقہ دونوں میں یکساں کمال رکھتے تھے،حافظ ذہبی انھیں امام اور شیخ اہل الشام لکھتے ہیں[3] مطرالوراق کہتے تھے کہ رجاء بن حیوٰۃ سے افضل شامی اور ان سے زیادہ روایات میں افقہ شخص سے نہیں ملا۔ [4] عبداللہ بن عمرؓو بن العاص، عدی بن عمیرہ، عبادہ بن صامتؓ، عبدالرحمن بن غنم، معاویہ بن ابی سفیان ، ابودرداء، ابوسعید خدریؓ، ابو امامہ، مسور بن مخزمہ، قبیصہ بن ذویب، ابوصالح السمان اور دراد کاتب وغیرہ سے سماعِ حدیث کیا تھا اور عدی بن عدی، ابن عجلان ، ثور بن یزید ابن عون، مطرالوراق، زہری، محمد بن حجادہ اور حمید الطویل وغیرہ آپ کے زمرہ تلامذہ میں ہیں۔ [5]

روایت میں الفاظ کی پابندی[ترمیم]

روایت حدیث میں محتاط تھے، حدیثوں کو الفاظ کی پابندی کے ساتھ روایت کرتے تھے۔ [6]

فقہ[ترمیم]

حدیث سے زیادہ فقہ میں ان کو دستگاہ تھی، مطرالوراق کہتے تھے کہ میں نے کسی شامی کو ان سے زیادہ فقیہ نہیں دیکھا[7] ابن حبان انھیں فقہائے شام میں لکھتے ہیں [8] ان کے تفقہ کی ایک سند یہ بھی ہے کہ وہ منصب قضاء پر ممتاز تھے۔ [9]

علما میں رجاء کا درجہ[ترمیم]

اپنے ہمعصر علما میں ممتاز درجہ رکھتے تھے،اس عہد کے تمام علما ان کے کمالات علمی کے معترف تھے، مکحول جو شام کے بڑے نامور عالم تھے، ان کو اپنا شیخ اپنا آقا اور سارے اہل شام کا سردار کہتے تھے۔ [10] ان کی موجود گی میں مکحول خود کسی مسئلہ کا جواب نہ دیتے تھے، موسیٰ بن یسار کا بیان ہے کہ ایک شخص نے مکحول سے مسجد میں کوئی مسئلہ پوچھا، انھوں نے اس سے کہا ہمارے شیخ اور ہمارے سردار رجاء بن حیوٰۃ سے پوچھو [11]ابن عون کہتے تھے کہ رجاء کا مثل شام میں نہیں دیکھا، ابن سیرین کا مثل عراق میں اور قاسم کی مثل حجاز میں نہیں دیکھا۔ [12]

زہد وعبادت[ترمیم]

اس علم کے ساتھ وہ بڑے عابد و زاہد تھے، ابن حبان لکھتے ہیں کہ وہ شام کے عبادت گزار اور زاہد لوگوں میں تھے،ان کے زہد وتقویٰ کی وجہ سے مسلمہ بن عبدالملک کہتا تھا کہ کندہ کے تین آدمیوں کے طفیل میں خدا پانی برساتا ہے اور دشمنوں پر مدد دیتا ہے ،ان میں ایک رجاء ہیں۔ [13]

امرا سے استغناء[ترمیم]

اس زہد وتقویٰ کی وجہ سے وہ امرا اور سلاطین سے ہمیشہ بے نیاز رہے اورکسی کے آستانہ پر حاضری نہیں دی، ایک مرتبہ ان سے کسی نے پوچھا کہ آپ حاکم وقت کے پاس کیوں نہیں جاتے،جواب دیا میرے لیے اس رب العلمین کی ذات کافی ہے۔ جس کے لیے میں نے ان کو چھوڑا ہے۔[14]

ایک اہم کارنامہ[ترمیم]

ان کا سب سے اہم کارنامہ اور سب سے بڑی مذہبی خدمت یہ ہے کہ انہی نے سلیمان بن عبدالملک کو عمر بن عبدالعزیزؓ کو خلیفہ بنانے کا مشورہ دیا تھا[15] اس لیے الداعی الی الخیر کفاعلہ کے مطابق وہ بھی اس کا رخیر میں شریک ہیں۔

وفات[ترمیم]

آپ نے 112ھ میں وفات پائی۔ [16]

حلیہ[ترمیم]

آخر عمر میں سر اور داڑھی کے بال سفید ہو گئے تھے،سر میں خضاب لگاتے تھے اور داڑھی کو نورانی چھوڑ دیا تھا۔

حوالہ جات[ترمیم]

  1. (ابن سعد،ج 7،ق2،ص161)
  2. (تہذیب الاسماء:1/190)
  3. (تذکرۃ الحفاظ:1/102)
  4. (تہذیب التہذیب:3/265)
  5. (تہذیب التہذیب ایضاً:265)
  6. (ابن سعد،ج4،ق2،ص161)
  7. (تذکرہ الحفاظ:1/105)
  8. (تہذیب التہذیب:1/266)
  9. (تہذیب الاسماء:1/190)
  10. (تہذیب التہذیب:3)
  11. (تہذیب التہذیب:3)
  12. (تذکرۃ الحفاظ:1/105)
  13. (تہذیب التہذیب:3/266)
  14. (تہذیب الاسماء:1/190)
  15. (تذکرۃ الحفاظ:1/105)
  16. (تذکرۃ الحفاظ ایضاً)