حدیث عزاداری

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

حدیث عزاداری اہل تشیع کے نزدیک عزاداری پر سب سے مضبوط حدیث ریان ابن الشبیب کی حدیث ہے۔ اسے منابع حدیثی شیعہ میں حدیث یابن الشبیب بھی کہا جاتا ہے۔ جس میں ماہ محرم میں پیش آنے والے واقعات اور کربلا کی جنگ کا مسئلہ بیان کیا گیا ہے۔ اس روایت کو وثاقت اور اعتبار کے لحاظ سے اور اس کے تمام راویوں کے صحیح یا کم از کم حسن ہونے کی وجہ سے صحیح روایت یا حسن روایت کے طور پر سمجھا گیا ہے۔ یہ روایت امالی شیخ صدوق اور عیون اخبار الرضا میں آئی ہے جسے ریان ابن الشبیب نامی شخص نے علی ابن موسی الرضا ( شیعہ امامیہ کے آٹھویں امام) سے نقل کیا ہے۔ روایت کی صداقت کی تصدیق و تائید میں ، علم حدیث کے شیعہ علما نے ، سند کی درستی کے علاوہ ، قرائن صدوری ،تواتر معنوی اور قاعده تسامح در ادله سنن کو بھی دلیل بنایا ہے۔

اس روایت کے مندرجات میں دعاؤں کے ایام ، ماہ محرم کی خصوصیت اور اس کے آغاز کا ذکر ، واقعہ کربلا اور سید الشہداء امام حسین کی المناک شہادت اور ان کے مظلوم اصحاب پر ڈھائے گئے مظالم شامل ہے ، ماتم کی ضرورت کے ساتھ ساتھ حسینی رسومات کو زندہ رکھنے کو لازمی قرار دیا ہے اور عزاداری امام حسین علیہ السلام کو برپا کرنے کے طریقوں کو بیان کیا گیا ہے اس کے آخری حصے میں حسین بن علی کے قتل کے بعد وقوع پزیر ہونے والے کچھ حیرت انگیز اور غیر معمولی واقعات بھی شامل ہیں ، جن میں خون کی بارش اور سرخ اور سیاہ آندھی شامل ہیں۔

مضمون[ترمیم]

ریان بن شبیب کہتے ہیں: میں پہلی محرم کو امام رضا کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ (ع)نے مجھ سے فرمایا: اے ابن شبیب کیا روزے سے ہو؟ میں نے کہا: نہیں۔ فرمایا: آج وہ دن ہے، جس دن حضرت زکریا علیہ السلام نے اپنے پروردگار سے دعا کی اور کہا کہ مجھے ایک پاک نسل عطا فرما، کیونکہ تو دعاؤں کو سننے والا ہے۔ اللہ تعالی نے دعا قبول فرمائی اور فرشتوں کو حکم دیا تو ملائکہ نے زکریا سے کہا جبکہ وہ محراب عبادت میں مشغول عبادت تھے کہ: خداوند متعال تجھے یحیی کی بشارت دیتا ہے۔ جو شخص آج کے دن روزہ رکھے اور اس کے بعد بارگاہ الہی میں دعا کرے، خداوند متعال اس کی دعا کو قبول فرماتا ہے، جیسے حضرت زکریا کی دعا قبول کی۔

اس کے بعد فرمایا: اے ابن شبیب! بیشک محرم وہ مہینہ ہے کہ دور جاہلیت کے لوگ بھی اس مہینہ کے احترام میں قتل و غارت کو حرام جانتے تھے، لیکن اس امت نے نہ اس مہینہ کا احترام کیا اور نہ اپنے نبی (ص) کی حرمت کا خیال رکھا۔ انھوں نے اس مہینے میں پیغمبر اکرم(ص) کی اولاد کو قتل کیا اور ان کی خواتین کو اسیر بنایا اور ان کے مال کو لوٹا۔ خدا کبھی بھی ان کے اس گناہ کو نہیں بخشے گا۔

اے ابن شبیب: اگر کسی چیز کے لیے گریہ کرنا چاہو، تو حسین ابن علی ابن ابی طالب(ع)کے لیے گریہ کرو کہ انھیں اس طرح ذبح کیا گیا جیسے بھیڑ کو کیا جاتا ہے اور اں کے اہل بیت میں سے اٹھارہ افراد کو شہید کیا گیا، جن کی روئے زمیں پر کوئی مثال نہیں تھی۔ ان کے قتل پر ساتوں زمین و آسماں نے گریہ کیا. امام(ع) کی نصرت کے لیے چار ہزار فرشتے زمین پر اترے انھوں نے امام کو مقتول پایا۔ اس وقت سے یہ فرشتے آپ (ع) کی قبر پر پریشان اور خاک آلود ہیں اور قائم آل محمد (عج) کے ظہور تک اسی حالت میں ہوں گے ظہور کے وقت یہ ان کے انصار میں سے ہوں گے اور ان کا نعرہ ہوگا’’یالثارات الحسین‘‘

اے ابن شبیب ! میرے بابا نے اپنے بابا (موسی کاظم) سے اور انھوں نے اپنے جد امجد(محمد باقر) سے سنا ہے کہ: میرے جد امام حسین(ع) کے قتل پر آسمان سے خون اور سرخ مٹی کی بارش ہوئی۔

اے ابن شبیب! اگر تم حسین(ع) پر اتنا گریہ و زاری کرو یہاں تک کہ تمھارے اشک رخسار تک پہنچ جائیں تو خداوند متعال تمھارے تمام گناہوں کو بخش دے گا چاہے وہ چھوٹے ہوں یا بڑے، کم ہوں یا زیادہ۔

اے ابن شبیب ! اگر تم چاہتے ہو کہ خدا سے اس عالم میں ملاقات کرو کہ تمھارے ذمہ کوئی گناہ نہ رہے تو حسین(ع) کی زیارت کرو۔

اے ابن شبیب ! اگر چاہتے ہو کہ جنت میں پیغمبر اکرم (ص) کے ساتھ بنے ہوئے حجروں میں رہو، تو حسین (ع) کے قاتلوں پر لعنت بھیجو۔

اے ابن شبیب! اگر چاہتے ہو ے تمھیں امام حسین (ع) کے ہمراہ شہید ہونے والے اصحاب کا ثواب ملے تو جب بھی حسین(ع) کی یاد آئے، کہو ’’يا ليتني كنت معهم فافوز فوزا عظيما‘‘ (کاش! میں ان کے ساتھ ہوتا اور عظیم درجہ شہادت پر فائز ہوتا۔)

اے ابن شبیب! اگر ہمارے ساتھ جنت کے بلند درجوں میں رہنا چاہتے ہو، تو ہمارے غم میں مغموم ہونا اور ہماری خوشی میں شاد و خوش حال۔ اور تم پر ہماری ولایت واجب ہے کیونکہ اگر کوئی شخص پتھر سے بھی محبت اختیار کرے گا ، اللہ اسے اسی پتھر کے ساتھ روز قیامت محشور کرے گا۔[1]

بیرونی روابط[ترمیم]

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. وسائل الشيعة ، ج‏14، ص 502، باب استحباب البكاء لقتل الحسين؛ الأمالي( للصدوق)،ص 130، المجلس السابع و العشرون

سانچے[ترمیم]