حاجی بیرام ولی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حاجی بیرام ولی
"حاجی بیرام ولی" کا مقبرہ الوس، انقرہ میں حاجی بیرام مسجد کے مقبرے کے اندر واقع ہے۔
ذاتی
پیدائش1352 CE
سولفاسول ولیج، انقرہ
وفات1430ء (عمر 77–78)
الوس، انقرہ
مذہباسلام
دورقرون وسطی
دور حکومتسلطنت عثمانیہ، اناطولیہ
معتقداتسنی اسلام
بنیادی دلچسپیصوفی شاعری، ذکر
قابل ذکر خیالاتبیرامی طریقت
مرتبہ

حاجی بیرام ولیؒ (ترکی: Hacı Bayram-ı Veli، عربی: حاجی بايرام ولي)(1352–1430) ایک عثمانی شاعر، صوفی اور سلسلہ بیرامی کے بانی تھے۔ [1]اور انھوں نے ترکی زبان میں متعدد حمدیں بھی لکھیں۔ [1]

بسم الله الرحمن الرحيم
الله

مضامین بسلسلہ اسلام :

 

ابتدائی زندگی[ترمیم]

آپ کا زمانہ 1352ء سے لے کر 1430ء کے درمیان تھا۔ آپ کا اصل نام نعمان تھا۔ آپ نے عید الاضحی کے دوران اپنے روحانی پیشوا صمونجو بابا سے ملاقات کی۔انھوں نے آپ کا نام بدل کر بیرام رکھ دیا۔ (جسے ترکی میں قربان بیرامی کہتے ہیں)۔

حاجی بیرامؒ صوبہ انقرہ کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں پیدا ہوئے اور عالم بنے۔ قیصری شہر میں شیخ حمید حمید الدین والی سے تصوف کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ان کی زندگی بدل گئی، جو دراصل صفویہ طریقت کے شیخ خواجہ علاء الدین علیؒ کے مرشدوں میں سے ایک تھے ۔

حج اور اس کے حکم کی بنیاد[ترمیم]

دو صوفیا، شیخ حمید الدین ولیؒ (صمونجو بابا) اور حاجی بیرامؒ، بروصہ شہر میں مقیم تھے۔ جب انھوں نے ایک ساتھ حج کیا تو اس مقدس سفر کے دوران حمید الدین والی آپ کو تصوف کی تعلیم دیتے رہے۔ شیخ حمید الدین 1412ء میں حاجی بیرام ولیؒ کو بیعت کا اختیار دے کر ہوئے انتقال کر گئے۔ آپ بیرامی نامی ایک طریقت کے شیخ (رہنما) کے طور پر انقرہ واپس آئے۔ [2] آپ نے انقرہ میں اس جگہ پر ایک درگاہ بنوائی جہاں آج ان کا مقبرہ اور مسجد کھڑی ہے۔ لوگ وہاں رہنے اور تصوف کے بارے میں جاننے کے لیے آتے تھے۔ بیرامؒ کی کامیاب تعلیم کی وجہ سے یہ طریقہ(تصوف) مقبول ہوا۔

آق شمس الدینؒ اور حاجی بیرامؒ[ترمیم]

آپ کے پیرؤوں میں اضافہ نے مقامی احکام کو پریشان کر دیا؛ انھوں نے اپنی پریشانیاں عثمانی سلطان مراد ثانی کو بتائیں، جنھوں نے حاجی بیرامؒ کو ادرنہ (اس وقت سلطنت عثمانیہ کا دار الحکومت) بلایا۔ سلطان ان کی رائے، نظریہ اور حب الوطنی کو جانچنا چاہتا تھا۔اس وقت اناطولیہ میں بہت سے آزاد ترک قبیلے تھے جن میں بہت کم اتحاد تھا۔

حاجی بیرام اپنے ایک اور مرید آق شمس الدین("آق" کا مطلب ہے "خالص سفید")، سلطان سے ملنے کے لیے اپنے ساتھ ادرنہ لے گئے۔ مراد جلد ہی سمجھ گیا کہ بیرام کے خلاف شکایات محض افواہیں ہیں اور حاجی بیرام اورآق شمس الدین کچھ دیر تک ادرنہ میں ٹھہرے، دربار میں درس اور تبلیغ کرتے رہے۔ اس نے سلطان کے ساتھ مزید نجی مشاورت کی جس میں انھوں نے دنیا، زندگی اور مستقبل کے معاملات پر تبادلہ خیال کیا۔

خاص طور پر سلطان کا تعلق بازنطینی دار الحکومت قسطنطنیہ کی فتح سے تھا۔ جسے فتح کرنے کے لیے اسلام کی فوجیں کامیاب نہیں ہوئیں۔ سلطان نے بیرام سے براہ راست پوچھا کہ شہر کون فتح کرے گا؟ جواب آیا: "آپ نہیں کریں گے۔ لیکن یہ بچہ کرے گا۔ اس فتح کے وقت تم اور میں زندہ نہیں ہوں گے۔ لیکن میرا طالب علم آق شمس الدین وہاں ہوگا۔" وہ بچہ سلطان کا بیٹا تھا، مستقبل کا محمد ثانی ، جس نے 1453ء میں شہر (جو بعد میں استنبول کے نام سے مشہور ہوا) فتح کیا اور فاتح کا خطاب حاصل کیا۔

حاجی بیرام نے درخواست کی کہ اس کا طالب علم آق شمس الدین، محمد کا استاد تعینات کر دیا جائے، سلطان مراد نے اس بات سے اتفاق کیا۔ حاجی بیرام نے 1430ء میں انقرہ میں وفات تک ادرنہ کے چند مزید دورے کیے اور اپنے سلسلہ کی قیادت آق شمس الدین کے سپرد کی۔ ان کی قبر [2] اور ان کا وقف مسجد انقرہ میں ہے۔ [3]

سلسلہ[ترمیم]

اسلام
اہل تشیعتصوفاہل سنت[4]خارجی
حنفیمالکیشافعیحنبلیظاہریہ
ذوالنون مصریابراہیم بن ادہمابوالحسن شاذلیضیاء الدین سہروردی
بایزید بسطامیشاذلیہسہروردیہ
ابوالحسن خرقانیابوحفص شہاب الدین سہروردی
سہل التستریارسلان بابایوسف ہمدانی
حسین بن منصور حلاجاحمد یسویعبد الخالق غجدوانیعبد القادر جیلانی
سلسلہ نقشبندیہ طریقتقادریہ طریقتشیخ الاکبر ابن العربی
زاہد جیلانی زاہدیہاکبریہ تصوف
خلوتیہوحدت الوجود
یونس امرہبایرامیہ طریقتحاجی بایرام ولی
شمشیہ بیرامیہجلوتیہ بیرامیہمالاماتیہ بیرامیہ
عزیز محمود ھدائی
اسماعیل حقی
سفرانبولولو محمد امین خلوتی


اناطولیہ کے چار قطب[ترمیم]

حاجی بیرام ویلی کو تمام طریقت میں اناطولیہ کے چار قطبوں ( اقطاب ) میں سے ایک سمجھا جاتا ہے، باقی مولانا رومی ، شعبان ولیؒ اور حاجی بکتاش ولی ہیں۔ [5]

گیلری[ترمیم]

مزید دیکھو[ترمیم]

  • صوفیا کی فہرست
  • بیارامیہ
  • خلوطیہ
  • زاہدی

بیرونی روابط[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ^ ا ب Levine, Lynn A. (editor) (2006) "Hacı Bayram Mosque (Hacı Bayram Camii)" Frommer's Turkey (4th edition) Wiley, Hoboken, New Jersey, page 371, آئی ایس بی این 0-471-78556-3
  2. ^ ا ب Taji-Farouki, Suha (2007) Beshara and Ibn 'Arabi: a movement of Sufi spirituality in the modern world, Anqa, Oxford, England, page 158, آئی ایس بی این 978-1-905937-00-4
  3. Davis, Ben (editor) (2003) Let's Go Turkey St. Martin's Press, New York, page 398, آئی ایس بی این 0-312-30597-4
  4. Balcıoğlu, Tahir Harimî, Türk Tarihinde Mezhep Cereyanları - The course of فقہی مذاہب events in ترکی قوم تاریخ, (Preface and notes by Hilmi Ziya Ülken), Ahmet Sait Press, 271 pages, Kanaat Publications, Istanbul, 1940.
  5. "ŞÂBÂN-ı VELÎ - TDV İslâm Ansiklopedisi"۔ TDV İslam Ansiklopedisi (بزبان ترکی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 اپریل 2022