محمد کاظم خراسانی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
محمد کاظم خراسانی
 

معلومات شخصیت
پیدائش 1839 مشہدایران
مشہد  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 12 دسمبر 1911 نجف عراق
نجف  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت ایران  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مذہب اسلام
مکتب فکر شیعہ
عملی زندگی
استاذ میرزا حسن شیرازی،  مرتضی انصاری  ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ فقیہ،  مصنف  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان فارسی[1]  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ویب سائٹ
ویب سائٹ باضابطہ ویب سائٹ  ویکی ڈیٹا پر (P856) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

آیۃ اللہ العظمی ٰ محمد کاظم خراسانی (1839 - 1911)، جنہیں عام طور پر آخوند خراسانی کہا جاتا ہےشیعہ مرجع اعلی ٰ اور سیاسی مفکرتھے۔[2][3][4] وہ ایران (1905-1911) میں رونما ہونے والے ایشیا کے پہلے جمہوری انقلاب کے بانی مرجع کے طور پر جانے جاتے ہیں۔[5] ان کا نظریہ یہ ہے کہ امام مہدی کی غیبت میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے فریضے پر عمل کے لیے جمہوریت بہترین نظام حکومت ہے اور وہ جمہوریت کی جدوجہد کو ایک جہاد (مقدس جنگ) سمجھتے ہیں جس میں تمام مسلمانوں کو حصہ لینا چاہئیے۔ [6][7] باقی دو مراجع، مرزا حسین تہرانی اور شیخ عبداللہ مازندرانی، کے ساتھ مل کر انھوں نے ظالم آمریت کے خلاف لوگوں کی مذہبی قیادت کی[8]، فتوے جاری کیے اور قبائلی سرداروں، ممتاز قومی اور سیاسی رہنماؤں اور سربراہوں کو ٹیلی گرام بھیجے۔ جب محمد علی شاہ ایران کے بادشاہ بنے تو محمد کاظم خراسانی نے انھیں ایک دس نکاتی ہدایت نامہ بھیجا جس میں اسلام کے تحفظ، مقامی صنعتوں اور جدید سائنس کو فروغ دینے، ایران میں سفارتی تعلقات برقرار رکھتے ہوئے نوآبادیاتی مداخلت کو روکنے، معاشی اصلاحات اورجدید عدالتی نظام کے قیام کے لیے سفارشات شامل تھیں۔[4]

ان کا شمار موجودہ دور کے اہم ترین شیعہ مجتہدوں میں ہوتا ہے اور شیعہ حلقوں میں آخوند (بڑا عالم) کا لقب تقریباً ان کے لیے ہی مختص ہو گیا ہے۔ [9] [10] 1874 میں جب ان کے استاد سید مرزا محمد حسن شیرازی سامرا چلے گئے تو انھیں اپنا جانشین مقرر کیا اور انھوں نے نجف میں پڑھانا شروع کیا ۔ [5] وہ 1895 میں مرجع تقلید بنے اور انھوں نے 1911 میں اپنی وفات تک نجف میں پڑھایا اور شیعہ دنیا کے مختلف خطوں سے تعلق رکھنے والے طلبہ کی ایک قابل ذکر تعداد نے ان سے علم حاصل کیا۔ بیسویں صدی کے تمام بڑے شیعہ فقہا کسی نہ کسی طرح ان کے حلقہ درس سے متعلق تھے۔ وہ اپنی ساکھ، آزاد سوچ اور فکری تازگی کے لیے مشہور تھے۔ ان کی سب سے مشہور تصنیف کِفایۃُ الاُصول[11] 1903 میں شائع ہوئی جس میں انھوں نے اہل تشیع کے فلسفہ شریعت کو ایک منظم نظریہ کے طور پر زیادہ پختہ انداز میں پیش کیا۔ اب تک یہ کتاب 453 بار شائع ہو چکی ہے۔[12] اس کتاب کو نجف اور قم کے شیعہ مدارس میں رائج اصول فقہ کی بنیاد سمجھا جاتا ہے۔ آخوند خراسانی کے بعد آنے والے تمام بڑے شیعہ فقہا نے اس پر شروحات لکھی ہیں جن میں سب سے زیادہ مشہور آیت اللہ خوئی کی شرح ہے۔[13]

انھوں نے جدید قومی ریاست کے بارے میں اہل تشیع کا نظریہ بیان کرتے ہوئے اسے عوام اور حکومت کی یکجائی قرار دیا اور غیبت امام مہدی کے زمانے میں حکومت کو عوام کی مشترکہ ذمہ داری قرار دیا۔[14] ان کے مطابق امام کی غیبت کے زمانے میں اسلام کا مکمل نفاذ ممکن نہیں اور اگرچہ جمہوری نظام خامیوں سے پاک نہیں لیکن زمانہ غیبت میں ممکنہ نظاموں میں بہترین ہے۔[15] علمائے دین کا کام صرف دین کی تبلیغ ہے اور ان کو باقی شہریوں پر کوئی سیاسی امتیاز حاصل نہیں ہے۔[16] آخوند کے نزدیک جمہوری نظام میں ہر گروہ کی اکثریتی رائے کا احترام ضروری ہے۔ کوئی بھی گروہ محض عددی اکثریت کی بنیاد پر اپنی رائے کسی دوسرے گروہ پر مسلط نہیں کر سکتا۔[17] صحت مند جمہوریت میں ہر فرقے کی اکثریتی رائے کا احترام کرنا اسلامی اقدار کے تحفظ کی ضمانت ہے، کیونکہ مملکت کے عوام کی اکثریت اسلام پر یقین رکھتی ہے۔[18] ان کے مطابق استعماری طاقتیں مسلمان ممالک کو حقیقی جمہوریت سے دور رکھنا چاہتی ہیں تاکہ ان کو خود مختاری، ترقی اور خوش حالی سے دور رکھ سکیں۔[19] 

طرز زندگی اور تعلیم[ترمیم]

آخوند خراسانی مشہد کے قریب ایک چھوٹے سے قصبے طوس میں 1839 میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد ملا حسین ہروی کا تعلق ہرات سے تھا، جو ایک عالم دین اور ریشم کے تاجر تھے۔ 1850 میں وہ مشہد میں واقع مدرسہ اسماعیل خان میں داخل ہوئے۔ 1856 تک انھوں نے ابتدائی تعلیم مکمل کر کے شادی کر لی۔ [20] پھر 22 سال کی عمر میں وہ سبزوار چلے گئے جہاں وہ تین ماہ تک رہے اور ملا ہادی سبزواری سے اسلامی فلسفہ کی تعلیم حاصل کی البتہ جلد ہی اس سے آپ کا دل بھر گیا۔ [21] وہ نجف جانا چاہتے تھے لیکن غربت کی وجہ سے انھیں تہران میں رکنا پڑا جہاں انھوں نے مدرسہ صدر میں ملا حسین خوئی کے زیر سایہ منطق کی تعلیم جاری رکھی۔ [21] 1862 میں وہ عراق چلے گئے اور نجف میں عظیم شیعہ مرجع آیت اللہ شیخ مرتضیٰ انصاری کے درس خارج میں شرکت کرنا شروع کیا۔ اس کے ساتھ ہی انھوں نے آیت اللہ مرزا حسن شیرازی کے درس خارج میں بھی شرکت کی، [21] جو ایران میں برطانوی کمپنی کی طرف سے تمباکو فروشی کے خلاف فتویٰ دینے کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔ [22] انھوں نے شیخ مرتضیٰ انصاری کے زیر سایہ تقریباً دو سال تعلیم حاصل کی۔ 1864 عیسوی میں شیخ مرتضیٰ انصاری کے انتقال کے بعد، مرزا حسن شیرازی شیعوں کی دنیا کے اعلیٰ ترین مرجع تقلید بن گئے۔ آخوند خراسانی 1875 میں ان کی سامرا کی طرف ہجرت تک ان کے درس میں شریک ہوتے رہے۔ [21][4]

زیادہ تر دینی طلاب کی طرح آخوند خراسانی نے ایک سادہ زندگی گزاری اور انھیں اپنے پیاروں کا فراق برداشت کرنا پڑا۔ تنگ دستی کی وجہ سے وہ صرف فوری ضروریات مہیا کر سکتے تھے اور مرجع کے دفتر کی طرف سے دی جانے والی محدود رقم پر اکتفا کرتے تھے۔[21] شادی کے بعد وہ اپنی بیگم کو اپنے ساتھ نجف نہ لے جا سکے اور مالی وسائل کی کمی کی وجہ سے انھیں مشہد میں چھوڑ گئے۔ انھیں نجف پہنچنے کے فوراً بعد اپنے پہلے بچے کی موت کی اطلاع ملی۔ ان کی بیگم بعد میں ان کے پاس نجف آگئیں لیکن 1864 میں دوسرے بچے کو جنم دینے کے بعد انتقال کر گئیں۔ آخوند نے 1873 تک دوبارہ شادی نہ کی اور دوسری شادی سے ان کے چار بچے ہوئے: مرزا مہدی خراسانی (1875-1945)، مرزا محمد (1877-1937)، مرزا احمد کفائی خراسانی (1912-1971) اور زہرا (1891- 1956)۔ ان کی دوسری بیوی کا انتقال ایک طویل بیماری سے ہوا اور انھوں نے آخری بار 1895 میں شادی کی اور اس سے دو بیٹے پیدا ہوئے: حسین آقا (1901–؟) اور حسن کفائی (1902–1954)۔ [23] مرجع کے طور پر آخوند خراسانی نے خمس کی رقم حوزے کے ضرورت مند طلبہ پر خرچ کی اور مختلف مدارس اور اسکولوں کو چلانے کے لیے مدد فراہم کی۔ انھوں نے جدید اسکولوں کے قیام کی بھی اخلاقی اور مالی حمایت کی۔ انھوں نے نجف میں تین مدارس قائم کیے: 1903 میں مدرسہ بزرگ آخوند، 1908 میں مدرسہ الوسطیٰ آخوند اور 1910 میں مدرسہ کوچک آخوند قائم کیا۔ انھوں نے عراق میں فارسی ادبی انجمنوں کے قیام کی بھی حمایت کی، جیسے انجمنِ اخوتِ ایرانی اور 1907 میں کاظمین میں کئی اسکولوں، 1908-1909 میں نجف میں علوی اسکول اور کربلا میں حسینی اسکول (شاید 1909 میں) کی عمارت کے لیے رقم فراہم کی جو انجمن مساوات ایرانیان کے تعاون سے قائم کیا گیا۔ آخوند خراسانی نے جمہوریت کے لیے جدوجہد کرنے والی سیاسی تنظیموں کو بھی مالی مدد سے نوازا۔ [24]

آثار اور آراء[ترمیم]

مرزا شیرازی نے سامرا منتقل ہونے کے بعد آخوند خراسانی سے کہا کہ وہ نجف میں ان کی جگہ درس خارج دینا شروع کر دیں۔ ان کے دروس خارج جلد ہی طلبہ میں مقبول ہو گئے۔[23] 1894 میں مرزا شیرازی کی وفات کے بعد وہ اہل تشیع کے سب سے بڑے مرجع تقلید بن کر ابھرے۔ 1903 میں انھوں نے اپنی سب سے مشہور کتاب کِفایۃُ الاُصول مکمل کی جسے جدید دور میں شیعہ فلسفہ شریعت کا ستون سمجھا جاتا ہے۔[11] آخوند خراسانی کی مرجعیت میں اصولی مکتب فقہ نے شیعی دنیا میں فیصلہ کن برتری حاصل کر لی۔

کتابیں[ترمیم]

آخوند خراسانی نے درج ذیل کتابیں لکھیں:

آخوند خراسانی کی تصنیف کردہ کتابیں [25]
کِفایۃُ الاُصول الفوائد الاصولیہ الحاشیۃ القدیمہ الحاشیہ المبسوط
الحاشیہ علی المکاسب تکملۃ التبصرہ قطرات من یراء بحر العلوم تحریر فی الاصول
رسائل العملیہ حاشیۃ الفرائد القدیمہ حاشیۃ الاسفار حاشیہ المنظومہ
شرح لاوائل الخطابات الاوّلیا رسالہ فی مسئلۃ الاجارۃ حاشیہ علی ابنات المختار

اجتہاد کی تعریف[ترمیم]

آخوند خراسانی کہتے ہیں کہ اجتہاد ایک ایسا عمل ہے جس میں فقیہ "ایک صحیح فقہی رائے پر پہنچنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنے کے لیے اپنی پوری صلاحیت کو بروئے کار لاتا ہے۔" [26] اخوند کے مطابق ایک فقیہ پر واجب ہے کہ وہ معقول فیصلہ دینے سے پہلے کسی معاملے کو پرکھنے اور تحقیق کرنے کے لیے جتنا بھی وقت درکار ہو وہ صرف کرے۔[27] وہ کہتے ہیں کہ اگر اس کی کوشش کا کوئی نتیجہ نہ نکلے تو فقیہ کو رائے قائم نہیں کرنی چاہیے۔[28] ایسی صورت میں فقیہ کو مزید علم حاصل کرنا چاہیے۔[29] پیروکار یہ فیصلہ کرنے میں آزاد ہیں کہ کس کی تقلید کرنی ہے اور مرجع کی سب سے اہم خصوصیت عصری مسائل کے بارے میں اس کی معلومات کی وسعت اور ملت کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے روایتی اور جدید علوم میں سعی کرنا ہے۔[30]

وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ اجتہاد[ترمیم]

جیسے جیسے سائنس اور ٹیکنالوجی ترقی کرتی ہے سماجی حالات اور طرز زندگی بھی بدلتے رہتے ہیں۔ زبان کا ارتقا ہوتا ہے اور نئے تصورات جنم لیتے ہیں۔ آخوند خراسانی کا خیال ہے کہ فقہی نظر کو وقت کے تقاضوں پر پورا اترنا چاہئیے۔ اس کے علاوہ ایک فقیہ کو ہمیشہ بدلتے ہوئے معاشرے کی ضروریات کی بنیاد پر اپنی رائے بدلنے پر آمادہ ہونا چاہیے۔ تاہم اسے مذہبی امور سے ہٹ کر لوگوں کی زندگی کے باقی معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔ [31] جہاں تک سماجی و سیاسی مسائل کا تعلق ہے، آخوند نے ان دانشوروں کی حمایت کی جو روایت سے ہٹ کر سوچنے اور دنیا کے دوسرے حصوں میں ہونے والی علمی پیشرفت پر غور کرنے کو آمادہ تھے۔ تاہم آخوند کا سیکولرازم مغربی سیکولر ازم سے مختلف تھا، اس کی جڑیں بارہویں امام کی غیبت کے شیعہ عقیدے میں پیوست تھیں۔ [32]

فقیہ بطور مصلح[ترمیم]

اپنے استاد آیت اللہ مرتضیٰ انصاری کی طرح آخوند کا خیال تھا کہ ایک فقیہ کو مذہب کے نام پر سیاست نہیں کرنی چاہیے، کیونکہ شیعہ مجموعہ احادیث میں اس خیال کی حمایت میں کوئی روایت موجود نہیں ہے۔ البتہ ان کی رائے یہ ہے کہ مذہبی علما معاشرے کے ضمیر کی آواز کا کردار ادا کر سکتے ہیں اور ان اہلکاروں پر تنقید کر سکتے ہیں جو اپنی ذمہ داریاں صحیح طریقے سے ادا نہیں کر رہے۔ [33] انھوں نے علما سے کہا کہ وہ ریاست کے اخلاقی زوال کو روکنے، ناانصافی کے خلاف لڑنے اور آمرانہ رویوں کے خلاف عوام کی پناہ گاہ کا کردار ادا کرنے کی کوشش کریں۔ [34] آخوند کے نزدیک ایک مرجع کو ایک سماجی خادم کے طور پر کام کرنا چاہیے اور شیعہ مسلک کے اصولوں کے مطابق فکری صلاحیتیں بروئے کار لا کر عوام کی رہنمائی کرنا چاہیے۔ [29]

قومی ریاست کا نظریہ[ترمیم]

جدید دور میں قومی ریاست سے مراد ریاست اور قوم کا ایک ہونا ہے، نہ یہ کہ ریاست حاکم ہو اور قوم محکوم، بلکہ ریاست قوم ہی کی منظم شکل کا نام ہے۔ [35] [36] [37] [38] قومی ریاست کا تصور مغرب میں ویسٹ فیلیا کے معاہدے کے بعد آہستہ آہستہ ابھرا، کیونکہ چھاپہ خانے، انجن، ٹیلیگرام، ریل، بندوق، اینٹی بائیوٹک ادویات اور ان جیسی نئی ایجادات نے انسانوں کے آپس میں رابطے کے طریقوں میں تبدیلی لا کر معاشروں کو بدل دیا۔ جب یہ نئی ایجادات مسلم دنیا میں داخل ہوئیں [39] تو آخوند خراسانی نے ایک روشن فکر فقیہ کے طور پر قوم اور حکومت کے اتحاد کے تصور کی حمایت کی ( فارسی: اتحاد دولت و ملت‎)۔ [40] [41] انقلاب شروع ہونے سے بہت پہلے، 1902 میں انھوں نے ایران کے ولی عہد شہزادہ محمد علی مرزا کے نام خط میں کہا کہ اصلاحات کی لہر جو مغربی دنیا میں پھیل چکی ہے اس کے نتیجے میں بہتر حکمرانی ممکن ہوئی ہے۔ ایران کو بھی جدید سماجی و اقتصادی اصلاحات کی ضرورت ہے جو اسے سماجی برائیوں کے کم کرنے میں مدد کر سکیں۔ [42] ان کا ماننا تھا کہ شاہ کے اختیارات، برطانوی بادشاہ کی طرح، محدود کیے جانے کی ضرورت ہے اور حدود کی وضاحت جمہوری پارلیمنٹ کے ذریعے تدوین کیے گئے آئین کے ذریعے کی جانی چاہیے۔ آخوند نے ایران کی ایک ثقافتی علامت کے طور پر بے اختیار بادشاہ کے عہدے کو قبول کیا اور بادشاہ کے مطلق اختیارات کی مخالفت کی اور اسے غیر موثر انتظام اور غیر ملکی اثر و رسوخ میں اضافے کا ذمہ دار سمجھا۔ [43]

غیبت کے دوران سیکولر جمہوریت[ترمیم]

آیۃ اللہ العظمی ٰآخوند خراسانی کو جدید دور میں اصولی شیعہ مسلک کا سب سے بڑا نظریہ پرداز کہا جاتا ہے۔

شیعہ اسلام میں امام کی غیبت سے مراد اس عقیدے کی طرف اشارہ ہے کہ امام مہدی، جو اسلامی پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسل سے ہیں، پیدا ہونے کے بعد غیبت میں چلے گئے اور وہ ایک دن حضرت عیسیٰ کے ساتھ آئیں گے اور عالمگیر انصاف قائم کریں گے۔ آخوند خراسانی اور ان کے ساتھیوں نے امام کی غیر موجودگی میں مذہبی سیکولرازم کا ایک نظریہ پیش کیا، جو آج بھی شیعہ مدارس میں غالب ہے اور جس کے مطابق مذہبی رہنما اپنی مذہبی حیثیت کی بنیاد پر کوئی سیاسی عہدہ قبول نہیں کرتے۔ یہ نظریہ آیت الله خمینی کے نظریہ ولایت مطلقہ فقیہ کے برعکس ہے اور اس کے مطابق مثالی حکمران یعنی امام مہدی کی عدم موجودگی میں سیکولر جمہوریت بہترین دستیاب آپشن ہے۔ [44] وہ آئینی جمہوریت کی مخالفت کو امام مہدی کے خلاف بغاوت سمجھتے ہیں۔ [45] انھوں نے آئینی جمہوریت کی مکمل حمایت کا اعلان کیا اورکہا کہ "جمہوری آئین کی بنیادوں" پر اعتراض غیر اسلامی ہے۔ [46] آخوند کے مطابق، "ایک صحیح مذہب انسانوں کے اعمال اور کردار پر پابندیاں عائد کرتا ہے"، جو مقدس متن یا منطقی استدلال سے سمجھی جاتی ہیں اور یہ پابندیاں بنیادی طور پر استبداد کو روکنے کے لیے ہیں۔ [47]ان کاکہنا ہے کہ اسلامی نظام حکومت اس وقت تک قائم نہیں ہو سکتا جب تک کہ امام معصوم حاضر نہ ہو۔ غیبت امام میں مناسب قانون سازی سے ریاستی جبر کو کم کرنے، امور کے بہتر انتظام اور امن و سلامتی کو برقرار رکھنے کی کوشش ہی کی جا سکتی ہے۔ انھوں نے کہا : [48]

فارسی: سلطنت مشروعه آن است کہ متصدی امور عامه ی ناس و رتق و فتق کارهای قاطبه ی مسلمین و فیصل کافه ی مهام به دست ‏شخص معصوم و موید و منصوب و منصوص و مامور مِن الله باشد مانند انبیا و اولیاء و مثل خلافت ‏امیر المومنین و ایام ظهور و رجعت حضرت حجت، و اگر حاکم مطلق معصوم نباشد، آن سلطنت غیر مشروعه است، ‏چنان‌ کہ در زمان غیبت است و سلطنت غیر مشروعه دو قسم است، عادله، نظیر مشروطه کہ مباشر امور عامه، عقلا و متدینین ‏باشند و ظالمه و جابره است، مثل آنکه حاکم مطلق یک نفر مطلق‌ العنان خودسر باشد. البته به صریح حکم عقل و به فصیح ‏منصوصات شرع «غیر مشروعه ی عادله» مقدم است بر «غیر مشروعه ی جابره». و به تجربه و تدقیقات صحیحه و غور ‏رسی‌ های شافیه مبرهن شده که نُه عشر تعدیات دوره ی استبداد در دوره ی مشروطیت کمتر می‌شود و دفع افسد و اقبح به ‏فاسد و به قبیح واجب است.[49]

- محمد کاظم خراسانی
ترجمہ: "شیعہ عقیدہ کے مطابق صرف امام معصوم کو حکومت کرنے، لوگوں کے معاملات چلانے، مسلم معاشرے کے مسائل کو حل کرنے اور اہم فیصلے کرنے کا حق حاصل ہے۔ جیسا کہ انبیا علیہم السلام کے زمانے میں تھا یا امیر المومنین علی علیہ السلام کی خلافت کے زمانے میں تھا اور جیسا کہ امام مہدی علیہ السلام کے ظہور اور واپسی کے وقت ہوگا۔ اگر سیاسی ولایت مطلقہ  معصوم کے علاوہ کسی کے پاس ہو  تو یہ غیر اسلامی حکومت ہوگی۔ چونکہ یہ غیبت کا زمانہ ہے، اس لیے دو طرح کی غیر اسلامی حکومتیں ہو سکتی ہیں: پہلی نسبتاً عادلانہ جمہوریت جس میں لوگوں کے معاملات ایماندار اور پڑھے لکھے لوگوں کے ہاتھ میں ہوں اور دوسری ظالم حکومت جس میں ایک آمر کو مطلق اختیارات حاصل ہوتے ہیں۔ لہٰذا شریعت اور عقل  دونوں کی رو سے عدل ظلم سے بہتر ہے۔ انسانی تجربے اور محتاط غور و فکر سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ جمہوریت ریاست کے جبر کو کم کرتی ہے اور چھوٹی برائی کو ترجیح دینا واجب ہے۔"

آخوند کے نزدیک "جیسا کہ شریعت مقدسہ اور مذہب کی تعلیمات سے واضح ہے"، ایک اسلامی حکومت صرف معصوم امام ہی تشکیل دے سکتے ہیں۔[50] آقا بزرگ تہرانی کے بقول آخوند خراسانی کہتے تھے کہ اگر کسی بھی دور میں صحیح معنوں میں اسلامی حکومت کے قیام کا امکان ہو تو خدا امام زمانہ کی غیبت کو ختم کر دے گا۔[51] اس لیے آخوند نے فقیہ کی حکومت کے خیال کو باطل قرار دیا۔ [52][53] آخوند کے مطابق شیعہ فقہا کو جمہوری اصلاحات کی حمایت کرنی چاہیے۔ وہ اجتماعی عقل کو فردی عقل پر ترجیح دیتے ہیں اور فقیہ کے کردار کو ایک مومن کے ذاتی زندگی کے معاملات میں مذہبی رہنمائی فراہم کرنے تک محدود سمجھتے ہیں۔ [54][55] وہ جمہوریت کی تعریف ایک ایسے نظام حکمرانی کے طور پر کرتے ہیں جو ریاست کے سربراہ اور سرکاری ملازمین پر کلی "حدود اور شرائط" نافذ کرتا ہے تاکہ وہ ان حدوں کے اندر کام کریں جو قوم کے ہر فرد کے لیے یکساں ہوں۔ آخوند کا خیال ہے کہ جدید سیکولر قوانین روایتی مذہب کی حفاظت کرتے ہیں۔ وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ مذہبی احکام اور مذہب کے دائرہ سے باہر کے قوانین دونوں ہی "ریاستی استبداد" کا مقابلہ کرتے ہیں۔ [56] آئین سازی کا تصور "انسانوں کی موروثی اور فطری آزادیوں" کے دفاع کے اصول پر قائم ہے اوراس کے برعکس مطلق طاقت مطلق بدعنوانی کا موجب بن کر قوم کی صلاحیتوں کے بھرپور اظہار کا راستہ بند کر دیتی ہے۔ [57]

جمہوریت مذہب کی محافظ[ترمیم]

آخوند کا کہنا ہے کہ جمہوریت مذہب کی حفاظت کو یقینی بناتی ہے۔ چونکہ یہ عوام کی مرضی پر منحصر ہے اور آئین تمام شہریوں کے ساتھ یکساں سلوک کرتا ہے، اس لیے یہ لوگوں کے مذہب کا احترام کرے گی۔ [57] اسی طرح کی دلیل آیت اللہ سیستانی کی سیاسی فکر میں بھی نظر آتی ہے۔ [58] ان افواہوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہ اسلام خطرے میں ہے اور جمہوریت کا مقصد عوام کو بے ایمان بنانا تھا، آخوند خراسانی نے کہا کہ لوگوں کو تبلیغ کے لیے مذہبی انجمنوں کو بنانے کی آزادی سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ ان کے نمائندوں کے منظور کردہ قوانین ان کی مذہبی اقدار کا احترام کریں۔ [59] آخوند کے مطابق اسلام کا تحفظ علمائے دین کے اقتدار میں آنے کی بجائے حوزہ علمیہ اور مدارس کو اخلاقی زوال سے پاک رکھنے سے ہوتا آیا ہے اور مسلمان حکومتی زبردستی کی بجائے تبلیغ کے ذریعے ہی اسلامی عقائد و اقدار کو معاشرے میں باقی رکھ سکتے ہیں۔[60]

جمہوریت میں اقلیتوں کا کردار[ترمیم]

بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ وہ لازمی عنصر ہے جو جمہوریت کو اکثریت کی دھونس سے ممتاز کرتا ہے اور اقلیتوں پر فاشسٹ طرز کے ظلم و ستم کو ناممکن بناتا ہے۔ [61] [62] ایران کے جمہوری انقلاب کے دوران جمہوریت کے خلاف آمریت کا ساتھ دینے والوں نے جمہوریت کو غیر مسلم اقلیتوں کی سازش کے طور پر پیش کرنا شروع کر دیا۔ اس کے نتیجے میں ان کے خلاف غنڈوں کے پرتشدد حملے ہوئے، جنہیں شاہی دربار کے ملازم مولانا شیخ فضل اللہ نوری کی حمایت حاصل تھی۔ [63] آخوند خراسانی نے ایک فتویٰ جاری کیا جس میں مسلمانوں پر غیر مسلموں کے حقوق کا تحفظ واجب قرار دیا۔ انھوں نے کہا : [64]

فارسی:

بسم الله الرحمان الرحیم. ایذاء و تحقیر طایفه ی زردشتیه و سایر اهل ذمه که در حمایت اسلام اند حرام، و بر تمام مسلمین واجب است که وصایای حضرت خاتم النبیین صلی الله علیه و آله الطاهرین را در حسن سلوک و تالیف قلوب و حفظ نفوس و اعراض اموال ایشان کما ینبغی رعایت نمایند و سر مویی تخلف نکنند. ان شاء اللّہ تعالیٰ

من الاحقر محمد کاظم خراسانی[65]‎ "بسم الله الرحمان الرحیم

زرتشتیوں یا امن میں رہنے والے دیگر غیر مسلموں کو دہشت زدہ کرنا یا ان کی توہین کرنا حرام ہے۔ مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ ان کے ساتھ مہربانی اور فراخدلی سے پیش آئیں اور ان کی جان و مال کی حفاظت کریں جیسا کہ آخری نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت فرمائی ہے۔ ان شا الله"
- محمد کاظم خراسانی

آخوند خراسانی کو ایران کے زرتشتیوں نے آئینی تحریک کے دوران ان کے حقوق کے تحفظ میں مثبت کردار ادا کرنے پر سراہا ہے۔ [63] ان کی اس تعلیم کو بعد کے بڑے شیعہ فقہا نے آگے بڑھایا۔ آیت اللہ خوئی نے بڑی لچک اور تحمل کا مظاہرہ کیا، مثال کے طور پر وہ غیر مسلموں کو قومی ریاست کا مساوی شہری سمجھتے تھے، سنگساری جیسی سخت سزاؤں کو معطل سمجھتے تھے اور غیر مسلموں کے عدالتوں اور سرکاری تقریبات میں حلف کے لیے ان کی اپنی مقدس کتابوں کے استعمال کی حمایت کرتے تھے۔ [66] جدید عراق میں، آیت اللہ سیستانی نے جمہوری عمل کے جائز ہونے کو اقلیتی آوازوں کی شمولیت سے مشروط کیا ہے۔ [67] آیت الله سیستانی نے عراق کے شہروں پر داعش کے قبضے کے دوران سنی، عیسائی اور ایزدی خاندانوں کی مدد کی۔ [68] آیت اللہ اسحاق فیاض نے کہا کہ مرجع تقلید کا کام عراق کے شہریوں کے درمیان بلا تفریق مذہب مساوات اور اتحاد قائم رکھنا ہے۔ [69]

معاشی خود مختاری[ترمیم]

آخوند خراسانی کا خیال تھا کہ نوآبادیاتی طاقتوں پر معاشی انحصار زیادہ سے زیادہ آزادی کے حصول میں بڑی رکاوٹوں میں سے ایک ہے۔ 1898 میں اصفہان کے ایک امیر تاجر حاج کازرونی نے ایک ٹیکسٹائل کمپنی، شرکت اسلامی قائم کی اور آخوند خراسانی سے حمایت کی درخواست کی۔ انھوں نے سخت مقابلے میں ایرانی تاجروں کے مفادات کے تحفظ کی کوشش میں برطانوی کپڑا نہ خریدنے کا فتویٰ دیا۔ [70] اس طرح کا معاشی بائیکاٹ ہندوستان میں گاندھی اور دیگر نوآبادیات میں آزادی کی تحریکوں کے رہنماؤں نے بھی کیا تھا۔ [71] آخوند خراسانی نے ایران میں تجارت کو آسان بنانے کے لیے ایک قومی بینک کے قیام کی حمایت کی اور وہ مسلسل اقتصادی اصلاحات کی ضرورت پر زور دیتے رہے۔ [72] انھوں نے کہا:

فارسی: حکم به وجوب کفایی تعلیم مشق نظامی و تاٴسیس مکاتب و احداث بانک ملی بر وجهی که در ورقه علیٰحده نوشته شدہ و شرح دادہ صحیح و از این خدام شریعت مطهرہ صادر است. حررّہ الاحقر الجانی محمّد کاظم الخراسانی [73]

"ہمارے نزدیک جدیدفوجی مہارت سیکھنا، جدید اسکولوں کے نظام کا قیام اور ایک قومی بینک کی تشکیل اجتماعی ذمہ داری ہے۔ جیسا کہ علاحدہ ورقے میں لکھا اور بیان کیا گیا ہے۔"

- محمد کاظم خراسانی

جدید علوم کے بارے میں خیالات[ترمیم]

آخوند کا خیال تھا کہ مومنین کے لیے قومی اور مذہبی مفادات کے تحفظ کے لیے ضروری تعلیم اور مہارت حاصل کرنا واجب ہے۔ [74] انھوں نے جمہوریت کو موثر حکمرانی کے ایک ذریعہ کے طور پر دیکھا جو خوش حالی لائے گا اور نوآبادیاتی اثر کو روکے گا۔ وہ تمام بچوں کو تعلیم فراہم کرنے کے لیے جدید اسکولوں کی ضرورت، جدید معاشیات، نیشنل بینک کے قیام اور صنعت کاری پر زور دیتے رہے۔ ان کا خیال تھا کہ جدیدیت جنگلی پن کو روکے گی۔ جدید اصلاحات کی ضرورت کو بیان کرنے کے بعد انھوں نے کہا: [72]

فارسی: متمرد از آن یا جاهل و احمق است یا معاند دین حنیف اسلام.[75]‎ ’’جو لوگ جدت کی ضرورت کو قبول نہیں کرتے وہ یا تو نادان ہیں یا پھراسلام کے دشمن ہیں۔‘‘

- محمد کاظم خراسانی

انھوں نے ملک بھر میں اسکولوں کے نظام کے قیام کی ضرورت پر زور دیا جو جدید علوم سکھائیں اور اسلامی اخلاقیات کے مطابق کام کریں۔ [72]

فوج اور دفاع[ترمیم]

فوج کی جدید خطوط پر تنظیم ان کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل تھی، تاکہ انقلاب کے بعد ایران میں بننے والی قومی ریاست اپنا دفاع کر سکے۔ [74] آیت اللہ سیستانی بھی سرکاری فوج کے علاوہ کسی عسکری گروہ کی تشکیل کوناجائز سمجھتے ہیں۔ [76]

سیاسی کردار[ترمیم]

نجف شہر میں قائم حوزہ علمیہ نے گذشتہ ہزار سال میں شیعہ دنیا میں دینی رہنمائی مرکز کا کردار ادا کیا ہے۔ آئینی انقلاب کے آغاز میں یہیں پر سیاسی نظریات پر بحث ہوئی اور شیعہ فقہ کی مذہبی سیکولریت نے شکل اختیار کی۔ شہر سے شائع ہونے والے اس وقت کے بہت سے جرائد، خاص طور پر ' الغراء 'درات النجف' اور ' نجف' ، کا مطالعہ تحریک کے دوران ہونے والے مباحثے کی عکاسی کرتے ہیں۔ [39] دیگر مطبوعات بھی نجف کے باشندوں تک پہنچتی تھیں، جیسے کلکتہ سے چھپنے والا جریدہ حبل المتین۔ [77] نجف نے جدیدیت کا اپنا تصور تیار کیا تھا، جو مغرب سے الگ تھا۔ ان میں شخصی آزادی، قومی ریاست، جدید علوم اور جمہوریت کے تصورات کو اپنایا گیا ٹھگا۔ لیکن انھوں نے مغربی نوآبادیاتی پیش قدمی کو خطرے کے طور پر دیکھا اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک مضبوط اور ترقی پسند قوم کی تشکیل کی کوشش کی۔ [78]

آیات ثلاث: (دائیں سے بائیں) آیۃ اللہ العظمی ٰ شیخ عبد اللہ مازندرانی، آیۃ اللہ العظمی ٰ مرزا حسین تہرانی اور آیۃ اللہ العظمی ٰ آخوند خراسانی

آخوند خراسانی نے اپنے کردار کو ایک مصلح عالم کے طور پر سمجھا جس کی ذمہ داری وقت کے تقاضوں کے مطابق مذہب کی تشریح کر کے عوام کو تعمیری عمل پر آمادہ کرنا تھا۔ [29] وہ جدید اصلاحات کے سب سے بڑے مذہبی مدافع تھے۔ [77] ایک روشن خیال عالم کی حیثیت سے وہ مغربی علوم و نظریات سے فائدہ اٹھا کر جدید دنیا کے سوالوں کے جوابات ڈھونڈنے میں نہیں ہچکچاتے تھے۔ [79] تاہم ان کی مستقل نظریاتی بنیادیں تھیں اور ان کی اپنی اصطلاحات تھیں جو شیعہ اصولوں سے اخذ کی گئی تھیں۔ وہ جانتے تھے کہ کس طرح بدانتظامی، اقربا پروری اور بدعنوانی نے ایران کی معیشت کو لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ انھوں نے ایران کی تاریخ کی علامت کے طور پر ایک بے اختیار بادشاہ کی حمایت کی لیکن وہ اس وراثت پر بھی پراعتماد تھے جو انھوں نے مرجع کے طور پر پائی تھی۔ وہ اس منصب پر تھے کہ طرز حکمرانی اور سماجی حالات کا علمی جائزہ لے سکتے تھے۔ انھوں نے دینی اصولوں کی وضاحت اور مذہبی احکام اخذ کر کے پارلیمنٹ کی حفاظت کی۔ یہی نہیں بلکہ انھوں نے مختلف خطیبوں اور علما کوجمہوریت کا ساتھ دینے کا حکم دیا۔ [80]

سیاسی اصلاحات کی دعوت[ترمیم]

1906: تہران میں پہلی پارلیمنٹ۔

7 اگست 1902 کو لکھے گئے خط میں آخوند خراسانی اور دیگر دو مراجع نے ولی عہد شہزادہ محمد علی مرزا پر جدید سماجی اصلاحات کی ضرورت اور بدعنوانی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے عالمی رجحان میں شامل ہونے کی ضرورت پر زور دیا۔ شہزادے کے دورہ مغرب کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ پوری دنیا میں پرانا بادشاہی نظام حکومت ختم ہونے والا ہے اور اس میں اصلاحات وقت کی اہم ضرورت ہے۔ بادشاہت تب ہی باقی رہ سکتی ہے جب اس کے اختیارات آئین کے ذریعے محدود ہوں۔ [42] انھوں نے قوم اور ریاست کے اتحاد کا تصور پیش کیا اور ایک عقل گرا اصولی فقیہ کے طور پر وہ یہ سمجھنے کے قابل تھے کہ جمہوری اصلاحات کے نتیجے میں دوسری قوموں نے کس طرح ترقی کی ہے۔ [40] یہ جدید قومی ریاست کے قیام کی طرف اشارہ تھا، یعنی عوام اور حکومت کا اتحاد ( فارسی: اتحاد دولت و ملت‎ )۔ 27 جولائی 1903 کو لکھے گئے خط میں انھوں نے شاہ سے مالیاتی ذرائع کی بدانتظامی اور فوج کے لیے فنڈز کی کمی کے بارے میں استفسار کیا۔ انھوں نے اہواز میں ڈیم کی تعمیر کی سست رفتار پر بھی سوال اٹھایا۔ [81]

آئینی انقلاب[ترمیم]

چوتھے قاجار بادشاہ، ناصر الدین شاہ کو جمال الدین افغانی کے پیروکار مرزا رضا کرمانی نے اس وقت قتل کر دیا تھا جب وہ یکم مئی 1896 کو شاہ عبدالعظیم کے مزار پر حاضری کے بعد دعا مانگ رہے تھے۔ پانچویں قاجار بادشاہ مظفر الدین شاہ ایسے وقت میں تخت نشین ہوئے جب ایران کو مالی بحران کا سامنا تھا، ان کے والد کی پالیسیوں کے نتیجے میں سالانہ سرکاری اخراجات آمدنی سے کہیں زیادہ ہو چکے تھے۔ اپنے دور حکومت میں مظفر الدین نے مرکزی خزانے میں کچھ اصلاحات کی کوشش کی۔ تاہم، قاجار دربارکی طرف سے اٹھائے گئے قرضوں، جو انگلینڈ اور روس سے لیے گئے تھے، نے اس کوشش کوناکام بنایا۔ اگرچہ ایران میں ابھی معدنی تیل دریافت نہیں ہوا تھا، شاہ نے 1901 میں ہی برطانوی شہری ولیم ناکس آرسی[82] کو ملک کے بیشتر حصوں میں تیل کے مالکانہ حقوق سے نوازا۔ اشرافیہ، تعلیم یافتہ افراد اور مذہبی رہنماؤں میں ملکی حالات کے بارے میں تشویش کے نتیجے میں 1906 میں کچھ احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ تاجر، علماء اور جدید علوم سے آشنا لوگ آئینی طرز حکومت کی مانگ کرنے لگے۔ انھوں نے شاہی بدعنوانی کے خاتمے اور غیر ملکی طاقتوں کے تسلط کو ختم کرنے کے مقصدپر اتحاد کیا۔ اس کے نتیجے میں شاہ نے اکتوبر 1906 میں مجلس (پارلیمنٹ) بنانے کی تجویز کو قبول کیا، جس کے ذریعے بادشاہ کی طاقت کو کم کر دیا گیا مگر اس کے منصب کو باقی رکھا گیا کیونکہ اس نے عوام کو آئین اور پارلیمنٹ بنانے کا حق دیا۔ بادشاہ مظفرالدین شاہ نے اپنی موت سے کچھ دیر پہلے 1906 کے آئین پر دستخط کیے تھے۔ نوتشکیل شدہ پارلیمنٹ کے ارکان آخوند خراسانی سے مسلسل رابطے میں رہے اور جب بھی قانون سازی کے بلوں پر بحث ہوتی تو انھیں فقہی رہنمائی کے لیے ٹیلی گراف کے ذریعے تفصیلات سے آگاہ کیا جاتا۔ [83] 3 جون 1907 کو ایک خط میں پارلیمنٹ نے آخوند کو آئین مخالفوں کے ایک گروہ کے بارے میں بتایا جو اسلام کے نام پر جمہوریت کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ نجف سے تینوں مراجع نے جواب میں کہا: [83] [84]

فارسی:

اساس این مجلس محترم مقدس بر امور مذکور مبتنی است. بر هر مسلمی سعی و اهتمام در استحکام و تشیید این اساس قویم لازم، و اقدام در موجبات اختلال آن محاده و معانده با صاحب شریعت مطهره علی الصادع بها و آله الطاهرین افضل الصلاه و السلام، و خیانت به دولت قوی شوکت است.

الاحقر نجل المرحوم الحاج میرزا خلیل قدس سره محمد حسین، حررّہ الاحقر الجانی محمد کاظم الخراسانی، من الاحقر عبدالله المازندرانی [85]

’’پارلیمنٹ کی بنیاد اسلام کے اصولوں پر رکھی گئی ہے، لہٰذا ہر مسلمان پر فرض ہے کہ وہ اس کی حمایت کرے۔ اور جو لوگ اسے ناکام بنانے کی کوشش کرتے ہیں، ان کایہ عمل شریعت کے منافی ہے۔‘‘
- مرزا حسین تہرانی، محمد کاظم خراسانی، عبد اللہ مازندرانی۔

نوری کا فتنہ[ترمیم]

دریں اثناء پارلیمنٹ شاہی دربار کے عالم شیخ فضل اللہ نوری اور دیگر جمہوریت مخالف علما کے حملے کی زد میں آگئی۔ [86] نوری ایک امیر درباری عالم تھے جو شاہی شادیوں اور دوسری مذہبی تقریبات کے ذمہ دار تھے۔وہ اشرفیہ سے چندے بھی وصول کرتے تھے اور کئی امیر لوگوں کے اوقاف کا انتظام بھی ان کے ہاتھ میں تھا۔ [87] نوری پارلیمنٹ کے ادارے کی بنیادوں کے مخالف تھے۔ انھوں نے پیروکاروں کے ایک بڑے گروپ کی قیادت کرتے ہوئے 21 جون 1907 کو شاہ عبد العظیم کے مزار پر چوبیس گھنٹے دھرنا شروع کیا جو 16 ستمبر 1907 تک جاری رہا۔ انھوں نے اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے مذہب کے تصور کو ایک مکمل ضابطہ حیات کے طور پر عام کیا۔ انھوں نے الزام لگایا کہ جمہوری حکومت "کیمسٹری، فزکس اور غیر ملکی زبانوں کی تعلیم" کی اجازت دے کر الحاد پھیلا رہی ہے۔ [88] نوری صاحب نے ایک پرنٹنگ پریس خریدا اور پروپیگنڈے کے مقاصد کے لیے اپنا ایک اخبار "روزنامہ شیخ فضل اللہ" شروع کیا اور کتابچے شائع کیے۔ [89] ان کا کہنا تھا کہ حکمران خدا کے علاوہ کسی اور ادارے کے سامنے جوابدہ نہیں ہے اور لوگوں کو اختیارات کو محدود کرنے یا بادشاہ کے طرز عمل پر سوال اٹھانے کا کوئی حق نہیں ہے۔ انھوں نے اعلان کیا کہ جمہوری طرز حکومت کی حمایت کرنے والے کافر اور مرتد ہیں۔ [90] انھیں خواتین کی تعلیم سے نفرت تھی اور وہ کہتے تھے کہ لڑکیوں کے اسکول بدکاری کے اڈے اور قحبہ خانے ہیں۔ [91] جمہوریت مخالف مولویوں نے لوگوں کو تشدد پر بھی اکسایا اور پارلیمنٹ کے باہر جلسہ کرتے ہوئے نوری گروپ کے ایک مولوی نے کہا کہ پارلیمنٹ کے قریب جانا زنا، چوری اور قتل سے بھی بڑا گناہ ہے۔ [92] زنجان میں ملا قربان علی زنجانی نے چھ سو غنڈوں کی ایک فوج کو جمع کیا جنھوں نے جمہوریت کے حامی تاجروں کی دکانیں لوٹ لیں اور کئی دنوں تک شہر پر قبضہ کر کے نمائندے سعد السلطنہ کو قتل کر دیا۔ [46] نوری صاحب نے جمہوریت کے حامیوں کو ہراساں کرنے کے لیے جرائم پیشہ گروہوں سے رابطہ کر کے کرائے کے غنڈوں کو بھرتی کیا۔ 22 دسمبر 1907 کو نوری ایک ہجوم کی قیادت کرتے ہوئے توپخانہ اسکوائر کی طرف گئے اور تاجروں پر حملہ کیا اور دکانوں کو لوٹ لیا۔ [93] بادشاہ اور جاگیرداروں سے نوری کے تعلقات نے ان کے جنون کو مزید تقویت دی۔ حتیٰ کہ انھوں نے مدد کے لیے روسی سفارت خانے سے رابطہ کیا اور ان کے آدمیوں نے مساجد میں جمہوریت کے خلاف تقریریں کیں، جس کے نتیجے میں افراتفری پھیل گئی۔ [94] اس معاملے میں آخوند خراسانی سے مشورہ کیا گیا اور 30 دسمبر 1907 کو ایک خط میں تینوں مراجع نے کہا: [95]

فارسی:

چون نوری مخل آسائش و مفسد است، تصرفش در امور حرام است.

محمد حسین (نجل) میرزا خلیل، محمد کاظم خراسانی، عبدالله مازندرانی [96]

"چونکہ نوری مصیبت اور فتنہ کا باعث ہے، اس لیے اس کا کسی بھی معاملے میں دخل دینا حرام ہے۔"
- مرزا حسین تہرانی، محمد کاظم خراسانی، عبد اللہ مازندرانی۔

تاہم، نوری نے اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں اور چند ہفتوں بعد آخوند خراسانی اور باقی دو مراجع نے انھیں تہران سے نکالے جانے کا فتویٰ دے دیا: [97]

فارسی:

رفع اغتشاشات حادثه و تبعید نوری را عاجلاً اعلام.

الداعی محمد حسین نجل المرحوم میرزا خلیل، الداعی محمد کاظم الخراسانی، عبدالله المازندرانی [98]

"امن بحال کریں اور نوری کو جلد از جلد شہر بدر کریں۔"
- مرزا حسین تہرانی، محمد کاظم خراسانی، عبد اللہ مازندرانی۔

جہاں تک نوری کے استدلال کا تعلق ہے، آخوند خراسانی نے شاہ عبد العظیم کے مزار پر لگے ہوئے مجمعے کی سب ایرانیوں پر اپنی رائے تھوپنے کی کوشش کا الزامی رد کرتے ہوئے کہا کہ وہ "بہارستان چوک پر موجود پارلیمنٹ" کی حمایت کرتے ہیں۔ [99] نوری نے شریعت کی تشریح اپنی انا اور تنگ نظری کی بنیاد پر کی، جبکہ آخوند خراسانی گہری ہمہ جانبہ تحقیق کے بعد کوئی رائے قائم کرتے اور معاشرے میں مذہب سے وابستگی کو ایک فرد یا ایک تشریح کی پیروی سے بالاتر سمجھتے تھے۔ [100] نوری نے شریعت کو ایک جدید معاشرے کے تحریری آئین کے ساتھ خلط ملط کیا، لیکن آخوند خراسانی دونوں کے فرق اور دائرہ کار کو سمجھتے تھے۔ [101] نوری نے اپنے دلائل کی بنیاد خرافات پر رکھی اور غیر منطقی نتیجے پر پہنچے۔ ان کو جدیدیت کی فہم حاصل نہیں تھی اور اس کا کوئی متبادل بھی ان کے پاس نہیں تھا۔ [102] نوری نئے سماجی معاہدے کو اپنے وقار اور شاہانہ طرز زندگی کے لیے خطرہ سمجھتے تھے جس نے ان کے غیظ و غضب کو دو آتشہ کر دیا تھا۔ [93]

استبداد صغیر[ترمیم]

جون 1908 میں محمد علی شاہ قاجار کی بغاوت کے بعد باغ شاہ، تہران میں قید جمہوریت کے حامیوں کے بیڑیاں ڈالی گئیں۔

چھٹے قاجار شاہ محمد علی شاہ نے 1908 میں مولوی فضل اللہ نوری کی مدد اور روسی اور برطانوی حکومتوں کی حمایت سے آئین کو ختم کیا اور پارلیمنٹ پر روسی فضائیہ سے بمباری کرائی۔ شاہ کی بغاوت کی کامیابی اور پارلیمنٹ کی تحلیل کے بعد بہت سے ارکان قومی اسمبلی کو شاہ کی افواج نے گرفتار کر لیا۔ مرزا جہانگیر خان، ملک المتکلمین، مولانا سید جمال الدین واعظ، مرزا ابراہیم تبریزی، احمد روح القدوس اور قاضی اردقی کو گرفتار کرنے کے بعد تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور قتل کر دیا گیا۔

ایران کی معاصر تاریخ میں 23 جون 1908 کو محمد علی شاہ کے حکم پر پہلی پارلیمنٹ کی معطلی سے لے کر 16 جولائی 1909 کو شاہ کی معزولی تک کے دور کو "استبداد صغیر" کہا جاتا ہے۔ شاہ نے بغاوت سے لڑنے اور اسلام کا دفاع کرنے کی آڑ میں بار بار انتخابات میں تاخیر کی۔ محمد علی شاہ نے نجف میں مراجع تقلید کو خطوط لکھے، جن میں بابیوں اور کفار کی نام نہاد سازشوں کے خلاف ان سے حمایت کی درخواست کی۔ تاہم تینوں مراجع، آخوند خراسانی، مرزا تہرانی اور عبداللہ مازندرانی، نے جمہوریت کی توثیق کرتے ہوئے شاہ کو معاشرے کے حالات کو بہتر بنانے اور نوآبادیاتی اثر و رسوخ کے خلاف ملک کا دفاع کرنے کے لیے آئینی فریم ورک کے اندر کام کرنے کا مشورہ دیا۔ [103] دوسری طرف نوری نے بغاوت کا ساتھ دیا اور لوگوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ جمہوریت ناکام ہو چکی ہے اور اسلام کو بچانے کے لیے پارلیمنٹ کی بندش ضروری ہے۔ [104]

جمہوریت کی بحالی کی جدوجہد[ترمیم]

شیخ فضل اللہ نوری (متوفی 1909)، ایک مولوی جس نے 1908 میں محمد علی شاہ قاجار کی بغاوت کی حمایت کی۔ اسے عدالت نے شیخ ابراہیم زنجانی کی سربراہی میں سزائے موت سنائی۔[105] نوری کو 31 جولائی 1909 کو ( توپخانہ چوک میں) عوام کے قتل، لوٹ مار، پارلیمنٹ پر بمباری کی حمایت اور غداری کے جرم میں پھانسی دی گئی۔

آخوند خراسانی نے محمد علی شاہ کی بغاوت کا جواب دیتے ہوئے اس کو "سفاک جابر" قرار دیا اور لوگوں سے ٹیکس ادا کرنا بند کرنے اور ظالم سے لڑنے کو کہا۔ [106] ایک بیان میں، جس پر دوسرے دو فقہا نے بھی دستخط کیے، انھوں نے کہا:

فارسی:

به عموم ملت ایران، حکم خدا را اعلام می داریم، الیوم همت در دفع این سفاک جبار، و دفاع از نفوس و اعراض و اموال مسلمین از اهم واجبات، و دادن مالیات به گماشتگان او از اعظم محرمات، و بذل جهد و سعی بر استقرار مشروطیت به منزله جہاد در رکاب امام زمان ارواحنا فداه، و سر موئی مخالفت و مسامحه به منزله خذلان و محاربه با آن حضرت صلوات الله و سلامه علیه است. اعاذ الله المسلمین من ذلک. ان شا الله تعالیٰ

الاحقر عبدالله المازندرانی، الاحقر محمد کاظم الخراسانی، الاحقر نجل الحاج میرزا خلیل [107]

"ایرانی قوم کی شرعی ذمہ داری یہ ہے: آج اس ظالم غاصب کو نیست و نابود کرنے کی کوشش کرنا اور مسلمانوں کی جان، مال اور عزت کی حفاظت کرنا سب سے بڑا واجب ہے۔ اس حکومت کے افسروں کو ٹیکس دینا گناہ کبیرہ ہے۔ جمہوریت کی بحالی کے لیے کام کرنا اتنا ہی اچھا ہے جتنا امام مہدی کے مقصد کے لیے لڑنا اور آئین کی مخالفت کرنا ان کے لشکر سے نکل جانے کے مترادف ہے۔ خدا ہم سب کی مدد کرے۔"
- مرزا حسین تہرانی، محمد کاظم خراسانی، عبد اللہ مازندرانی۔

16 جولائی 1909 کو شاہ کو معزول کر دیا گیا اور جمہوریت بحال ہوئی۔

وفات[ترمیم]

آخوند خراسانی نے 1911 میں برطانوی اور روسی حملے کے خلاف عوام کی مزاحمت کی حمایت کرنے کے لیے عراق چھوڑ کر ایران کی طرف سفر شروع کیا تھا راستے میں فالج کے حملے سے ان کی موت واقع ہو گئی۔ آپ نجف میں دفن ہوئے۔ [108]

ورثہ[ترمیم]

انھوں نے بہت سی کتابیں تصنیف کیں اور جدید دور میں سیکولر جمہوریت کا اسلامی تصور پیش کیا۔ [109]

ان کے ممتاز شاگردوں میں آیت اللہ محسن علاء المحدثین، آیت الله حسین بروجردی، آیت اللہ مرزا حسین نائینی، آیت الله مرزا ابو الحسن اصفہانی، آیت الله سید محسن الحکیم، آیت اللہ محمد حسین غروی، آقا ضیاء الدین عراقی، آقا نجفی قوچانی، آقا بزرگ تہرانی، سید محمد تقی فخر داعی گیلانی اور قم کے حوزے کے بانی آیت اللہ عبد الکریم حائری یزدی وغیرہ شامل ہیں۔

حوالہ جات[ترمیم]

  1. Identifiants et Référentiels — اخذ شدہ بتاریخ: 4 مئی 2020
  2. Farzaneh, Mateo Mohammad (2015). “The Iranian Constitutional Revolution and the Clerical Leadership of Khurasani. Syracuse, New York: Syracuse University Press. pp. 119-190. ISBN 978-0-8156-5311-0.
  3. Hermann, Denis (1 May 2013). “Akhund Khurasani and the Iranian Constitutional Movement”. Middle Eastern Studies. 49 (3): pp. 430–453. doi:10.1080/00263206.2013.783828. ISSN 0026-3206.
  4. ^ ا ب پ Hairi, A.; Murata, S. (1984). "AḴŪND ḴORĀSĀNĪ", 2011. Encyclopædia Irannica.
  5. ^ ا ب Hermann 2013, pp. 431.
  6. Hermann 2013, pp. 435.
  7. Farzaneh 2015, pp. 159–162.
  8. Mohammad Hashim Kamali، Tariq Ramadan (2015)۔ The Middle Path of Moderation in Islam: The Quranic Principle of Wasatiyyah (بزبان انگریزی)۔ اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس۔ صفحہ: 109۔ ISBN 9780190226831۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 نومبر 2016 
  9. Farzaneh 2015, pp. 122.
  10. Meir Litvak (2 May 2002)۔ Shi'i Scholars of Nineteenth-Century Iraq: The 'Ulama' of Najaf and Karbala' (بزبان انگریزی)۔ Cambridge University Press۔ صفحہ: 92۔ ISBN 9780521892964۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 نومبر 2016 
  11. ^ ا ب Farzaneh 2015, pp. 123.
  12. Farzaneh 2015, pp. 130.
  13. Hermann 2013, pp. 432.
  14. ”سیاست نامہ خراسانی“، تدوین: محسن کدیور، صفحات 214،215، طبع دوم، تہران، سنہ 2008ء۔
  15. آخوند خراسانی، حاشیة المکاسب، ص 92 تا 96، وزارت ثقافت وارشاد اسلامی، تہران، 1406 ہجری قمری
  16. ”سیاست نامہ خراسانی“، تدوین: محسن کدیور، صفحہ 226، طبع دوم، تہران، سنہ 2008ء۔
  17. ”سیاست نامہ خراسانی“، تدوین: محسن کدیور، صفحات 169 تا 180، طبع دوم، تہران، سنہ 2008ء۔
  18. ”سیاست نامہ خراسانی“، تدوین: محسن کدیور، صفحہ 274، طبع دوم، تہران، سنہ 2008ء۔
  19. Farzaneh 2015, pp. 119.
  20. ^ ا ب پ ت ٹ Farzaneh 2015, pp. 120.
  21. Roy Mottahedeh (18 October 2014)۔ The Mantle of the Prophet (بزبان انگریزی)۔ Oneworld Publications۔ صفحہ: 218–219۔ ISBN 9781780747385۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 نومبر 2016 
  22. ^ ا ب Farzaneh 2015, pp. 121.
  23. Farzaneh 2015, pp. 126.
  24. Farzaneh 2015, pp. 128–130.
  25. Farzaneh 2015, pp. 144.
  26. Farzaneh 2015, pp. 145.
  27. Farzaneh 2015, pp. 148.
  28. ^ ا ب پ Farzaneh 2015, pp. 147.
  29. Farzaneh 2015, pp. 149.
  30. Farzaneh 2015, pp. 142.
  31. Farzaneh 2015, pp. 171.
  32. Farzaneh 2015, pp. 143.
  33. Lesley Hustinx، Johan Von Essen، Jacques Haers، Sara Mels (17 July 2014)۔ Religion and Volunteering: Complex, contested and ambiguous relationships (بزبان انگریزی)۔ Springer۔ صفحہ: 73۔ ISBN 9783319045856۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 نومبر 2016 
  34. Lars-Erik Cederman (1997)۔ Emergent Actors in World Politics: How States and Nations Develop and Dissolve۔ 39۔ مطبع جامعہ پرنسٹن۔ صفحہ: 19۔ ISBN 978-0-691-02148-5۔ JSTOR j.ctv1416488۔ When the state and the nation coincide territorially and demographically, the resulting unit is a nation-state. 
  35. Rogers Brubaker (1992)۔ Citizenship and Nationhood in France and Germany (بزبان انگریزی)۔ Harvard University Press۔ صفحہ: 28۔ ISBN 978-0-674-25299-8۔ A state is a nation-state in this minimal sense insofar as it claims (and is understood) to be a nation's state: the state 'of' and 'for' a particular, distinctive, bounded nation. 
  36. Michael Hechter (2000)۔ Containing Nationalism (بزبان انگریزی)۔ اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس۔ ISBN 978-0-19-829742-0 
  37. Ernest Gellner (2008)۔ Nations and Nationalism (بزبان انگریزی)۔ Cornell University Press۔ ISBN 978-0-8014-7500-9 
  38. ^ ا ب Farzaneh 2015, pp. 131.
  39. ^ ا ب Farzaneh 2015, pp. 156.
  40. Kadivar 2008, p. 159, 160.
  41. ^ ا ب Farzaneh 2015, pp. 155.
  42. Farzaneh 2015, pp. 157–159.
  43. Farzaneh 2015, pp. 152.
  44. Farzaneh 2015, pp. 159.
  45. ^ ا ب Farzaneh 2015, pp. 160.
  46. Farzaneh 2015, pp. 161.
  47. Farzaneh 2015, pp. 162.
  48. محسن کدیور، ”سیاست نامہ خراسانی“، ص 214-215، طبع دوم، تہران سنہ 2008ء
  49. Hermann 2013, pp. 434.
  50. اکبر ثبوت، "دیدگاه‌های آخوند خراسانی و شاگردانش"، فصل اول، تہران، (1972)
  51. Farzaneh 2015, pp. 220.
  52. آخوند خراسانی، حاشیة المکاسب، ص 92 تا 96، وزارت ثقافت وارشاد اسلامی، تہران، 1406 ہجری قمری
  53. Hermann 2013, pp. 436.
  54. اکبر ثبوت، "دیدگاه‌های آخوند خراسانی و شاگردانش"، فصل اول، تہران، (1972)
  55. Farzaneh 2015, pp. 166.
  56. ^ ا ب Farzaneh 2015, pp. 167.
  57. Caroleen Marji Sayej (2018)۔ Patriotic Ayatollahs: Nationalism in Post-Saddam Iraq۔ Ithaca, NY: Cornell University Press۔ صفحہ: 67۔ ISBN 9781501714856۔ doi:10.7591/cornell/9781501715211.001.0001۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 اپریل 2022۔ Islam is the religion of the majority of Iraqis. If the constitution is written by the persons elected by the Iraqi people, it would then represent Islamic values and its tolerant teachings. 
  58. Farzaneh 2015, pp. 168.
  59. اکبر ثبوت، "دیدگاه‌های آخوند خراسانی و شاگردانش"، فصل اول، تہران، 1972ء
  60. Michael Mann (2004)۔ The Dark Side of Democracy: Explaining Ethnic Cleansing۔ Cambridge: Cambridge University Press۔ ISBN 978-0-521-53854-1 
  61. Saba Mahmoood (2015)۔ Religious Difference in a Secular Age (بزبان انگریزی)۔ New Jersey: مطبع جامعہ پرنسٹن۔ ISBN 978-1-4008-7353-1 
  62. ^ ا ب Farzaneh 2015, pp. 127.
  63. Hermann 2013, pp. 438.
  64. Kadivar 2008, p. 226.
  65. Sayej 2018, pp. 107.
  66. Sayej 2018, p. 51 "Legitimacy would be achieved when the political formation happened at the “will of all ethnicities and sects of the Iraqi people.”.
  67. Nicolas Pirsoul, “Sectarianism and Recognition in Iraq”, Democratic Theory, (2019).
  68. Sayej 2018, pp. 115.
  69. Farzaneh 2015, pp. 181–182.
  70. "Boycott of British Goods in India. (Hansard, 25 March 1907)"۔ api.parliament.uk۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 اپریل 2022 
  71. ^ ا ب پ Hermann 2013, pp. 442.
  72. Kadivar 2008, p. 191.
  73. ^ ا ب Farzaneh 2015, pp. 178.
  74. Kadivar 2008, p. 213.
  75. Sayej 2018, p. 67 "Sistani clarified that Shiite needs were the 'same as those of all Iraqis,' which included the 'fulfillment of their rights without sectarian discrimination.' He did not support the formation of any militia, not even for the protection of holy sites. He issued dozens of fatwas and statements that declared all militias illegal."عربی متن=لسنا مع تشکل مثل هذه المیلیشیات، و تاکیدنا علی دعم القوۃ الوطنیۃ العراقیۃ. حوالہ: حامد الخفاف، "النصوص الصادرہ"، صفحہ 71، 51۔.
  76. ^ ا ب Farzaneh 2015, pp. 132.
  77. Farzaneh 2015, pp. 133.
  78. Farzaneh 2015, pp. 151.
  79. Farzaneh 2015, pp. 154.
  80. Farzaneh 2015, pp. 158.
  81. William L. Cleveland، Martin Bunton (2013)۔ A history of the modern Middle East (Fifth ایڈیشن)۔ Boulder, CO: Westview Press۔ صفحہ: 132۔ ISBN 9780813348339 
  82. ^ ا ب Farzaneh 2015, pp. 173–174.
  83. Bayat, Mangol (1991). “Iran's First Revolution: Shi'ism and the Constitutional Revolution of 1905-1909”. Studies in Middle Eastern History. Oxford, New York: Oxford University Press. p. 181. ISBN 978-0-19-506822-1.
  84. محسن کدیور، ”سیاست نامہ خراسانی“، ص169، طبع دوم، تہران سنہ 2008ء
  85. Mangol Bayat (1991)۔ Iran's First Revolution: Shi'ism and the Constitutional Revolution of 1905-1909۔ Studies in Middle Eastern History۔ Oxford, New York: اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس۔ صفحہ: 181۔ ISBN 978-0-19-506822-1 
  86. Mangol 1991, pp. 181.
  87. Farzaneh 2015, pp. 196.
  88. Farzaneh 2015, pp. 197.
  89. Farzaneh 2015, pp. 198.
  90. Farzaneh 2015, pp. 199.
  91. Farzaneh 2015, pp. 193.
  92. ^ ا ب Farzaneh 2015, pp. 205.
  93. Mangol 1991, pp. 182.
  94. Farzaneh 2015, pp. 212.
  95. محسن کدیور، ”سیاست نامہ خراسانی“، ص177، طبع دوم، تہران سنہ 2008ء
  96. Hermann 2013, pp. 437.
  97. محسن کدیور، ”سیاست نامہ خراسانی“، ص١٨٠، طبع دوم، تہران سنہ 2008ء
  98. Farzaneh 2015, pp. 203.
  99. Farzaneh 2015, pp. 200.
  100. Farzaneh 2015, pp. 201.
  101. Farzaneh 2015, pp. 204.
  102. Mangol 1991, pp. 232.
  103. Farzaneh 2015, pp. 213.
  104. Hermann 2013, p. 440.
  105. Hermann 2013, pp. 446.
  106. محسن کدیور، ”سیاست نامہ خراسانی“، ص 210، طبع دوم، تہران سنہ 2008ء
  107. Farzaneh 2015, pp. 235.

مزید دیکھیے[ترمیم]

کتابیات[ترمیم]