نظام الدین اعظمی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

نظام الدین اعظمی
مفتیِ دار العلوم دیوبند
برسر منصب
1965ء تا 26 فروری 2000ء
صدر مفتی دار العلوم دیوبند
برسر منصب
1996ء تا 2000ء
پیشرومحمود حسن گنگوہی
ذاتی
پیدائشنومبر 1910ء
اُوندرا، سپاہ مدھوبن، ضلع اعظم گڑھ، صوبجات متحدہ، برطانوی ہند
وفات26 فروری 2000(2000-20-26) (عمر  89 سال)
دیوبند، ضلع سہارنپور، اترپردیش
مدفنقاسمی قبرستان
مذہباسلام
قومیتہندوستانی
مدرسہ
بنیادی دلچسپیحدیث، فقہ، تفسیر قرآن
قابل ذکر کامنظام الفتاوی، فتاویٰ نظامیہ اُوندراویہ، منتخبات نظام الفتاوی
اساتذہشکر اللہ مبارک پوری، حسین احمد مدنی، اصغر حسین دیوبندی، اعزاز علی امروہوی، محمد ابراہیم بلیاوی، محمد شفیع عثمانی
مرتبہ

نظام الدین اعظمی (نومبر 1910ء - 26 فروری 2000ء) ایک ہندوستانی دیوبندی عالم، فقیہ، مفتی اور مصنف تھے، جنھوں نے دار العلوم مئو اور دار العلوم دیوبند سمیت متعدد مدارس میں تقریباً 68 سال تدریسی خدمات انجام دیں اور تدریس کے ساتھ مذکورۂ بالا مدرسوں میں سے اول الذکر میں 25 سال اور ثانی الذکر میں 35 سال مفتی کی حیثیت سے فتویٰ نویسی کی خدمات انجام دیں۔

ابتدائی و تعلیمی زندگی[ترمیم]

اعظمی ذی قعدہ 1328ھ بہ مطابق نومبر 1910ء کو اُوندرا، ضلع اعظم گڑھ (موجودہ ضلع مئو) میں پیدا ہوئے تھے۔[1] ان کے والد محمد رفیع علاقے کے زمین دار شخص تھے،[2] چھ پشت سے اعظمی سے قبل خاندان میں کوئی رسمی عالم دین نہ تھا۔[3] دس سال کی عمر میں پرائمری درجہ چہارم پاس کرنے کے بعد عربی فارسی تعلیم کی طرف راغب ہوئے۔[1] اعظمی نے گورکھپور میں چھ ماہ ناظرۂ قرآن پڑھا، پھر کچھ وقفہ کے بعد 1342ھ (م 1924ء) کو احیاء العلوم مبارک پور میں داخلہ کروایا گیا اور وہاں بقدرِ ضرورت اردو اور دو سال میں فارسی مکمل کروا کر ان کی عربی کی تعلیم شروع کروا دی گئی، جہاں ان کے اساتذہ میں نعمت اللہ مبارک پوری اور شکر اللہ مبارک پوری شامل تھے۔[1] اسی دوران میں اشرف علی تھانوی کے خلیفہ و مجاز شاہ وصی اللہ الہ آبادی بحیثیت مدرس احیاء العلوم آئے تو اعظمی نے ان سے غیر معمولی استفادہ کیا۔[2][1] چند سال احیاء العلوم میں رہنے کے بعد مدرسہ عزیزیہ بہار شریف، ضلع پٹنہ (موجودہ ضلع نالندہ) میں تین سال، پھر مدرسہ عالیہ فتح پوری دہلی میں متوسط درجات تک کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد دار العلوم دیوبند تشریف لے گئے اور 1352ھ (بہ مطابق 1933ء) کو دورۂ حدیث سے فارغ ہوئے۔[1] حسین احمد مدنی سے انھوں نے صحیح بخاری پڑھی، ان کے دیگر اساتذۂ حدیث میں اصغر حسین دیوبندی، اعزاز علی امروہوی اور محمد ابراہیم بلیاوی شامل تھے۔[4] مرغوب الرحمن بجنوری ان کے شریکِ دورۂ حدیث تھے۔[5] دورۂ حدیث سے فراغت کے بعد دار العلوم ہی میں رہ کر علوم و فنون کی کتابیں بھی پڑھیں، نبیہ حسن دیوبندی سے ہیئت و ہندسہ کی کتابیں پڑھی تھیں۔[1] علوم و فنون کی تکمیل کے دوران ہی میں فتویٰ نویسی کی مشق محمد شفیع عثمانی سے کیا کرتے تھے۔[4] نیز فتویٰ نویسی کی خصوصی تربیت انھیں اپنے استاذ و شیخ شاہ وصی اللہ الہ آبادی سے بھی ملی۔[6]

احیاء العلوم ہی کے زمانے سے اعظمی کا قلبی تار شاہ وصی اللہ الہ آبادی سے جڑ گیا تھا، پھر بیعت و سلوک کے منازل طے کرنے کے بعد دار العلوم مئو کے زمانۂ تدریس کے دوران میں ہی شاہ وصی اللہ کی طرف سے اجازتِ بیعت سے نوازے گئے۔[1]

تدریس و دیگر خدمات[ترمیم]

دار العلوم دیوبند میں دورۂ حدیث سے فراغت اور پھر علوم و فنون کی تکمیل کے بعد 5 سال مدرسہ جامع العلوم جین پور، ضلع اعظم گڑھ میں، پھر 3 سال مدرسہ جامع العلوم دھمال پور، گورکھپور میں تدریسی خدمات انجام دیں۔[1][2] پھر اپنے شیخ شاہ وصی اللہ الہ آبادی کے ایماء پر تقریباً 25 سال دار العلوم مئو میں بحیثیت مفتی و مدرس؛ فتویٰ نویسی و تدریس سے وابستہ رہے۔ حدیث، تفسیر اور فقہ کی بنیادی کتابیں بھی زیر درس رہیں۔[2] پھر 1385ھ (بہ مطابق 1965ء) کو قاری محمد طیب کے تقاضے اور اپنے شیخ شاہ وصی اللہ الہ آبادی کی ایماء پر دار العلوم دیوبند آئے اور اس وقت سے تاوفات 35 سال مفتی کے منصب پر فائز رہے،[7] فتویٰ نویسی کے ساتھ ساتھ افتا کے طلبہ کی سراجی، قواعد الفقہ اور الأشباہ و النظائر جیسی کتابیں بھی ان کے زیرِ درس رہیں اور طلبۂ افتاء کی تمریناتِ فتاویٰ کی نظر ثانی بھی فرماتے تھے۔[2] محمود حسن گنگوہی کے بعد تاوفات دار الافتاء دار العلوم دیوبند کے ذمے دار و صدر مفتی رہے۔[8] رابطہ عالم اسلامی، مکہ مکرمہ کی شاخ مجمع فقہ اسلامی کے پانچویں اجلاس منعقدہ 8 ربیع الثانی تا 16 ربیع الثانی 1403ھ میں اعظمی کو رابطۂ عالم اسلامی کا رکنِ مراسل نامزد کیا گیا تھا، جس کے بعد تاحیات وہ رابطہ کے رکن مراسل رہے۔[4][9] علمائے دیوبند میں جدید فقہی مسائل کے شرعی حل میں اشرف علی تھانوی کے بعد اعظمی کی بھی نمایاں خدمات رہی ہیں۔[8]

تلامذہ[ترمیم]

اعظمی کے مشہور تلامذہ میں عبد الحق اعظمی، قاضی مجاہد الاسلام قاسمی، نظام الدین اسیر ادروی، نذیر احمد قاسمی، قمر الدین گورکھپوری، قمر الزماں الہ آبادی، قاری محمد مبین خلیفہ شاہ وصی اللہ الہ آبادی، خالد سیف اللہ رحمانی، حبیب اللہ قاسمی صدر مفتی دار العلوم مہذب پور، اعظم گڑھ، عبید اللہ اسعدی صدر مفتی جامعہ عربیہ ہتھورا باندہ، انیس الرحمن قاسمی رکن تاسیسی اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا، محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ، شبیر احمد قاسمی صدر مفتی جامعہ قاسمیہ مدرسہ شاہی، محمد جنید عالم قاسمی صدر مفتی امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ، محمد اسلام قاسمی استاذ حدیث دار العلوم وقف دیوبند، محمد طاہر قاسمی غازی آبادی صدر مفتی مظاہر علوم جدید سہارنپور، محمد سلمان منصور پوری صاحبِ ”کتاب النوازل“ اور اشتیاق احمد دربھنگوی بھی شامل ہیں۔[10][9][6][4][11]

تحفظ دین کے تئیں اہم پیغام[ترمیم]

امت کی اخروی خیر خواہی کا جذبہ دل میں موجزن تھا، صاحبِ مجموعۂ فتاویٰ ”کتاب النوازل“ محمد سلمان منصور پوری لکھتے ہیں:[11]

اخیر عمر میں آپ ایک بات پر بہت زور دیتے تھے اور ایک تحریک کی شکل میں اسے انجام دینے کی طرف توجہ دلاتے تھے، وہ یہ کہ اس وقت ہندوستان میں اردو مٹ رہی ہے اور ہندی غالب آتی جارہی ہے اور ہمارا سارا دینی سرمایہ ابھی تک زیادہ تر اردو زبان میں ہے۔ اگر اردو بالکل مٹ گئی تو نئی نسل دین سے بالکل محروم ہو جاۓ گی، اس لیے ..... علماء کو لگ لپٹ کر کسی بھی طرح اپنا دینی سرمایہ فوری طور پر ہندی رسم الخط میں منتقل کر دینا چاہیے؛ تاکہ آنے والی نسل دین سے بے بہرہ نہ رہیں، ہم نے دیکھا کہ آخری دور میں آپ پر اس تحریک کا حال طاری تھا اور ہر آنے والے سے اس کا تذکرہ فرماتے تھے۔[11]

قلمی خدمات[ترمیم]

اعظمی نے بحیثیت مفتی دار العلوم دیوبند کے زمانۂ قیام میں تقریباً 75 ہزار استفتاء کے جوابات لکھے، جو دار العلوم کی ریکارڈ میں کلاں سائز کے 125 ضخیم رجسٹروں میں منقول و محفوظ ہیں، جن میں سے اہم ترین فتاویٰ کی الگ رجسٹر بنائی گئی ہے۔[2][12] اس کے علاوہ بھی ان کے اکثر اہم فتاویٰ ماہنامہ دار العلوم دیوبند جیسے رسالے میں شائع ہوتے رہتے تھے،[2][13][14] بعض اہم فتاویٰ کو خود انھوں نے کتابی شکل دے کر دو جلدوں میں شائع کیا تھا، جس کو ان کے قابل فخر شاگرد قاضی مجاہد الاسلام قاسمی نے اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کے زیر اہتمام مزید تحقیق و تحشیہ کے ساتھ شائع کیا تھا اور اب تک مزید اضافے کے ساتھ اکیڈمی کے زیر اہتمام اس کی چھ جلدیں منظر عام پر آ چکی ہیں،[2][12][15] فتاویٰ کے علاوہ اعظمی کی دیگر قلمی خدمات میں عبد الحق محدث دہلوی کی فقہ حنفی پر مدلل کتاب فتح الرحمٰن فی اثبات مذہب النعمان کی تحقیق و بازیافت ہے۔[16] اعظمی کی تصانیف کے نام مندرجۂ ذیل ہیں:[4][12][9]

  • فتاویٰ اُوندراویہ (دو جلدیں)
  • منتخباتِ نظام الفتاویٰ (چھ جلدیں)
  • نظام الفتاویٰ (سات جلدیں)
  • أنوار السنة لرُوّاد الجنة المعروف بفتح الرحمٰن لإثبات مذهب النعمان (تین جلدیں؛ عبد الحق محدث دہلوی کی مخطوطہ کتاب کی تحقیق و اشاعت؛ نسخوں میں فرق کے بیان کے ساتھ)
  • اقسام الحدیث فی اصول التحدیث (عربی)
  • اصول حدیث اردو
  • آسان علم صرف جزء اول (اردو میزان کے نام سے معروف ہے)
  • آسان علم صرف جزء ثانی (اردو منشعب کے نام سے معروف ہے)
  • آسان علم النحو (اردو نحو میر کے نام سے معروف ہے)
  • آسان علم النحو عربی (معلم سواد خانی کے نام سے معروف ہے)
  • رؤیت ہلال کی شرعی حیثیت
  • سراج الوارثین شرح اردو سراجی
  • مزایا امام اعظم (خصوصیات امام اعظم)
  • کرامات سرخیل جماعت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی
  • کمالات وصی اللہی
  • ارتداد بارد کا سیلاب اور اس کا دفاع

وفات و پسماندگان[ترمیم]

اعظمی کا انتقال 20 ذی قعدہ 1420ھ بہ مطابق 26 فروری 2000ء کو تقریباً رات دس بجے دیوبند میں ہوا، نماز جنازہ اگلے دن صبح عبد الحق اعظمی کی اقتدا میں ادا کی گئی اور قاسمی قبرستان میں تدفین عمل میں آئی۔[11][4] پسماندگان میں اہلیہ اور تین بیٹیوں کے علاوہ تین بیٹے قیام الدین، حسام الدین اور اسلام الدین بھی شامل ہیں۔[6][17]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ^ ا ب پ ت ٹ ث ج چ نظام الدین اعظمی۔ "چند باتیں کتاب اور صاحب کتاب کے بارے میں از مفتی عبد القیوم قاسمی"۔ منتخبات نظام الفتاویٰ (مارچ 2013ء ایڈیشن)۔ نئی دہلی: ایفا پبلیکیشنز۔ صفحہ: ط–ع 
  2. ^ ا ب پ ت ٹ ث ج چ خورشید حسن قاسمی دیوبندی۔ "حضرت مولانا مفتی نظام الدین صاحب قدس سرہ"۔ دار العلوم اور دیوبند کی تاریخی شخصیات (1424ھ م 2003ء ایڈیشن)۔ دیوبند: مکتبہ تفسیر القرآن۔ صفحہ: 46–50 
  3. محمد نعمان انور اعظمی۔ "مفتی نظام الدین اعظمی"۔ تذکرہ علمائے مئو (اکتوبر 2019ء ایڈیشن)۔ صدر بازار، مئوناتھ بھنجن: مکتبہ نعیمیہ۔ صفحہ: 192-193 
  4. ^ ا ب پ ت ٹ ث خلیل الرحمن قاسمی برنی۔ "تذکرہ حضرت مولانا مفتی نظام الدین صاحب"۔ قافلۂ علم و کمال (1438ھ ایڈیشن)۔ بنگلور: ادارۂ علمی مرکز۔ صفحہ: 115 - 140 
  5. مولانا طیب قاسمی ہردوئی۔ دار العلوم ڈائری لیل و نہار: فیضانِ شیخ الاسلام نمبر (2015ء ایڈیشن)۔ دیوبند: ادارہ پیغامِ محمود۔ دیوبند میں محمود اسعد مدنی کے گھر کے سامنے مدنی مارکیٹ میں ہردوئی کے رہنے والے اخبار فروش اور سابقہ ماہنامہ پیغام محمود کے مدیر محمد طیب قاسمی نے مرغوب الرحمن بجنوری کے زمانۂ اہتمام میں ان کی اجازت سے دار العلوم دیوبند سے فضلائے دار العلوم دیوبند کا ریکارڈ حاصل کیا تھا اور اسی کو ترتیب دے کر اپنے ادارے ادارہ پیغام محمود سے سلسلہ وار تلامذہ کی فہرست شائع کی اور 2015ء میں تلامذۂ شیخ الاسلام نمبر کو فیضان شیخ الاسلام کے نام سے شائع کیا، جس میں نظام الدین اعظمی اور مرغوب الرحمن بجنوری کا سن فراغت 1352ھ لکھا ہوا ہے۔ 
  6. ^ ا ب پ محمد اسلام قاسمی۔ "حضرت مفتی نظام الدین صاحب"۔ درخشاں ستارے (اکتوبر 2019ء ایڈیشن)۔ دیوبند: مکتبۃ النور۔ صفحہ: 150-152 
  7. اعجاز احمد اعظمی۔ کھوئے ہوؤں کی جستجو (جنوری 2007ء ایڈیشن)۔ خیرآباد، ضلع مئو: مکتبہ ضیاء الکتب۔ صفحہ: 443–445 
  8. ^ ا ب آفتاب غازی قاسمی، عبد الحسیب قاسمی۔ "مفتی نظام الدین اعظمی"۔ فضلائے دیوبند کی فقہی خدمات (فروری 2011ء ایڈیشن)۔ دیوبند: کتب خانہ نعیمیہ۔ صفحہ: 142، 120، 305-309 
  9. ^ ا ب پ محمد سلمان بجنوری، مدیر (شوال 1439ہجری مطابق جولائی 2018ء)۔ "حضرت مفتی محمد نظام الدین اعظمیؒ مفتی اعظم دارالعلوم دیوبند یادیں اور باتیں از ڈاکٹر مفتی اشتیاق احمد قاسمی"۔ ماہنامہ دار العلوم۔ دیوبند: مکتبہ دار العلوم۔ 102 (7): 18-27 
  10. آفتاب غازی قاسمی، عبد الحسیب قاسمی۔ فضلائے دیوبند کی فقہی خدمات (فروری 2011ء ایڈیشن)۔ دیوبند: کتب خانہ نعیمیہ۔ صفحہ: 383-433 (مختلف صفحات میں) 
  11. ^ ا ب پ ت محمد سلمان منصورپوری۔ "ایک چراغ اور بجھا..... مفتی نظام الدین اعظمی جوار رحمت میں"۔ ذکر رفتگاں۔ 1 (اپریل 2020ء ایڈیشن)۔ لال باغ، مراد آباد: المرکز العلمی للنشر و التحقیق۔ صفحہ: 16-17 
  12. ^ ا ب پ محمد اللہ خلیلی قاسمی۔ "حضرت مفتی نظام الدین اعظمی"، "صدر مفتیان دار الافتاء"۔ دار العلوم دیوبند کی جامع و مختصر تاریخ (اکتوبر 2020ء ایڈیشن)۔ دار العلوم دیوبند: شیخ الہند اکیڈمی۔ صفحہ: 655–656، 770 
  13. محمد عارف جمیل مبارکپوری (1442ھ م 2021ء)۔ "١١١٨-الأعظمي"۔ موسوعة علماء ديوبند (بزبان عربی) (پہلا ایڈیشن)۔ دیوبند: شیخ الہند اکیڈمی۔ صفحہ: 485 
  14. سید محبوب رضوی (1994ء)۔ "مولانا مفتی نظام الدین"۔ تاریخ دار العلوم (دوسرا ایڈیشن)۔ دار العلوم دیوبند: ادارۂ اہتمام۔ صفحہ: 259–260 
  15. شبیر احمد قاسمی۔ "منتخبات نظام الفتاویٰ"۔ فتاویٰ قاسمیہ (1424ھ م 2003ء ایڈیشن)۔ دیوبند: مکتبہ اشرفیہ۔ صفحہ: 46–50 
  16. محمد نواز (پی ایچ ڈی ریسرچ اسکالر، شعبہ اسلامیات، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی، اسلام آباد)، حافظ فرید الدین (پی ایچ ڈی ریسرچ اسکالر، شعبہ اسلامیات، اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور)، مدیران (جولائی-دسمبر 2021ء)۔ ""فتح الرحمن فی اثبات مذہب النعمان" کا تحقیقی و تجزیاتی مطالعہ"۔ ششماہی تحقیقی مجلہ الامیر۔ بہاولپور، پاکستان: ملک یار محمد ریسرچ سینٹر۔ 2 (2) 
  17. محمد عاصم کمال قاسمی الاعظمی، مدیر (ذی القعدہ/ذی الحجہ 1440ھ مطابق جولائی/اگست 2019ء)۔ "مفتی نظام الدین اعظمی: حیات اور کارنامے از عاقب انجم عافی"۔ دو ماہی رسالہ پاسبان۔ روڈ ویز لال گنج، اعظم گڑھ: ادارہ پاسبان علم و ادب۔ 2 (5)