کشف الدجی بجمالہ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
کشف الدجی بجمالہ
مصنف خورشید ناظر
زبان اردو
اصل زبان اردو
ناشر اردو مجلس بہاولپور
تاریخ اشاعت 2021ء
پیش کش
صفحات 254

کشف الدجی بجمالہ اردو زبان میں آزاد نظم کی ہیئت میں لکھی جانے والی اولین سیرت پاک کی کتاب ہے۔

کتاب کا عمومی انداز[ترمیم]

کشف الدجی بجمالہ بصورت آزاد نظم سیرت پاک ایک طویل نظم کی صورت میں لکھی گئی لیکن پھر اس خیال سے کہ قاری کے لیے آسانی پیدا کی جائے۔ اور طویل نظم سے کوئی حصہ تلاش کرنے کے لیے کہ اس نظم کو کئی مختصر وطویل بندوں کی شکل دے دی گئی اور ہر بند میں شامل واقعات کو کتاب کے اس حصے میں شامل کر دیا گیا جہاں عام طور پر کتاب کی فہرست موضوعات، ابواب یا عنوانات شامل کی جاتی ہے۔

مصنف[ترمیم]

یہ کتاب خورشید ناظر کا کلام ہے۔ شاعر کا اصل نام خورشید احمد ہے اور تخلص ’’ناظر‘‘ ہے۔یہ واحد سیرت نگار ہیں جو سیرت النبی کے موضوع پر دو منظوم(منظوم اور آزاد نظم) کتابوں کے مصنف ہیں۔[1] کتاب 2021ء میں اردو مجلس بہاولپورسے طبع ہوئی ہے۔ کشف الدجی بجمالہ' 254صفحات پر مشتمل ہے۔

بحر ہزج[ترمیم]

سیرت حضور ختمی مرتبت ﷺ بعنوان " کشف الدجی بجمالہ“ آزاد نظم میں بحر ہزج(وہ بحر جس میں صرف مَفَاعِیْلُن کے ارکان ہوں انھیں ’’بحر ہزج‘‘ کہتے ہیں، جس بحر میں مَفَاعِیْلُن چاربار ہو وہ شعرا کے نزدیک پسندیدہ بحر شمار ہوتی ہے ) میں ہی کہی ہے۔ پہلا شاہکار (بلغ العلی بکمالہ) پابند نظم کا پیرایۂ اظہار لیے ہوئے ہے جبکہ دوسرا آزاد نظم کا سلیقہ و قرینہ لیے ہوئے ہے۔ اس بحر کی بدولت ہر مصرع رواں دواں، برجستہ اور نغمہ بار ہو کر لطیف و شگفتہ اور موسیقی کا خوبصورت آہنگ لیے انتہائی عقیدت کے سانچے میں ڈھل گیا ہے۔ یہی وہ معجزہ کمال وفن ہے جو شاعر کو فصاحت و بلاغت سے بھر پورحسن بیاں کی بدولت ایک بلند مرتبہ شاعر کا مقام و مرتبہ عطا کرتا ہے۔

آزاد نظم[ترمیم]

کشف الدجی بجمالہ۔ سیرت خاتم النبیین پر کہی گئی ایک طویل نظم ہے نثری نظم اور آزاد نظم کے بارے میں کچھ لوگ جو اصناف ادب کا سرسری علم رکھتے ہیں، ان دونوں اصناف کے لیے اپنے جذبات کا عجیب انداز میں اظہار کرتے ہیں۔ آزاد نظم کے بارے میں عمومی رائے یہی ہے کہ یہ بے ترتیب سی سطروں اور طویل و مختصر مصرعوں سے مکمل کی جانے والی ایسی تحریر ہے جو شاعری کی مستحکم روایات سے بغاوت کے زیر اثر وجود میں آتی ہے بلکہ آزاد نظم کے خاص مہربانوں کا تو یہ خیال ہے کہ جب کوئی شاعر اعلیٰ روایات کی حامل اصناف شاعری میں اپنی ناکامی کا اپنی ہی ذات کے سامنے اعتراف کر لیتا ہے تو وہ آزاد نظم کے میدان میں بے جہت دوڑ کر اپنے اس عمل کو اپنے لیے کامیابی گرداننے لگاتا ہے۔ [2][3]

نمونہ کلام[ترمیم]

خورشید ناظر کشف الدجی بجمالہ کے صفحہ 23 پر جب کتاب کا آغاز کرتے ہیں تو یوں گویا ہوتا ہے:

  • تصور ہی تصور میں محمد ﷺ کا ہی جلوہ ہے
  • مرے دل میں انہی ﷺ کے پیار کا ہر دم اُجالا ہے
  • مری نظروں میں مکہ ہے
  • مدینہ ہے
  • کرم ہے یہ محمد کا
  • میسر اُن کی چاہت کا خزینہ ہے۔ [4]

تصانیف[ترمیم]

کشف الدجی بجمالہ کے علاوہ نعتیہ شاعری پر مشتمل اورتنقید پر کتابیں شائع ہو چکی ہیں

مزید دیکھیے[ترمیم]

خورشید ناظر لائبریری

حوالہ جات[ترمیم]

|belowclass = hlist

|below = |belowstyle = background:#f5f5f5; }}