سرائے ملک خانم

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
سرائے ملک خانم
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1341ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تیموری سلطنت   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 1405ء (63–64 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
سمرقند   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شریک حیات امیر تیمور   ویکی ڈیٹا پر (P26) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
خاندان بورجگین   ویکی ڈیٹا پر (P53) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
دیگر معلومات
پیشہ سیاست دان   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

سرائے ملک خانم (انگریزی: Saray Mulk Khanum) تیموری سلطنت کی ہمسر ملکہ تھی امیر تیمور کی سب سے بلند رتبہ ملکہ تھئ۔ امیر تیمور جسے تیمرلین دی گریٹ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، تیموری سلطنت کے ساتھ ساتھ تیموری خاندان کا بانی بھی تھا۔ [1][2][3] پیدائشی طور پر، وہ قازان خان ابن یاسور کی بیٹی کے طور پر مغولستان کی شہزادی تھیں اور چنگیز خان کی براہ راست اولاد میں سے تھی۔۔[4]

سرائے ملک خانم 1341ء میں مغولستان کی ایک شہزادی کے طور پر پیدا ہوئیں۔ اس کے والد قازان خان ابن یاسور، [5][6] خانیت چغتائی کے آخری خان تھے۔ سرائے ملک خانم کے دادا خان یاسور تھے، جو اس کے والد کے پیشرو تھے اور چغتائی خان کے پڑپوتے تھے۔ اس لیے وہ چنگیز خان، عظیم خاقان (شہنشاہ) اور منگول سلطنت کی بانی کی براہ راست اولاد تھیں۔ اس طرح سارے یوریشیا میں سب سے مشہور خاندانی قبیلہ بورجگین کی رکن تھی۔ [7] ایک خان کی بیٹی ہونے کے ناطے، سرائے نے پیدائشی طور پر خانم ("خان کی بیٹی یا شہزادی") کا لقب رکھا۔

تیمور سے شادی[ترمیم]

امیر تیمور سے اپنی شادی سے پہلے، سرائے ملک خانم کی شادی اس کے شوہر کے پیشرو، بلخ کے امیر حسین سے ہوئی تھی۔ جب 1370ء میں، تیمور نے شکست دی اور اس کے بعد بلخ کے محاصرے کے بعد حسین کو قتل کر دیا، تو اس نے اپنے پیشرو کے حرم (زنان خانہ) پر قبضہ کر لیا اور اس کی بیویوں کو اپنے پاس لے لیا، جن میں سے ایک سرائے ملک خانم تھی۔ سرائے ملک خانم، تیمور سے پانچ سال چھوٹی تھی اور اسے بہت خوبصورت کہا جاتا تھا، بعض اوقات اسے "سب سے زیادہ" خوبصورتی کے مالک کہا جاتا تھا۔ [8]

سرائے ملک خانم کی امیر تیمور سے کوئی اولاد نہیں تھی، [9] حالانکہ اسے بعض اوقات اپنے شوہر کے سب سے چھوٹے بیٹے شاہ رخ تیموری کی ماں بھی کہا جاتا ہے، جو دراصل ایک لونڈی سے پیدا ہوا تھا۔ یہاں تک کہ اگر سرائے ملک خانم کے شوہر کے ساتھ کوئی اولاد تھی تو وہ زندہ نہیں رہی، لیکن پھر بھی ان کی طاقت اور اثر و رسوخ کو دربار میں آنے والے غیر ملکی مہمانوں نے اچھی طرح سے نوٹ کیا۔

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. John Renard، مدیر (1998)۔ Windows on the House of Islam : Muslim Sources on Spirituality and Religious Life۔ University of California Press۔ صفحہ: 246۔ ISBN 978-0-520-21086-8 
  2. Ruby Lal (2005)۔ Domesticity and Power in the Early Mughal World۔ Cambridge University Press۔ صفحہ: 217۔ ISBN 0-521-85022-3 
  3. Marina Belozerskaya (2012)۔ Medusa's Gaze : the Extraordinary Journey of the Tazza Farnese۔ Oxford University Press۔ صفحہ: 99۔ ISBN 978-0-19-973931-8 
  4. Michael Shterenshis (2013)۔ Tamerlane and the Jews۔ Hoboken: Taylor and Francis۔ صفحہ: 28۔ ISBN 978-1-136-87366-9 
  5. Paul Lavern Hanson (1985)۔ Sovereignty and service relationships in the Timurid corporate dynasty under Babur: the continuing legacy of the Chingis Khanid political system (بزبان انگریزی)۔ Univ. of Chicago, Dept. of History۔ صفحہ: 72 
  6. Ernst J. Grube، Eleanor Sims (1980)۔ Colloquies on Art & Archaeology in Asia (بزبان انگریزی)۔ University of London, Percival David Foundation of Chinese Art, School of Oriental and African Studies۔ صفحہ: 53 
  7. Caroline Humphrey، Sneath, David (1999)۔ The End of Nomadism ? : Society, State and the Environment in Inner Asia۔ Duke University Press۔ صفحہ: 27۔ ISBN 978-0-8223-2140-8 
  8. Jonathan Tucker (2003)۔ The silk road : art and history۔ Philip Wilson Publishers۔ صفحہ: 261۔ ISBN 978-0-85667-546-1 
  9. Samuel Willard Crompton (1999)۔ 100 Military leaders Who Shaped World History۔ Bluewood Books۔ صفحہ: 43۔ ISBN 978-0-912517-33-9