سوات معاہدہ عدل

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

سوات معاہدہ عدل، پاکستان کے شمالی علاقے سوات میں تحریک طالبان پاکستان، تحریک نفاذ شریعت محمدی اور حکومت پاکستان کے درمیان مارچ 2009 میں ہونے والا ایک معاہدہ ہے جس کے تحت سوات میں شریعت کا نفاذ عمل میں لایا جانا ہے۔ اس معاہدہ سے نہ صرف سوات میں پیدا ہونے والی خانہ جنگی کی سی صورت حال کا خاتمہ ہو گیا ہے بلکہ حالات بھی تیزی سے معمول پر آ گئے ہیں۔ نفاذ شریعت کا مطالبہ سوات کے عوام کا درینہ مطالبہ رہا ہے۔

اعتراضات[ترمیم]

اس معاہدہ کو مغرب زدہ حلقوں اور خاص کر مغربی امداد پر پلنے والی ایک مشہور لسانی جماعت اور این جی اوز کی طرف سے تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ امریکا نے بھی اس پر تشویش ظاہر کی ہے۔ یہ کوئی نئی ہات نہیں دنیا کے کسی بھی خطہ میں شریعت نافذ کرنے کی بات امریکا کو کبھی ہضم نہیں ہوئی۔

قومی اسمبلی کی توثیق[ترمیم]

اگرچہ مارچ 2009 میں یہ معاہدہ عمل میں آچکا تھا لیکن صدر پاکستان آصف علی زرداری کی جانب سے اس پر دستخط کرنے کے معاملے کو جسٹس افتخارمحمدچوہدری والے معاملے کے طرح لٹکایا جا رہا تھا۔ بالآخر اس معاہدہ کو قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا جہاں اس کو سوائے متحدہ قومی موومنٹ کے سوا سب جماعتوں نے متفقہ طور پر منظور کر لیا۔ اب آصف علی زرداری کے پاس دستخط کرنے سے انکار کا کوئی مو‍قع نہ رہا اور دستخط کرنے ہی پڑے-

متحدہ قومی مومنٹ کا کردار[ترمیم]