کراچی بندرگاہ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
کراچی بندرگاہ کا ایک فضائی منظر۔ کچھ شہری علاقے بھی نظر آ رہے ہیں۔

کراچی بندرگاہ پاکستان کی سب سے بڑی اور مصروف ترین بندرگاہ ہے۔ یہاں سے سالانہ 2.5 کروڑ ٹن کے سامان کی تجارت ہوتی ہے، جو پاکستان کی کل تجارت کا تقریباً 60% ہے۔

بندرگاہ قدیم کراچی شہر کے مرکز کے قریب کیماڑی اور صدر کے علاقوں کے درمیان واقع ہے۔ اپنے جغرافیائی محل وقوع کے باعث یہ بندرگاہ اہم آبی گزرگاہوں مثلاً آبنائے ہرمز کے بالکل قریب واقع ہے۔ بندرگاہ کا انتظام ایک وفاقی ادارے کراچی پورٹ ٹرسٹ کے سپرد ہے۔ یہ ادارہ انیسویں صدی عیسوی میں برطانوی دور حکومت میں قائم کیا گیا تھا۔


کراچی اپنی قدیم بندرگاہ کے حوالے سے خلیج اورجنوبی ایشیا سمیت کئی اہم ملکوں اور خطوں کے لیے معاشی دروازہ ہے جس کے راستے پاکستان درآمدات وبرآمدات کا 60 فیصد مال اور سازوسامان ترسیل ہوتا ہے۔ یوں تو یہ بندرگاہ محدود پیمانے پر تالپوروں کے عہد سے بھی پہلے فعال تھی لیکن جب 1843ء میں انگریزوں نے ہند کے بعد سندھ پربھی اپنا تسلط جما لیا تو اس شہر اور اس کی قدیم بندرگاہ کی بھی قسمت جاگ اٹھی۔ اس تاریخی بندرگاہ کو ترقی دینے کے پیچھے انگریزوں کے مفادات کھلے راز کی طرح تھے ۔ انھوں نے یہاں سے گندم، روئی، تیل کے بیج،اون اور ہڈیوں اور دوسری اہم اشیاء اپنے ملک برآمد کرنے کے لیے اس فطری بندرگاہ کواس خطے کی قیمتی پیداوار کی نقل وحرکت اور ترسیل کے لیے اہم ذریعے کے طور پر استعمال کیا۔انگریزوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے زیرکمان یہاں مسلح افواج کے توسط سے اپنے پائوں سیدھے کر لیے تو انگریزوں نے اسے 1857ء میں ایک جدید بندرگاہ کی شکل دے دی۔ کراچی بندرگاہ کے بارے میں جاننے کے لیے تاریخ کے جھروکوں میں جھانکیں تو قدیم تذکروں میں سب سے پہلے عرب سیاح سلیمان ال مہری نے 1511ء میںاپنی سفرگزشت میں ’’راس الکراشی ‘‘کے عنوان سے اس تاریخی بندرگاہ کاتفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے۔وہ پسنی سے سمندر کے راستے کراچی آیا تھااور یہاں اس نے خاصا وقت گزارا۔ چند سال بعد ترک عثمانی کیپٹن سیدی علی رئیس نے اپنے سفر نامے ’’ملکوں کا آئینہ‘‘ میں تفصیل سے اس قدیم بندرگاہ کا ذکر کیا ہے اور بتایا ہے کہ کراچی کی یہ بندرگاہ کاروباری اعتبار سے اس زمانے میں بھی خاصی اہمیت کی حامل تھی۔1728ء میں یہ بندرگاہ طوفانی بارشوں کی بھینٹ چڑھ گئی تو اسے 1729ء میں ازسرنو تعمیر کیا گیا اور اسے کولاچی بندرگاہ کا نام دیا گیا۔ یوں تو تالپوروں کے دور 1820ء میں بھی یہ بندرگاہ تاجروں اور صنعت کاروں کے لیے بڑی کشش رکھتی تھی اورانیسویں صدی کے آخری سالوں میں کراچی کی بندر گاہ ایک اہم بین الاقوامی بندرگاہ کی حیثیت حاصل کرچکی تھی اور اس کا چرچا چار سو پھیل چکا تھا۔انگریزوں کے آنے کے بعد تو پھر یہ ایک ایسی بندرگاہ بن گئی کہ دنیا بھر سے بڑے بڑے جہازرانوں اور جہازوں نے کراچی کا رخ کر لیا اور عالمی نقشے پر اس کی اہمیت دوچند ہو گئی۔ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ قیام پاکستان کے بعد اس بندرگاہ کی وہ ساکھ برقرار نہ رہ سکی جو انگریزوں کے قبضے کے دور میں تھی