راجپوت

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
راجپوت

1876ء میں الیسٹریٹڈ لندن نیوز میں شائع ہونے والی تصویر جس میں راجستھان کے راجپوتوں کو دکھایا گیا ہے۔
درجہ بندی ذات
مذاہب ہندو مت, اسلام اورسکھ مت[1][2]
زبانیں ہندوستانی (ہندی زبان-اردو, ہریانوی زبان, بندیلی, چھتیس گڑھی), راجستھانی , (مارواڑی , میواڑی), بہاری (بھوجپوری ,[3] میتھلی [4]), گجراتی , سندھی , پنجابی , مراٹھی, پہاڑی (ڈوگری )
ملک بھارت اورپاکستان
علاقہ راجستھان, ہریانہ, گجرات (بھارت), اتر پردیش, مشرقی پنجاب, مغربی پنجاب, ہماچل پردیش, اتراکھنڈ, جموں و کشمیر, آزاد کشمیر, بہار (بھارت), جھارکھنڈ, مدھیہ پردیش, مہاراشٹرا,[5] اورسندھ

راجپوت جس کے معانی راجاؤں کے بیٹے کے ہیں اور وہ اپنا سلسلہ نسب دیو مالائی شخصیات سے جوڑتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی ابتدا اور اصلیت کے بارے میں بہت سے نظریات قائم کیے گئے ہیں۔ ایشوری پرشاد کا کہنا ہے کہ وہ ویدک دور کے چھتری ہیں۔ بعض کا کہنا ہے کہ یہ سیھتن اور ہن حملہ آوروں میں سے بعض راجپوتانہ میں مقیم ہو گئے تھے اور انھوں نے اور گونڈوں اور بھاروں کے ساتھ برہمنی مذہب کو قبول کرکے فوجی طاقت حاصل کر لی تھی۔ مسٹر سی وی ویدیا کا کہنا ہے کہ پرتھوی راج راسا کے مصنف چندر برائے نے راجپوتوں کو سورج بنسی اور چندر بنسی ثابت کرنے سے عاجز آکر ایک نئے نظریہ کے تحت ان کو ’اگنی کل‘ قرار دیا تھا۔ یعنی وہ آگ کے خاندان سے ہیں اور وششٹ نے جو قربانی کی آگ روشن کی تھی۔ اس سے راجپوتوں کا مورث اعلیٰ پیدا ہوا تھا۔ لیکن اب بعض فاضل ہندوؤں نے اس شاعرانہ فسانے سے انکار کیا ہے اور زیادہ تر حضرات کا خیال ہے کہ راجپوت قوم کی رگوں میں غیر ملکی خون ہے۔ ٹاڈ نے اپنی مشہور کتاب ’تاریخ راجستھان‘ میں اسی نظریے کی تائید کی ہے اور راجپوتوں کو وسط ایشیا کے ستھین قبائل کا قریبی قرار دیا ہے۔ جمز ٹاڈ کا کہنا ہے کہ عہد قدیم سے محمود غزنوی کے دور تک بہت سی اقوام ہند پر حملہ آور ہوئیں وہ راجپوتوں کے چھتیس راج کلی میں شامل ہیں۔ اہم کی بات یہ ہے ان کے دیوتا، ان کے شجرہ نسب، ان کے قدیم نام اور بہت سے حالات و اطوار چین، تاتار، مغل، جٹ اور ستھیوں سے بہت زیادہ مشابہہ ہیں۔ اس لیے باآسانی اندازہ ہوتا کہ راجپوت اور بالاالذکر اقوام ایک ہی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔

راجپوتوں کا عنقا مسلم علاقوں میں

ساتویں صدی عیسویں میں ہیونگ تسانگ نے راجپوت کا کلمہ استعمال نہیں کیا۔ عرب حملوں کے زمانے (آٹھویں سے گیارویں صدی عیسوی) کے حوالے سے بدھ پرکاش لکھتا ہے کہ لفظ کشتری کم دیکھنے میں آتا ہے اور راجپوت کی اصلاح عام نہیں ہوئی تھی۔ ڈاکٹر پی سرن کے مطابق لفظ راجپوت نسلی معنوں میں دسویں صدی عیسوی تک استعمال نہیں ہوا۔ حتیٰ کہ ٹھاکر کی اصطلاح جو مسلم مورخین نے اپنی تحریروں میں چند بار استعمال کی ہے ایک قبیلہ کے بارے میں ہے۔ رائے قبیلہ ایران میں بہت پہلے سے موجود تھا۔ پہلے پہل محمد بن قاسم نے رانگی (رانا) کا خطاب ایک جاٹ کو عطا کیا تھا۔ راوت کا کلمہ روٹھ یا روٹ یا ڑاٹ سے بنا۔ اس کا مطلب مشرقی ایران میں بادشاہ کے ہیں۔ واضح رہے کہ راجپوت کا کلمہ ساتویں صدی سے پہلے کہیں دکھائی دیتا ہے۔ غالباً اس کا قدیم تریں تلفظ ہن فاتح ٹورامن کے کتبہ پر ملتا ہے۔ اس کتبہ پر اس کے بیٹوں اور بیٹیوں کو راج پتر کہا گیا ہے۔ اس کا مطلب ہے اس کلمہ کو لغوی معنوں میں (بادشاہ کی اولاد) میں استعمال کیا گیا، جو ایرانی کلمہ وس پوہر (بادشاہ کا بیٹا) کے مترادف ہے۔ وس سنسکرت میں بھی بادشاہ کے معنوں میں آتا ہے اور پوہر سنسکرت کے پتر کا مترادف ہے لیکن ساتویں صدی عیسویں سے اس کی جگہ راجا استعمال ہو رہا ہے۔ چنانچہ جب شنکر اچاریہ کے تحت کٹر برہمن مت کا احیا ہوا تو راجا پتر کا لفظ استعمال ہوا۔ کلہانا نے راج ترنگی میں راجپوتوں واضح انداز میں غیر ملکی، مغرور، بہادر اور وفادار کہا گیا ہے ۔ یہ محض فرضی آرا نہیں ہیں کسی مسلمان مورخ نے پنجاب، سندھ، بلوچستان، مکران، کیاکان، افغانستان، غزنی اور کشمیر کی لڑائیوں میں راجپوتوں کا ذکر نہیں کیا ہے۔

راجپوتوں کا ارتقا

ابو الغازی نے تاتاریوں اور مغل اقوام کے نسل وہ نسب کی روایتیں بیان کی ہیں۔ وہی روایتیں پرانوں میں آئی ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ مغل و تاتار کے مورث اعلیٰ کا نام پشنہ تھا اور اس کے بیٹے کا نام اوغوز تھا۔ اوغوز کے چھ فرزند تھے۔ بڑے بیٹے کا نام کین یعنی سورج تھا۔ دوسرے بیٹے کا نام آیو یعنی چاند تھا۔ تاتاریوں کا دعویٰ ہے کہ وہ آیو یعنی چاند کی نسل سے ہیں۔ آیو کا بیٹا جلدس تھا۔ جلدس کا بیٹا ہیو تھا۔ جس سے شاہان چین کی نسل ہوئی ہے۔ ایلخان جو آیو کی چھٹی پشت پر تھا اس کے دوبیٹے تھے۔ ایک خان دوسرا ناگس۔ ناگس اولاد نے تاتار کو آباد کیا۔ چنگیز خان کا دعویٰ تھا کہ وہ خان کی نسل سے ہے۔ ناگس غالباً تکش یا سانپ کی نسل ہے۔ افغانستان اور شمالی مغربی علاقہ قدیم زمانے میں ہندوستان سے ملحق رہا ہے اور یہ علاقہ عہد قدیم میں ہندو تہذیب کے بڑے مرکزوں میں سے تھا۔ بھارت ورش کے زمانے میں یہ گندھارا کہلاتا تھا۔ کابل، گندھار (قندھار) اور سیستان اکثر سیاسی حیثیت سے ہندوستان کا حصہ رہے ہیں۔ پارتھی عہد میں ان مقامات کو سفید ہند کہا جاتا تھا۔ اس علاقہ کی پرانی عمارات اور خانقاہوں کے کھنڈر اس کی تائید کرتے ہیں۔ خصوصاً ٹیکسلہ کی عظیم الشان یونیورسٹی کے آثار جس کی شہرت آج سے دوہزار سال پہلے اپنے عروج پر تھی۔ اس زمانے میں جو بھی فاتح ہند پر حملہ آور ہوتا تھا تھوڑے عرصے میں اس کا شمار چھتریوں میں ہونے لگتا تھا۔ سکوں کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلے حکمران کا نام غیر ملکی ہے۔ لیکن بیٹے یا پوتے کا نام سنسکرت میں ہے اور اس کی تخت نشینی یا تاج پوشی چھتری رسوم کے مطابق ہوتی تھی۔ راجپوتوں کے اکثر قبیلوں کا سلسلہ نسب سک یا سیتھی حملہ آوروں سے تھا یا وہ سفید ہن قوم کے حملہ آوروں میں سے تھے۔ یہی زمانہ تھا کہ باہرسے حملہ آور اقوام ہندو معاشرے میں داخل ہو رہی تھیں اور ہندو تہذیب اختیار کر رہی تھیں۔ ان حملہ آوروں کو گوترا عطا کرنے میں مقامی پنڈت سبقت لے جانے کی کوشش کر رہے تھے۔ اس طرح وہ ہندو تہذیب کی ترقی کی پوری کوشش کر رہے تھے۔ چنانچہ وشنو، شیوا، چندی اور سوریہ وغیر کے ادیان بہت پھیل گئے۔ اس سے نہ صرف برہمنی مذہب نہ صرف اپنے عروج پر پہنچا۔ بلکہ بدھ مذہب کو سخت صدمہ پہنچا اور وہ برصغیر کو خیرباد کہنے پرمجبور ہو گیا۔ اس طرح راجپوتوں نے برہمنوں کے ساتھ مل کر ہندو دھرم کو ارسر نو زندہ کیا اور بدھوں کو تہس نہس کر دیا۔ سک، پہلو یون اور ترشک جو وسط ایشیا کی مشہور قومیں تھیں اور وہ ہند پر حملہ آور ہوکر ہندو مذہب میں داخل کر راجپوت کہلائیں۔ ولسن کا کہنا ہے کہ راجپوت قبائل راٹھور، پوار اور گہلوٹ وغیرہ یہاں پہلے سے آباد تھے۔ یہ چاروں قبائل اصل میں جاٹ ہیں جنہیں بعد میں راجپوت کہا جانے لگا ہے۔ کیوں کے یہ اس وقت حکمران تھے۔ اس بنا پر راجپوت یا راج پتر یعنی راجاؤں کی اولاد کی اصطلاح وجود میں آئی۔ اس کی اصل پہلوی کلمہ وسپوہر (شاہ کا بیٹا) سے ہے۔ ولسن انھیں غیر ملکی تسلیم کرتا ہے۔ کیوں کہ ان لوگوں نے ساکا اور دیگر قبائل کے ساتھ مل کر برصغیر کی تسخیر کی تھی۔ راجپوت رسمی طور پر برہمنی مذہب میں داخل ہونے والے جاٹ اور گوجر ہیں جن لوگوں نے رسمی طور پر متصب برہمنی نظام کی شرائط اور قبول کرنے سے انکار کیا انھیں رسمی طور پر ہندو مذہب میں داخل نہیں کیا گیا اور وہ آج تک وہی جاٹ، گوجر اور آہیر ہیں۔ یہی وجہ ہے جاتوں اور راجپوتوں مشترک قبائلی نام ہیں۔ ان لوگوں کو اپنے مقصد کے پیش نظر وششتھاؤں نے راجستھان میں کوہ آبو میں ایک قربانی کی آگ کا اہتمام کیا اور بہت سے نووارد لوگوں کو اس آگ کے ذریعہ پاک کیا۔ ان لوگوں کو راج پتر (بادشاہوں کی اولاد) کا نام دیا گیا جو وہ پہلے ہی تھے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ایران بالخصوص سیستان میں بڑے زمیندار وس پوہر بادشاہوں کی اولاد کہلاتے تھے۔ برصغیر کی اصطلاح راج پتر کا ایرانی کلمہ کا ترجمہ ہے۔ قانون گو کا کہنا غلط ہے کہ اس سرزمین پر ابتدائی قابض جاٹوں کی جگہ نووارد راجپوتوں نے لی۔ قانون گو نے اس بات کو فراموش کر دیا کہ پوار (پنوار)، تنوار، بھٹی، وگن جوئیہ وغیرہ جاٹوں اور راجپوتوں دونوں میں پائے جاتے ہیں۔ جاٹوں کی جگہ راجپوتوں نے اس لی کہ کہ برہمنوں نے موخر الذکر کے خلاف بھڑکایا۔ کیوں کہ راجپوت تھوڑا عرصہ پہلے ہندو مذہب میں آئے تھے۔ برہمنوں نے راجپوتوں کو اعلیٰ مقام دیا، ان کی تعریف میں قصائص لکھے اور انھیں رام ارجن (سورج اور چندر بنسی) سے جا ملایا۔ اس کے بدلے راجپوتوں نے پھر پور ’وکشنا‘ اور ’اگر ہارا‘ دیے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ برصغیر میں فاتح کی آمد پر جاٹوں کو براہمنی نظام میں مدغم کرنے کی سوچی سمجھی کوششیں کی گئی۔ غیر ملکی ساکا کو ہندو سماج کا حصہ بنانے کی غرض سے مشہور ’ورانا سٹوما‘ کی رسوم گھڑی گئیں اگر والا کا کہنا ہے کہ ان رسوم کی ادائیگی نہایت آسان تھی جو محض ایک ضابطہ کی کارروائی تھی جس کا مقصد یہ تھا کہ غیر ملکیوں کو مذہبی رسوم کے ذریعہ ہندو سماج کا حصہ بنایا جائے۔ ویسنٹ اسمتھ کا کہنا ہے بعض گونڈوں اور بھاروں نے فوجی طاقت حاصل کر نے کے بعد برہمنی مذہب کو قبول کر لیا اس طرح وہ بھی راجپوتوں میں شامل ہو گئے۔ اس طرح راجپوت برہمنی رنگ میں رنگے جاٹ اور گوجر ہیں۔ یہی وجہ ہے ہم راجپوتوں کے ظہور سے بہت پہلے صرف جاٹوں اور گوجروں کو وسطی برصغیر، راجستان گجرات سندھ میں پاتے ہیں۔ اگر کوئی راجپوت کسی جاٹ عورت سے شادی کرلے وہ جاٹ نہیں ہو گا۔ لیکن اگر وہ یا اس کی بیوہ دوبارہ شادی رچالے تو، اس کی اولاد جاٹ بن جائے گی۔ یہ مسئلہ کا اصل نقطہ ہے ایک راج پوت اور جاٹ میں صرف بیوہ کی دوسری شادی کا ہے۔ بیوہ کی شادی ہر دور میں رہی ہے۔ لیکن راجپوتوں کو براہمنوں کے غلط، غیر اخلاقی اور غیر منصفیانہ نظریات کے تحت اس بارے میں سننا بھی گوارا نہ تھا۔ موجودہ دور میں پنجاب میں ان کی جاٹ اور راجپوتوں کی تقسیم بہت الجھی ہوئی ہے، ابسن کا کہنا ہے کہ پنجاب کے بڑے قبیلے راجپوت کہلاتے ہیں جب کہ ان کی شاخیں خود کو جاٹ کہتی ہیں۔ بیوہ کی شادی کا وہ اہم ترین نقطہ اختلاف تھا جو کوہ آبو کی قربانی کے موقع پر جاٹوں اور برہمنوں کا اختلاف ہوا۔ جن لوگوں نے برہمنوں کی پیش کردہ شرائط کو تسلیم کیا وہ راجپوت کہلائے۔ اس کے برعکس جنھوں نے بیوہ کی شادی کے کرنے پر اصرار کیا وہ ہندو مذہب میں داخل ہونے کے وجود راجپوت کہلائے۔

راجپوتوں کا عروج

سی وی ویدیا ہشٹری آف میڈول انڈیا میں لکھتے ہیں کہ جب بدھ مذہب کے زیر اثرہندوں میں جنگی روح ختم ہو گئی تو راجپوتوں نے موقع پاکر ملک کے مختلف حصوں پر اپنی حکومتیں قائم کر لیں۔ بقول اسمتھ کے ہرش کی وفات کے بعد سے مسلمانوں کی آمد تک یعنی اندازہً ساتویں صدی عیسویں سے لے کر بارہویں صدی عیسیں تک کے زمانے کو راجپوتوں کا دور کہا جا سکتا ہے۔ کشمیر میں ڈوگر یا ڈوگرہ راجپوتوں کاراج رھا ہے اور اس قوم کے لوگ بھی اصل میں جٹوں میں سے ہیں اور راجے ھونے کی وجہ سے راجپوتوں میں شامل کیے گئے ہیں۔ مسلمانوں کی آمد کے وقت کابل سے کامروپ تک کشمیر سے کوکن تک کی تمام سلطنتیں راجپوتوں کی تھیں اور ان کے چھتیس راج کلی (شاہی خاندان) حکومت کر رہے تھے۔ چندر بروے نے اس تعداد کو پہلے پہل بیان کیا اور پنڈٹ کلہیان نے ’ترنگی راج‘ میں اس تعداد کی تصدیق کی ہے۔ جیمز ٹاڈ کے بیانات سے پتہ چلتا ہے کہ ان کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے کیوں کے بعد کے ناموں میں اختلاف ہے۔ چھتیس راج کلی میں برصغیر کا پہلا تاریخی خاندان موریہ خاندان اس میں شامل ہے لیکن اس بنا پر نہیں ہے بلکہ میواڑ کے ایک قدیمی خاندان کی وجہ سے ۔

راجپوتوں کی نسلی تقسیم

ان غیر ملکی اقوام نے برہمنی مذہب اختیار کر لیا، تو ہندو پنڈتوں نے انھیں نہ صرف چھتری قرار دیا اور انھیں گوتریں دیں اور ان کا نسلی تعلق دیو مالائی شخصیات سے جوڑ دیا۔ اس طرح یہ نسلی اعتبار سے پانچ طبقات میں مستقیم ہیں۔ یعنی راجپوت پانچ طبقوں میں تقسیم ہیں جو درج ذیل ہیں۔ # سوریہ یا سورج بنسی = ان کا مورث اعلی رام چندر ہے اور تمام سورج بنسی قبائل کے شجرہ نسب رام کے لڑکوں ’لو‘ اور ’کش‘ سے ملتے ہیں۔ # چندر یا چندر بنسی = ان کا مورث اعلیٰ ہری کرشن تھا۔ ہری کرشن کا لقب یادو تھا، جس کا ایک تلفظ جادو ہے۔ اس لیے چندر بنسی قبائل یادو کے علاوہ جادو بھی کہلاتے ہیں۔ # اگنی کل یا آگ بنسی = روایات کے مطابق برہمنوں نے کوہ آبو پر ایک اگنی کنڈ (آگ کے الاؤ) سے دیوتاؤں کی مدد سے پیدا کیا تھا۔ # ناگ بنسی یا تکشک = ہند آریائی میں تکشک سانپ کو کہتے ہیں اور یہ اقوام کا دعویٰ ہے کہ یہ ناگ کی نسل سے ہیں۔ # جٹ یا جاٹ = جٹ قوم کا راجپوتوں کے ساتھ نسلی تعلق ہے ــ اسی وجہ سے کئی جٹ اور راجپوت قبیلے ایک ہی ہیں جیسے پارمر جٹوں کا بھی اور راجپوتوں کا بھی ــ ایک کتاب کے مطابق جٹ اور راجپوت ایک ہی ہیں لیکن جو جٹ پچھلے دور میں بادشاہ تھے، اُن کی نسلوں کو اب راجپوت کہا جاتا ہے ــ یا جٹ اور راجپوت ایک ہی نسل کی دو شاخیں ہیں ــ[6]

راجپوتوں کا کردار

ایشوری پرشاد کا کہنا ہے کہ راجپوتوں نے جنگ کو اپنا پیشہ بنا رکھا تھا اور نظم و نسق کے بلند اور شریفانہ فرائض سے غافل ہو گئے تھے۔ جس کی بجاآوری نے اشوک و ہرش کو غیر فانی بنا دیا تھا۔ کوئی ایسی تحریری شہادت موجود نہیں ہے جس سے نظم و نسق و حکومت کے دائرے میں راجپوتوں کے کارناموں کا اظہار ہوا ہو۔ ان کی پوری تاریخ قبائلی جنگ و پیکار کا ایک طویل سلسلہ ہے۔ یہی وجہ ہے وہ بیرونی حملہ آوروں کا مقابلہ نہیں کرسکے اور انھیں پسپا ہونا پڑا اور ان کی طاقت کو زوال آگیا۔ کبر و نخوت ان کی بربادی کا سبب بنی۔ ذات پارت کی قیود سے باہمی نفاق اور حسد و کینہ کی پرورش ہوئی۔ اس لیے ان کی معاشی طاقت کمزور ہو گئی تھی۔ اس لیے ان کا نظام حکومت جاگیر ادرانہ تھا۔ یہ سیاسی اعتبار سے متحد نہیں تھے۔ اس لیے وہ بیرونی حملہ آوروں کے سامنے سر جھکانے پر مجبور ہو گئے۔ سی وی ویدیا لکھتے ہیں کہ قنوج اور بنگال کے سوا راجپوت راجاؤں کو مستقل فوج رکھنے کی توفیق نہیں ہوئی۔ بعض تو ضرورتوں کے وقت فوج بھرتی کر لیا کرتے تھے اور بعض اپنے جاگیرداروں سے ان کے متوسلین کو طلب کر لیا کرتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ عوام کو حکومتوں کے چلانے یا ان کو قائم رکھنے سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ صرف حکمران خاندان اپنے ہم قبیلہ بھائی بندوں کو ساتھ لے کر حریف سے بھڑ جاتاتھا۔ فتح پائی تو فہا، شکست کھائی تو ملک حریف کے حوالے کر دیا۔ عوام کو راج کے پلٹ جانے کا احساس نہیں ہوتا تھا۔ قنوج کے پرتیہار اور دکن کے راشتٹر کوٹ چونکہ جنگی قبیلے تھے، اس لیے ان کی فوج میں بیروی عنصر شامل نہیں تھے۔ البتہ بنگال کے پال اور سین راجاؤں نے مالوہ جنوبی گجرات کرناٹک وغیرہ کے بعض لوگوں کو بھرتی کررکھا تھا۔ کیوں کہ بنگال میں راجپوتوں کی تعداد کافی نہیں تھی اور بنگالی اس زمانے میں جنگی قوم نہیں سمجھے جاتے تھے۔ باقی ملک میں بھی راجپوت راجاؤں کے ہاں مستقبل فوج کا کوئی وجود نہیں تھا۔ شمالی برصغیر میں راجپوتوں کی ریاستیں دہلی، اجمیر، قنوج، گندھار، مالوہ اور گجرات میں قائم ہوئیں۔ دہلی اور اجمیر کی ریاست کا بانی اگرچہ اننگ پال تھا، لیکن پرتھوی راج کو سب سے زیادہ شہرت ملی۔ قنوج میں مختلف راجپوت خاندانوں نے حکومت کی۔ گندھارا کی ریاست کے حکمرانوں میں جے پال اور آنند پال زیادہ مشہور ہوئے۔ جے چند راٹھور نے کافی نام پیدا کیا۔ مالوہ میں پڑھیار خاندان کی حکومت تھی۔ اس خاندان کا راجا بھوج بحثیت قدردان علم بہت مشہور ہوا۔ وہ خود عالم اور شاعر تھا۔ گجرات بندھیل کھنڈ اور بنگال میں مختلف خاندانوں نے حکومت کی۔ میواڑ کی ریاست میں بھی مشہور راجا گذرے ہیں۔ بالائی دکن کے زیریں (جنوبی علاقے) چولا، چیرا اور پانڈیا کی ریاستیں قائم ہوئیں۔

راجپوتوں کے خصائص

راجپوتوں نے اگرچہ ابتدا میں مسلمانوں کے خلاف کامیاب دفاع کیا اور مسلمانوں کو آگے بڑھنے سے روکا۔ اور مسلمانوں کے خلاف یہ بعض اوقات متحد بھی ہو گئے۔ خاص کر محمود غزنوی کے خلاف جے پال کی سرکردگی میں، محمد غوری کے خلاف پرتھوی راج چوہان کی سرکردگی میں اور بابر کے خلاف رانا سنگا کی سرکردگی میں۔ مگر یہ وقتی وفاق تھا جو صرف جنگ تک محدود رہا اور جنگ کے بعد ان کے درمیان وہی نفاق، پیکار اور جنگ کا سلسلہ جاری رہا۔محمود غزنوی نے جب جے پال سے صلح میں پس و پیش کی تو جے پال نے اسے راجپوتوں کا تعارف کچھ یوں کرایا۔ ”انتہائی مصیبت میں آخری چارہ کار اس قوم (راجپوتوں) کا یہ ہے کہ جو کچھ مال و اسباب اور بیش قیمت چیزیں ان کے قبضے میں ہوتی ہیں اُن کو مایوسی کے عالم میں آگ کی نذر کر دیتے ہیں اور اس فعل کو آخرت کی بہبودی سمجھتے ہیں، اس کے بعد اگر مصیبت سے نجات پانے کی ہر راہ اپنے اوپر بند دیکھتے ہیں تو قاعدے کے موافق اپنی عورتوں اور حرم سراؤں کو بھی آگ میں ڈال دیتے ہیں۔جب یہ سمجھ لیتے ہیں کہ دنیاوی مال و متاع سے اب کوئی چیز ان کے پاس باقینہ رہی تو سبھی لوگ ایک دوسرے سے رخصت ہو کر دشمن سے ایسی معرکہ آرائی کرتے ہیں کہ اس لڑائی میں اپنے کو بالکل فنا کر دیتے ہیں ااور سوائے خاک کے اور کچھ ان کا نام و نشان باقی نہیں رہتا۔“[7]

راجپوت آج بھی اپنی بہادری کی وجہ سے یاد کیے جاتے ہیں۔ شجاعت اوردلاوری میں ہند کی اقوام میں کوئی ان سا پیدا نہیں ہوا ہے۔ راجپوت اپنی بات کے پکے، تیغ زنی کے ماہر اور اعلیٰ قسم کے شہسوار تھے۔ اپنی آن بچانے کے لیے جان کی بازی لگادیتے تھے۔ راجپوتوں نے اپنی خوبیوں کی بدولت کافی عرصہ (ساتویں صدی عیسوی تا بارہویں صدی عیسوی) تک برصغیر میں حکومت کی اور ایک تہذیب قائم کی۔ لیکن یہ اپنی بالاالذکر برائیوں کی بدولت ان کی طاقت کو زوال آگیا اور انھیں بیرونی حملہ آوروں کے مقابلے میں پسپا ہونا پڑا۔ راجپوت نہ صرف میدان جنگ میں جوہر دکھاتے تھے، بلکہ عمدہ انسان اور اعلیٰ میزبان تھے۔ مہمان نواز اور سخاوت کا جذبہ ان میں موجود تھا۔ راجپوت آرٹ و ادب اور موسیقی کے دلدادہ تھے۔ راجپوت مصوری کی اپنی انفرادیت ہوتی تھی۔ یہی وجہ ہے مصوری کا ایک اسکول وجود میں آیا۔ ہر راجا کے دربار میں ایک نغمہ سرا ضرور ہوتا تھا، جو خاندانی عظمت کے گیت مرتب کرتا تھا۔ ان کی معاشرتی زندگی اچھی ہوتی تھی۔ اگرچہ ان میں بچپن میں شادی کا رواج تھا، لیکن اعلیٰ خاندان کی لڑکیاں جب جوان ہوتی تھیں تو اپنی پسند کی شادی کرتی تھیں۔ راجپوت عورتیں اپنی پاک دامنی اور عضمت پر جابجا طور پر ناز کرسکتی تھیں۔ ستی اور جوہر کی رسم اس جذبے کی ترجمانی کرتی تھی۔ جب کسی عورت کا شوہر مرجاتا تو وہ اپنے شوہر کے ساتھ آگ میں جل جانا پسند کرتی تھیں۔ اس طرح کسی جنگ میں ناکامی کے خدشے کے بعد راجپوت اپنی عورتوں کو قتل کرکے میدان جنگ میں دیوانہ وار کود جایا کرتے تھے۔ (انوار ہاشمی، تاریخ پاک و ہند۔ 71) ایک عجیب رسم شادی کی تھی وہ شادی اپنے قبیلے یا ہم نسلوں میں نہیں کرتے تھے۔ بلکہ اس کے لیے ضروری تھا کہ شادی جس سے کی جاتی تھی ان کے درمیان پدری سلسلہ نہ ہو۔ راجپوت رانا، راؤ، راول، راجا اور راجن وغیرہ لائقہ استعمال کرتے ہیں،ان تمام کلمات کے معانی راج کرنے والے کے ہیں۔ مسلمانوں میں سے مغلوں نے راجپوتوں کے جنگی جذبہ سے فائدہ اٹھایا اور راجپوتوں کو اپنے لشکر میں کثرت سے بھرتی کیا۔ مغلوں کی اکثر فتوحات راجپوتوں کی رہیں منت تھیں۔ جہانگیر اجمیر کے بارے میں لکھتا ہے کہ ضرورت پڑنے پر یہاں سے پجاس ہزار سوار اور تین لاکھ پیادے باآسانی حاصل ہو سکتے ہیں۔

راجپوتوں کا مذہب

راجپوتوں کا سب سے بڑا دیوتا سورج تھا۔ وہ اس کی پرستش کرتے اور اس کو راضی رکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کے نام پر اشو مید (گھوڑے کی قربانی) کرتے تھے اور اسی کے نام پر لڑتے تھے اور جان دیتے تھے۔ وہ اسے سوریہ کہتے تھے۔

راجپوت گوتیں

راجپوت شخصیات

حوالہ جات

  1. Stephen Philip Cohen (2006)۔ The idea of Pakistan (Rev. ایڈیشن)۔ Washington, D.C.: Brookings Institution Press۔ صفحہ: 35–36۔ ISBN 978-0815715030۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 جولا‎ئی 2017 
  2. Anatol Lieven (2011)۔ Pakistan a hard country (1st ایڈیشن)۔ New York: PublicAffairs۔ ISBN 9781610390231۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 جولا‎ئی 2017 
  3. "Folk-lore, Volume 21"۔ 1980۔ صفحہ: 79۔ اخذ شدہ بتاریخ 09 اپریل 2017 
  4. Ramashray Roy (1 January 2003)۔ Samaskaras in Indian Tradition and Culture۔ صفحہ: 195۔ ISBN 9788175411401۔ اخذ شدہ بتاریخ 04 مارچ 2017 
  5. Rajendra Vora (2009)۔ مدیران: Christophe Jaffrelot، Sanjay Kumar۔ Rise of the Plebeians?: The Changing Face of the Indian Legislative Assemblies (Exploring the Political in South Asia)۔ Routledge India۔ صفحہ: 217۔ ISBN 9781136516627۔ [In Maharashtra]The Lingayats, the Gujjars and the Rajputs are three other important castes which belong to the intermediate category. The lingayats who hail from north Karnataka are found primarily in south Maharashtra and Marthwada while Gujjars and Rajputs who migrated centuries ago from north India have settled in north Maharashtra districts. 
  6. قبیلہ جیسے گادری، کہا جاتا ہے کہ اس قبیلے کے کچھ فرد خود کو جٹ کہتے ہیں اور کچھ راجپوت ــ تاہم یہ قبیلہ ایک نسل ہے (گاد کی نسل).
  7. تاریخ فرشتہ۔ اسلامی کتب خانہ۔ صفحہ: 66 

  • نور الدین جہانگیر۔ توزک جہانگیری
  • بی ایس ڈاہیا۔ جاٹ
  • جیمزٹاڈ۔ تاریخ راجستان جلد اول
  • عبدالمجید سالک۔ مسلم ثقافت ہندوستان میں
  • انوار ہاشمی۔ تاریخ پاک و ہند
  • جواہر لعل نہرو۔ تلاش ہند
  • ڈاکٹر معین الدین۔ عہد قدیم اور سلطنت دہلی
  • ابسن۔ پنجاب کی ذاتیں
  • ویسنٹ اے سمتھ۔ قدیم تاریخ ہند
  • راجپوت قبائل،(کامران اعظم سوہدروی)