قضیہ قدر وسطی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
For any function that is continuous on [ab] and differentiable on (ab) there exists some c in the interval (ab) such that the secant joining the endpoints of the interval [ab] is parallel to the tangent at c.

احصا میں، اوسط قدر قضیہ کا بیان ہے کہ کسی ہموار استمری قابلِ تفریق منحنی کا قطعہ دیا ہو، تو اس قطعہ پر کم از کم ایک نقطہ ایسا ہو گا جس پر مشتق (مائل) برابر (متوازی) ہو گا اس قطعہ پر "اوسط" مشتق کے ۔[1] اس قضیہ کا استعمال کسی وقفہ پر فنکشن کے مقامی مشتقوں بارے مفروضوں سے شروع کر کے عالمی نتائج اخذ کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔

زیادہ درست، اگر بند وقفہ [ab] پر فنکشن f(x) استمری اور کھلے وقفہ (ab) پر قابلِ تفریق ہو، تو ایسا نقطہ c وجود رکھتا ہے کہ

وجدانی طور پر اسے حرکت کے ضمن میں سمجھا جا سکتا ہے: اگر گاڑی سو کلومیٹر کا فاصلہ ایک گھنٹے میں طے کرتی ہے تو اس کی "اوسط" رفتار 100 میل فی گھنٹہ ہو گی۔ اس رفتار کے لیے یا تو گاڑی تمام وقت سو کلومیٹر فی گھنٹہ کی یکساں رفتار سے چلے یا، اگر کسی لمحہ سو کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے کم ہوتی ہے تو کسی دوسرے لمحے اس کو سو کلومیٹر فی گھنٹہ سے زیادہ رفتار پکڑنا ہو گی تاکہ اوسط سو کلومیٹر فی گھنٹہ ہی رہے۔ اس طرح اوسط قدر قضیہ ہمیں بتاتا ہے کہ سفر کے دوران کسی نکتہ پر اس کی رفتار قطعی سو کلومیٹر فی گھنٹہ ہو گی، یعنی اُس لمحہ وہ اپنی اوسط رفتار پر چل رہی ہو گی۔

وجدانی طور پر یہ قضیہ زمانہ قدیم سے علما کو معلوم تھا، مگر حسابان کے تناظر میں اس کی قطعی شکل کاشی نے فراہم کی۔