قیام

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

قیام نماز کا ایک اہم رکن ہے۔

اللہ تعالٰیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے:

وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ (44)

(اے نبی) ہم نے آپ کی طرف (یہ) ذکر (یعنی قرآن) نازل کیا ہے تاکہ آپ لوگوں کے لیے اس چیز کو واضح کر دیں جو ان کی طرف نازل کی گئی ہے اور تاکہ وہ غور کریں

اس آیت سے ان لوگوں کے قول کی تردید ہوتی ہے جو احادیث رسول کو “بولی کارپوریشن آف اسلام” کہہ کر ٹھٹھا اڑاتے ہیں۔ صاف معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے ذمے محض پیغام رسانی ہی نہ تھی بلکہ اللہ تعالٰیٰ نے انھیں اپنے کلام کا شارح بنا کر بھیجا تھا۔ اس بات کو نماز کے ایک اہم رکن “قیام” کی مثال سے سمجھتے ہیں جس سے معلوم ہو گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اللہ تعالٰیٰ کے احکامات کی کس طرح تشریح اور عملی تفسیر بیان فرمائی۔ قرآن مجید میں قیام کرنے کا حکم اس آیت میں دیا گیا ہے:

وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ [1]

اور اللہ کے سامنے ادب سے کھڑے رہا کرو۔

پورے قرآن مجید میں اس اجمال کی کوئی تفصیل بیان نہیں ہوئی کہ قیام کس طرح کرنا ہے، رکوع و سجدے سے پہلے کرنا ہے یابعد میں اور کیا اس کی فرضیت تمام نمازوں کے لیے ہے وغیرہ۔ ان جیسے مسائل کے لیے بہرحال حدیث رسول کی طرف ہی رجوع کرنا پڑتا ہے ذیل میں اہم مسائل کا تذکرہ صحیح احادیث کی روشنی میں کیا جاتا ہے۔

فرض نماز میں قیام کی فرضیت[ترمیم]

اللہ تعالٰیٰ کا فرمان ہے:

حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَى وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ فَإِنْ خِفْتُمْ فَرِجَالًا أَوْ رُكْبَانًا فَإِذَا أَمِنْتُمْ فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَمَا عَلَّمَكُمْ مَا لَمْ تَكُونُوا تَعْلَمُونَ [2]

سب نمازوں کی حفاظت کرو اور (خاص طور پر) بیچ والی نماز کی1۔ اور اللہ کے سامنے ادب سے کھڑے رہا کرو۔پھر اگر تم خوف کی حالت میں ہو تو پیادے یا سوار جس حال میں ہو (نماز پڑھ لو)۔ پھر جب امن ہو جائے تو اللہ کو اسی طریقے سے یاد کرو جس طریقے سے اس نے تمھیں سکھایا ہے جو تم پہلے نہیں جانتے تھے۔

علما نے اس آیت کی روشنی میں فرض نماز میں قیام کے لازمی ہونے پر امت کا اجماع نقل کیا ہے۔ فرض نماز پڑھنے والا امام ہو یا مقتدی یا منفرد (یعنی اکیلے نماز پڑھنے والا) کسی کے لیے بھی عذر کے بغیر فرض نماز بیٹھ کر ادا کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ البتہ اگر امام کسی وجہ سے کھڑے ہو کر نماز پڑھانے پر قادر نہ ہو تو مقتدی بھی اس کے پیچھے بیٹھ کر نماز پڑھیں گے۔ فرمان رسول ہے :

وَإِذَا صَلَّى قَائِمًا فَصَلُّوا قِيَامًا وَإِذَا صَلَّى جَالِسًا فَصَلُّوا جُلُوسًا أَجْمَعُونَ [3]

جب (امام) کھڑے ہو کر نماز پڑھے تو تم بھی کھڑے ہو کر پڑھو اور جب وہ (کسی عذر کی بنا پر) بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم سب بھی (اس کے پیچھے) بیٹھ کر نماز ادا کرو۔

اس آیت مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ سخت لڑائی یا شدید خوف وغیرہ کے موقع پر قیام کرنا ممکن نہ ہو تو کھڑے کھڑے یا سواری پر بیٹھ کر یا جیسے بھی ممکن ہو نماز ادا کر لینی چاہیے۔ اس کا ذکر پیچھے استقبال قبلہ کے ذیل میں گذر چکا ہے ۔

نفل نماز اور قیام[ترمیم]

فرائض کے برعکس نوافل بیٹھ کر بھی پڑھے جا سکتے ہیں چاہے کوئی عذر موجود نہ ہو لیکن بیٹھ کر نفل پڑھنے سے آدھا اجر ملتا ہے۔ ام المؤمنین حضرت حفصہ رضی اللہ تعالٰیٰ عنہا بیان کرتی ہیں:

مَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى فِي سُبْحَتِهِ قَاعِدًا حَتَّى كَانَ قَبْلَ وَفَاتِهِ بِعَامٍ [4]

میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو وفات سے ایک سال پہلے تک رات کے نوافل بیٹھ کر ادا کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔

یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے عمر مبارک کے آخری سال بیٹھ کر نوافل ادا فرمائے ہیں اس لیے نفل نماز طاقت رکھنے کے باوجود بیٹھ کر بھی پڑھی جا سکتی ہے۔ امام نوویؒ نے صحیح مسلم کی شرح میں اس کے جواز پر علما کا اجماع نقل کیا ہے۔ نوافل میں قیام کے ضروری نہ ہونے کی دوسری دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم دورانِ سفرقیام کیے بغیرسواری پر تشریف فرما ہوتے ہوئے نوافل پڑھ لیا کرتے تھے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰیٰ عنہ فرماتے ہیں:

كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُسَبِّحُ عَلَى الرَّاحِلَةِ قِبَلَ أَيِّ وَجْهٍ تَوَجَّهَ وَيُوتِرُ عَلَيْهَا غَيْرَ أَنَّهُ لَا يُصَلِّي عَلَيْهَا الْمَكْتُوبَةَ [5]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم رات کے نوافل اور وتر سواری پر بیٹھ کر ادا کر لیتے تھے چاہے اس کا رخ کسی بھی طرف ہوتا، البتہ فرض نماز اس پر بیٹھ کر نہیں پڑھتے تھے۔

مریض کے لیے بیٹھ کر نماز ادا کرنے کی اجازت[ترمیم]

مریض کھڑا ہونے کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو وہ بیٹھ کر نماز پڑھ سکتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے مرض الموت میں بیٹھ کر نماز ادا فرمائی تھی۔ ام المومنین عائشہ ا بیان کرتی ہیں کہ:

أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى خَلْفَ أَبِي بَكْرٍ قَاعِدًا [6]

نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے (مرض الموت میں) ابو بکر () کے پیچھے بیٹھ کر نماز ادا فرمائی تھی۔

ایسا ہی ایک واقعہ اس سے پہلے بھی پیش آیا تھا جب مرض کی تکلیف کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے بیٹھ کر نماز پڑھائی تو صحابہ م پیچھے کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے، اس پرنبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے انھیں بیٹھنے کا اشارہ کیا تو وہ بیٹھ گئے۔ نماز ختم ہونے کے بعد فرمایا :

إِنْ كِدْتُمْ آنِفًا لَتَفْعَلُونَ فِعْلَ فَارِسَ وَالرُّومِ يَقُومُونَ عَلَى مُلُوكِهِمْ وَهُمْ قُعُودٌ فَلَا تَفْعَلُوا ائْتَمُّوا بِأَئِمَّتِكُمْ إِنْ صَلَّى قَائِمًا فَصَلُّوا قِيَامًا وَإِنْ صَلَّى قَاعِدًا فَصَلُّوا قُعُودًا [7]

تم فارسیوں اور رومیوں جیسا کام کرنے کے قریب تھے، وہ اپنے بادشاہوں کے سامنے کھڑے رہتے ہیں جبکہ بادشاہ بیٹھے ہوتے ہیں۔ تم اس طرح مت کرو۔ اپنے امام کی اقتدا کرو ، اگر وہ کھڑے ہو کر نماز پڑھے تو تم بھی کھڑے ہو کر نماز پڑھو اور اگر وہ بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بھی بیٹھ کر نماز ادا کرو۔

اسی بارے میں ایک اور حدیث عمران بن حصین سے مروی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مجھے بواسیر کی تکلیف تھی۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے دریافت کیا (کیا مجھے بیٹھ کر نماز ادا کرنے کی اجازت ہے؟) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا :

صَلِّ قَائِمًا فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ فَقَاعِدًا فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ فَعَلَى جَنْبٍ [8]

کھڑے ہو کر نماز ادا کرو، اس کی طاقت نہ ہو تو بیٹھ کر پڑھ لو اور یہ بھی نہ ہو سکے تو لیٹ کر نماز ادا کر سکتے ہو۔

دوسری روایت میں ہے کہ عمران بن حصین کہتے ہیں “میں نے نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے اس شخص کے بارے میں سوال کیا جو بیٹھ کر نماز ادا کرتا ہے” تو فرمایا

مَنْ صَلَّى قَائِمًا فَهُوَ أَفْضَلُ وَمَنْ صَلَّى قَاعِدًا فَلَهُ نِصْفُ أَجْرِ الْقَائِمِ وَمَنْ صَلَّى نَائِمًا فَلَهُ نِصْفُ أَجْرِ الْقَاعِدِ [9]

جس نے کھڑے ہو کر نماز ادا کی تو وہ افضل ہے اور جس نے بیٹھ کر ادا کی اسے قیام کرنے والے کی نسبت آدھا اجر ملے گا اور جس نے لیٹے ہوئے نماز پڑھی اس کے لیے بیٹھ کر نماز پڑھنے والے سے نصف اجر ہے۔

انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ “رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم گھر سے نکلے تو دیکھا کہ کچھ لوگ مرض کی وجہ سے بیٹھ کر نماز ادا کر رہے ہیں۔ تو فرمایا :

صَلَاةُ الْقَاعِدِ عَلَى النِّصْفِ مِنْ صَلَاةِ الْقَائِمِ [10]

بیٹھ کر نماز ادا کرنے والے کو قیام کرنے والے کی نسبت آدھا اجر ملے گا۔

بیٹھ کر نماز پڑھنے کے سلسلے میں یاد رکھنا چاہیے کہ اگر مریض زمین پر سجدہ کرنے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو کوئی اونچی چیز سامنے رکھ کر اس پر سجدہ کرنا ٹھیک نہیں بلکہ ایسی صورت میں سر کے اشارے سے رکوع و سجود کرنے چاہئیں۔

ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کسی مریض کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے تو دیکھا کہ وہ تکیے پر نماز ادا کر رہا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اسے اٹھا کر پرے کر دیا۔ پھر اس نے لکڑی کے تختے پر نماز ادا کرنی چاہی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اسے بھی پرے کر دیا۔ اور فرمایا:

صل على الارض ان استطعت والا فاوم ايماء واجعل سجودك اخفض من ركوعك[11]

اگر طاقت ہو تو زمین پر نماز ادا کرو، ورنہ اشارے سے ادا کرو اور سجدہ کرتے وقت (سر کو) رکوع کی نسبت زیادہ جھکا لو۔

کشتی اور ہوائی جہاز وغیرہ میں قیام کے احکام[ترمیم]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے کشتی میں نماز ادا کرنے کے بارے میں دریافت کیا گیا تو فرمایا:

صَلِّ فيها قائماً إلا أن تخاف الغرق [12]

اس میں کھڑے ہو کر نماز پڑھ، سوائے اس کے کہ تجھے غرق ہونے کا ڈر ہو۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو شخص قیام کر سکتا ہو اس کے لیے کشتی یا ہوائی جہاز وغیرہ میں بیٹھ کر نماز ادا کرنا درست نہیں ہے۔

دورانِ قیام ٹیک لگانا[ترمیم]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی عمر مبارک جب زیادہ ہو گئی تو انھوں نے نماز پڑھنے کی جگہ میں ایک ستون رکھ لیا تھاجس پر نماز پڑھتے وقت ٹیک لگا لیا کرتے تھے۔[13]

اسوہ حسنہ کی اس مثال کو سامنے رکھتے ہوئے بوڑھے، کمزور یا مریض آدمی کے لیے عصا یا دیوار وغیرہ کا سہارا لے کر نوافل پڑھنا جائز ہے۔

رات کے نوافل میں قیام[ترمیم]

اوپر ذکر گذر چکا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم حیات مبارکہ کے آخری سال میں رات کے نوافل بیٹھ کر اور کھڑے ہو کر دونوں طرح سے پڑھتے تھے۔ ایسے میں اگر کھڑے ہو کر قراءت فرماتے تو قیام سے رکوع کی حالت میں جاتے۔ اور جب بیٹھ کر قراءت کرتے تو رکوع بھی بیٹھے ہوئے ہی کیا کرتے تھے۔[14]

لیکن یہ مستقل معمول نہ تھا بلکہ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ بیٹھ کر نماز ادا فرماتے، پھر جب قرأت سے تیس یا چالیس کے قریب آیات باقی ہوتیں تو کھڑے ہو کر ان کی تلاوت فرماتے پھر رکوع اور سجدے میں چلے جاتے اور دوسری رکعت میں بھی اسی طرح کرتے۔[14] لہٰذا نمازی کو اختیار ہے کہ اپنی سہولت کے مطابق دونوں میں سے جس طریقے کو چاہے اختیار کر لے۔

بیٹھ کر نماز پڑھنے والے کے لیے چوکڑی مار کر بیٹھنا مستحب ہے۔ام المومنین عائشہ ا بیان کرتی ہیں کہ:

رأيت النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يصلي متربعاً [15]

میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو چوکڑی کی حالت میں نماز پڑھتے دیکھا۔

حوالہ جات[ترمیم]

  1. سورۃ البقرہ 238
  2. سورۃ البقرہ 238،239
  3. صحیح بخاری کتاب الاذان باب انما جعل الامام لیوتم بہ
  4. صحیح مسلم کتاب صلاۃ المسافرین و قصرھا باب جواز النافلۃ قائما و قاعدا۔ ۔۔
  5. صحیح بخاری کتاب الجمعۃ باب ینزل للمکتوبۃ، صحیح مسلم کتاب صلاۃ المسافرین و قصرھا باب جواز صلاۃ النافلۃ علی الدابۃ فی السفر۔
  6. سنن ترمذی کتاب الصلاۃ باب ما جاء اذا صلی الامام قاعدا فصلوا قعودا، صحیح سنن ترمذی حدیث نمبر 362
  7. صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب ائتمام الماموم بالامام
  8. صحیح بخاری کتاب الجمعۃ باب اذا لم یطق قاعدا صلی علی جنب
  9. سنن ابن ماجہ کتاب اقامۃ الصلاۃ و السنۃ فیھا باب صلاۃ القاعد علی النصف من صلاۃ القائم، صحیح سنن ابن ماجہ حدیث نمبر 1231
  10. سنن ابن ماجہ کتاب اقامۃ الصلاۃ و السنۃ فیھا باب صلاۃ القاعد علی النصف من صلاۃ القائم، صحیح سنن ابن ماجہ حدیث نمبر 1230
  11. سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ حدیث نمبر 323، السنن الکبریٰ للبیہقی جلد2 ص 306
  12. سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ حدیث نمبر 3777، صحیح الجامع الصغیر للالبانی حدیث نمبر 7225، سنن الدار القطنی کتاب الصلاۃ باب صفۃ الصلاۃ فی السفر و الجمع بین الصلاتین
  13. سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب الرجل یعتمد فی الصلاۃ علی عصا، صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر 948
  14. ^ ا ب صحیح مسلم کتاب صلاۃ المسافرین و قصرھا باب جواز النافلۃ قائما و قاعدا و فعل بعض الرکعۃ قائما و بعضھا۔
  15. سنن النسائی الصغریٰ کتاب قیام اللیل و تطوع النھار باب کیف صلاۃ القاعد، صحیح سنن نسائی حدیث نمبر 1661