ملکہ خیزران

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
ملکہ خیزران
(عربی میں: الخيزران بنت عطاء ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
معلومات شخصیت
پیدائش 8ویں صدی  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
یمن   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 20 نومبر 789  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بغداد   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن مقبرہ خیزران   ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شریک حیات محمد المہدی [1]  ویکی ڈیٹا پر (P26) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد موسیٰ الہادی ،  ہارون الرشید [1]  ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بہن/بھائی
سلسل بنت عطاء   ویکی ڈیٹا پر (P3373) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ شاعرہ ،  مصنفہ ،  حاکم ،  سیاست دان   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل شاعری   ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

ملکہ خیزران (وفات: 20 نومبر 789ء) عباسی خلیفہ المہدی کی زوجہ، خلیفہ الہادی اور ہارون الرشید کی والدہ تھیں۔وہ خلافت عباسیہ کی پہلی نامور اور شہرت یافتہ ملکہ تھیں۔

سوانح[ترمیم]

عباسی خلیفہ المہدی کی ملکہ۔ عباسی خلفاء الہادی اور ہارون الرشید کی والدہ۔ خیزران بنت عطاء یمن کے ایک علاقے جرثیہ کی رہنے والی ایک باندی تھی۔ ایک روایت کے تحت مہدی اور دوسری روایت کے مطابق خود ابوجعفر منصور نے ایک کثیر رقم کے عوض خریدا تھا۔ مہدی نے اپنی پہلی بیوی ریطہ کے بعد خیزران سے دوسری شادی کی۔ اس کے بطن سے موسیٰ الہادی اور ہارون الرشید کی پیدائش ہوئی۔ خیزران بڑی حسین و جمیل تھی۔ دربار میں آمد اور وہاں کے زندگی بخش ماحول نے اس کے حسن ظاہری و معنوی میں بے حد اضافہ کیا۔ اور جلد ہی اس کی اندرونی صلاحیتیں نکھر کر سامنے آ گئیں۔ خیزران نے جس فطری اور سادہ ماحول میں آنکھ کھولی اس کے زیر اثر وہ محل میں ہر آنے جانے والے چھوٹے بڑے کی دلداری کرتی۔ محتاجوں اور ضرورت مندوں کی حاجت روائی میں بڑی فراخدلی سے کام لیتی۔ وہ کسی فرد و بشر پر اپنی برتری یا فوقیت نہ جتلاتی۔ وہ سب کے ساتھ مل جل کر رہتی اور ان کے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش آتی۔ اس کا یہ نتیجہ نکلا کہ اس نے ہر طبقہ کے لوگوں میں مقبولیت حاصل کر لی۔ لوگ اس کے ساتھ محبت کرنے لگے اور اس کی مدح و ثنا کرتے نہ تھکتے ۔

المہدی اور خیزران[ترمیم]

مہدی کی پہلی بیوی ملکہ ریطہ اپنے خاندانی پس منظر اور احساس برتری کا شکار ہونے کی وجہ سے لوگوں سے کٹ کر رہ گئی اور ایسی ہر دلعزیزی حاصل کرنے میں ناکام رہی جو خیزران کو حاصل ہوئی تھی۔ ریطہ کو اس تبدیلی، گھٹن اور کمی کا احساس تو تھا لیکن وہ نخوت و پندار کے نشہ میں اپنے اندر لچک پیدا کرنے میں ناکام رہی۔ لہذا بہ امر مجبوری اس نے خیزران کے لیے میدان کھلا چھوڑ دیا نتیجتاً مہدی اس کا بندہ بے دام بنتا چلا گیا اور خیزران آہستہ آہستہ اسے اپنی ترغیبات، پسند و ناپسند اور خواہشات کی تکمیل پر چلانے لگی۔ حتیٰ کہ وہ مہدی پر پوری طرح حاوی ہو گئی اور امور سلطنت میں اس کا عمل دخل بڑھتا چلا گیا اور اس کی جاہ پرستی کھل کر کام کرنے لگی۔

برامکہ خاندان[ترمیم]

مہدی کے رے میں قیام کے دوران برمک خاندان کے افراد سے یحییٰ برمکی کی خواتین کو خیزران کا تقرب حاصل ہوا اور اس طرح مہدی اور یحییٰ کے درمیان نہ ٹوٹنے والے تعلقات پیدا ہو گئے۔ یہ خاندان اب بے پایاں شاہی التفات و عنایات کا مرکز بن چکا تھا۔ ہارون الرشید کی ولادت اور کچھ عرصہ بعد مہدی کے خلیفہ بنتے ہی خیزران کا دبدہ اور وقار میں مزید اضافہ ہو گیا اور اس کا زعم بالادستی اور فخر و ناز اپنی انتہائی بلندیوں کو چھونے لگا اور وہ مہدی پر پوری طرح مسلط ہو کر مملک کی واحد صآحب حل و عقد کی حیثیت اختیار کر گئی۔ ہارون الرشید کی پیدائش کے بعد اسے دودھ پلانے کے لیے یحییٰ کی بیوی کے سپرد کر دیا گیا جس کے ہاں فضل برمکی کی پیدائش ہو چکی تھی۔ ملکہ خیزران اپنے ازراہ التفات و مروت اور برامکہ کی تالیف قلب کے لیے کبھی کبھی فضل کو اپنا دودھ پلاتی رہی۔ اس طرح فضل اور ہارون کے درمیان رضاعی بھائی کا رشتہ قائم ہو گیا۔

ہارون سے لگاؤ[ترمیم]

خیرزان اپنے بیٹے موسیٰ الہادی کے مقابلہ میں ہارون الرشید کو اس کی ذہانت اور حسن و جمال کی بنا پر زیادہ چاہتی تھی۔ اور یہ روش موسی کے دل میں کھٹک اور کسک پیدا کرتی رہتی۔ چنانچہ موسیٰ الہادی نے منصب خلافت پر فائز ہونے کے بعد بڑی چابکدستی اور دانش مندی کے ساتھ اپنی ماں کو امور سلطنت سے بے دخل کر دیا اور اس کے اختیارات میں کمی کر دی اور حاجت مندوں کو اس کے دروازے سے دور رکھنے کی تاکید کی۔ ملکہ خیزران محبت و نفرت دونوں میں بے حد حساس اور انتہا پسند تھی۔ اگرچہ اسے زر و جواہرات جمع کرنے اور شان و شوکت کے اظہار کا بڑا شوق تھا۔ لیکن دوسری طرف وہ بے حد فیاض اور دولت لٹانے والی خاتون تھی جو کوئی اس کے در پر حاضر ہوتا جو چاہتا پالیتا اور کوئی سوالی اس کے در سے خالی نہیں جاتا۔ مسکینوں، دکھی اور قسمت کے مارے ہوئے انسانوں کے ساتھ اس کا برتاؤ محبت و شفقت اور رحم پر مبنی تھا۔

عہد ہارون الرشید[ترمیم]

ملکہ کو امور ملکی اور سیاست میں دخل دینے کی بڑی مہارت حاصل تھی۔ اور اگر پردہ اور اسلامی احکامات حائل نہ ہوتے تو وہ کھلم کھلا سیاست میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی۔ علم و ادب اور دین کے اصول و مبادی سے وہ بخوبی آگاہ تھی۔ بعض مورخین کے نزدیک وہ شعربھی موزوں کر لیتی الغرض وہ ایک بڑی، باکردار، پاکباز، دین دار اور ذہین و فطین خاتون تھی اسے دین سے قلبی لگاؤ تھا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بے پناہ محبت تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جائے ولادت پر محل تعمیر کرایا۔ ہارون الرشید کے خلافت کے ابتدائی چار سالوں میں خیزران کی حیثیت ایک بار پھر سامنے آئی۔ اور وہ امور سلطنت مکمل طور پر یحییٰ اور مادر ملکہ خیزران کے ہاتھوں میں مرکوز ہو کر رہ گئی۔

وفات[ترمیم]

ملکہ خیزران کی وفات بروز جمعہ 20 نومبر 789ء کو بغداد میں ہوئی۔ مقبرۃ الخیزران میں تدفین کی گئی۔

  1. ^ ا ب مکمل کام یہاں دستیاب ہے: https://archive.org/details/two_queens_baghdad — اخذ شدہ بتاریخ: 15 فروری 2024 — مصنف: نادعیہ عبود — عنوان : Two queens of Baghdad