خالد خواجہ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
خالد خواجہ
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1951ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
جڑانوالہ   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 30 اپریل 2010ء (58–59 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
طرز وفات قتل   ویکی ڈیٹا پر (P1196) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ انٹیلی جنس افسر ،  فوجی افسر   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عسکری خدمات
لڑائیاں اور جنگیں پاک بھارت جنگ 1971ء   ویکی ڈیٹا پر (P607) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

پاکستانی فوجی افسر۔ پاکستان خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے رکن۔ 1988 میں ان کو فوج سے جبری طور پر ریٹائر کر دیا گیا۔ ملازمت کے دوران میں وہ آئی ایس آئی کے ساتھ وابستہ رہے لیکن ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ان کے رابطے اس ادارے کے ساتھ بحال رہے اور آئی ایس آئی کے لیے مختلف منصوبوں کے لیے کام کرتے رہے اور افغان جہاد میں بھی وہ مختلف معاملوں پر آئی ایس آئی کے لیے مبینہ طور پر خدمات سر انجام دیتے رہے۔

نائن الیون[ترمیم]

نائن الیون کے واقعہ کے بعد انھوں نے مغربی میڈیا پر انٹرویو دیے کہ وہ القاعدہ کے لیڈر اسامہ بن لادن کے پائلٹ رہے ہیں۔ خالد خواجہ کے اس دعوے نے تو پورے مغربی میڈیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کروا لی۔ اس کے علاوہ نواز شریف کے ساتھ خصوصی تعلق اور آئی جے آئی کی تشکیل میں بھی اپنے کردار کے متعلق کئی اہم دعوے کیے۔ ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ کہ انھوں نے اسامہ بن لادن اور نواز شریف کے دو دفعہ ملاقات کرائی ہے جس کی مسلم لیگ ن کے حلقے تردید کرچکے ہیں۔

لال مسجد[ترمیم]

مشرف کے دور میں گرفتار ہوئے مگر رہائی کے بعد لال مسجد میں آنا جانا شروع کر دیا۔ وہ لال مسجد کے خطیب مولانا عبدلعزیز کے چھوٹے بھائی عبدالرشید غازی کے قریبی دوستوں میں شمار ہونے لگے۔ لال مسجد آپریشن کے بعد گرفتار کر لیے گئے۔ بعد میں ضمانت پر رہا ہوئے۔

لاپتہ افراد[ترمیم]

ڈیفنس آف ہومین رائٹس کی چیئرپرسن آمنہ مسعود جنجوعہ کے ساتھ مل کر لاپتہ افراد کی لسٹیں جمع کرنے میں اہم کردار ادا کیا ان لسٹوں کو سپریم کورٹ کے سامنے پیش کیا گیا جس کے بعد سپریم کورٹ نے بہت سے لوگوں کو بازیاب کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔

شہادت[ترمیم]

مارچ کے مہینے میں آئی ایس آئی کے ایک سابق اہلکار سلطان عرف کرنل امام اور ایک برطانوی صحافی کے ہمراہ وزیرستان گئے تاکہ طالبان کے متعلق ایک دستاویزی فلم تیار کی جاسکے۔ وہاں پر ایشین ڈائیگر نامی تنظیم نے انھیں اغوا کر لیا۔ ان کی رہائی کے بدلے اہم طالبان کمانڈروں کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا۔ لیکن 30 اپریل 2010ء کو شمالی وزیرستان کے علاقے میں ان کی لاش ملی۔ انھیں گولیاں مار کر شہید کیا گیا تھا۔