آئین ہند میں مذکور بنیادی حقوق، رہنما اصول اور بنیادی فرائض

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
آئین ہند کا دیباچہ – بھارت کا بنیادی اور عظیم قانون

بنیادی حقوق، ریاستی پالیسی کے رہنما اصول اور بنیادی فرائض آئین ہند کے دفعات ہیں جن میں بھارتی شہریوں کے تئیں ریاست کی ذمہ داریوں اور ریاست کے تئیں شہریوں کے فرائض بیان کیے گئے ہيں۔ ان دفعات میں سرکاری پالیسی سازی اور شہریوں کے ضابطہ اور رویے کے سلسلے میں آئینی حقوق کا ایک بل شامل ہے۔ یہ دفعات آئین کے ضروری عناصر سمجھے جاتے ہیں، جنہیں بھارت کی آئین ساز اسمبلی کی جانب سے 1947ء سے 1949ء کے درمیان میں تیار کیا گیا تھا۔ بنیادی حقوق کو تمام شہریوں کے بنیادی انسانی حق کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ آئین کے حصہ سوم میں وضاحت کے ساتھ درج ہے کہ یہ حقوق نسل، جائے پیدائش، ذات، عقیدہ یا جنسی امتیاز سے قطع نظر ہر شہری پر نافذ اور مخصوص پابندیوں کی تابع عدالتوں کی طرف سے قابل نفاذ ہیں۔ ریاستی پالیسی کے رہنما اصول حکومت کی جانب سے قانون سازی کی ہدایات پر مشتمل ہیں۔ آئین ہند کے حصہ چہارم میں مذکور اصول عدالتوں کی جانب سے قابل نفاذ نہیں ہیں، لیکن جن اصولوں پر یہ مبنی ہیں، وہ حکومت کے لیے بنیادی ہدایات کا درجہ رکھتے ہیں اور ان کے متعلق امید ظاہر کی گئی ہے کہ ریاستی قانون سازی اور منظوری میں ان پر عمل کیا جائے گا۔

حب الوطنی کے جذبے کو فروغ دینے اور بھارت کے اتحاد کو برقرار رکھنے کے لیے بنیادی فرائض کو بھارت کے تمام شہریوں کی اخلاقی ذمہ داری کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ آئین ہند کے حصہ چہارم میں مذکور یہ فرائض افراد اور قوم سے متعلق ہیں اور رہنما اصولوں کی طرح انھیں بھی قانونی طور پر نافذ نہیں کیا جا سکتا۔

تاریخ[ترمیم]

بنیادی حقوق اور رہنما اصولوں کی بنیادیں ہندوستان کی تحریک آزادی میں ملتی ہیں، جس تحریک نے ہندوستانی معاشرے کی فلاح و بہبود اور آزادی کی اقدار کو آزاد ہندوستان کے مقاصد میں شامل کیا تھا اور انھیں حاصل کرنے کے لیے جد و جہد کی۔[1] بھارت کے آئینی حقوق کی تیاری میں انگلستان کے حقوق بل، امریکا کے حقوق بل اور فرانس کے حقوق انسانی اعلامیہ کا واضح اثر نظر آتا ہے۔ برطانوی حکمرانوں اور ہندوستانی قوم کے درمیان میں تفریق کو ختم کرنے کے لیے شہری حقوق کا مطالبہ بھارتی تحریک آزادی کا ایک اہم حصہ تھا۔[2] انڈین نیشنل کانگریس کی جانب سے سنہ 1917ء سے 1919ء کے درمیان میں پیش کی گئی قراردادوں میں اس مطالبے کا وضاحت سے ذکر سے تھا۔[3] ان قراردادوں میں ہندوستانیوں کو قانونی طور پر حق مساوات، آزادی اظہار، مقدموں کی سماعت کرنے والی جیوری میں کم از کم نصف افراد ہندوستانی رکھنے، سیاسی طاقت اور برطانوی شہریوں کی مانند ہتھیار رکھنے جیسے حقوق عطا کرنے کے مطالبات موجود تھے۔[4]

پہلی جنگ عظیم کے تجربات، 1919ء کے غیر اطمینان بخش مونٹیگ-چیمسفرڈ اصلاحات اور ہندوستان کی تحریک آزادی میں گاندھی کے بڑھتے ہوئے اثرات کی وجہ سے شہری حقوق کے مطالبات کے متعلق تحریک آزادی کے رہنماؤں کے نقطۂ نظر میں قابل ذکر تبدیلی آئی اور اب ان کی توجہ ہندوستانیوں اور انگریزوں کے درمیان مساوات کا حق مانگنے کی بجائے تمام ہندوستانیوں کی آزادی کو یقینی بنانے پر مرکوز ہو گئی۔[5] 1925ء میں اینی بیسنٹ کی جانب سے تیار کردہ ہندوستان کے دولت مشترکہ بل میں سات بنیادی حقوق کا خاص طور پر مطالبہ کیا گیا تھا؛ انفرادی آزادی، ضمیر کی آزادی، اظہار رائے کی آزادی، اجتماع کی آزادی، جنسی بنیاد پر عدم تفریق، بنیادی تعلیم اور عوامی مقامات کے استعمال کی آزادی۔[6] 1927ء میں کانگریس نے ظلم و ستم پر نگرانی رکھنے والے حقوق کے اعلامیہ کی بنیاد پر ہندوستان کے "آئین سوراج" کا مسودہ تیار کرنے کے لیے ایک کمیٹی کی تشکیل کی سفارش کی۔ 1928ء میں موتی لال نہرو کی قیادت میں 11 رکنی کمیٹی کا قیام عمل میں آیا۔ کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں تمام ہندوستانیوں کے بنیادی حقوق کی ضمانت سمیت متعدد سفارشات پیش کیں۔ یہ سفارش کردہ بنیادی حقوق امریکی آئین اور جنگ عظیم کے بعد یورپی ممالک کے اختیار کردہ حقوق سے مشابہ تھے، چنانچہ ان میں سے بہت سے حقوق 1925ء کے بل کے ذریعہ اختیار کر لیے گئے۔ بعد ازاں ان میں سے متعدد دفعات کو بنیادی حقوق اور رہنما اصولوں سمیت آئین ہند کے مختلف حصوں میں جوں کا توں شامل کر لیا گیا۔[7]

سنہ 1931ء میں انڈین نیشنل کانگریس نے اپنے کراچی اجلاس میں استحصال کے خاتمہ، سماجی تحفظ کی فراہمی اور اصلاحات زمین کے نفاذ جیسے مقاصد پر مشتمل اعلان کے ساتھ خود کو شہری حقوق اور اقتصادی آزادی کی حفاظت کے تئیں وقف کرنے کی ایک قرارداد منظور کی۔ اس قرارداد میں دیگر نئے مجوزہ حقوق میں ریاستی ملکیت کی ممانعت، حق رائے دہی، سزائے موت کے خاتمے اور اور آمد و رفت کی آزادی جیسے حقوق شامل تھے۔[8] جواہر لال نہرو کی جانب سے تیار کردہ قرارداد کے اس مسودے میں جو بعد میں بہت سے رہنما اصولوں کی بنیاد بنا، سماجی اصلاح کے نفاذ کی بنیادی ذمہ داری ریاست پر ڈالی گئی اور اسی کے ساتھ تحریک آزادی پر اشتراکیت اور گاندھی فلسفہ کے اثرات بڑھنے لگے۔[9] تحریک آزادی کے آخری مرحلے میں 1930ء کی دہائی کے اشتراکی اصولوں کی تکرار نظر آتی ہے اور اس کے ساتھ ہی توجہ کا اصل مرکز اقلیتی حقوق - جو اس وقت تک ایک بڑا سیاسی مسئلہ بن چکا تھا - بن گئے جنہیں 1945ء میں سپرو رپورٹ میں پیش کیا گیا۔ اس رپورٹ میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ پر زور دینے کے علاوہ "قانون ساز ادارہ، حکومت اور عدالتوں کے لیے معیار اخلاق" کا تعین کرنے کی بھی کوشش کی گئی تھی۔[10]

برطانوی راج کے آخری مرحلے کے دوران میں ہندوستان کے کابینی مشن، 1946ء نے اقتدار کی منتقلی کے سلسلہ میں آئین ہند کی تشکیل کے لیے ایک قانون ساز کمیٹی کی تجویز پیش کی۔[11] برطانوی صوبوں اور نوابی ریاستوں سے براہ راست منتخب کردہ نمائندوں پر مشتمل ہندوستان کی آئین ساز اسمبلی نے دسمبر 1946ء میں اپنی کارروائی شروع کی اور نومبر 1949ء میں آئین ہند کا مسودہ مکمل کیا۔[12] کابینی مشن کے منصوبے کے مطابق اقلیتوں کے تحفظ، قبائلی علاقوں کے انتظام اور بنیادی حقوق کی نوعیت اور حد پر مشورہ دینے کے لیے ایک مجلس مشاورت کا قیام ہونا تھا۔ چنانچہ جنوری 1947ء میں 64 رکنی مجلس مشاورت بنائی گئی، بعد ازاں ان ہی میں سے فروری 1947ء میں بنیادی حقوق کی تشکیل کے لیے جے بی کرپلانی کی صدارت میں 12 رکنی ذیلی کمیٹی تشکیل دی گئی۔[13] ذیلی کمیٹی نے بنیادی حقوق کا مسودہ تیار کیا اور کمیٹی کو اپریل 1947ء تک اپنی رپورٹ پیش کردی جسے بعد میں اسی مہینہ کمیٹی نے اس کو اسمبلی کے سامنے پیش کر دیا، جس پر ایک سال تک بحث اور گفت و شنید ہوتی رہی اور دسمبر 1948ء میں مسودے کے بیشتر حصوں کو منظوری دے دی گئی۔[14] بنیادی حقوق کی تشکیل میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی جانب سے جاری کردہ انسانی حقوق کے عالمی منشور،[15] اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کی سرگرمیوں اور امریکی آئین میں موجود حقوق بل کی تشریح میں امریکی عدالت عظمی کے فیصلوں کے اثرات موجود تھے۔[16] رہنما اصولوں کا مسودہ جسے بنیادی حقوق کے لیے قائم شدہ ذیلی کمیٹی کی جانب سے تیار کیا گیا تھا، اس میں ہندوستان کی تحریک آزادی کی اشتراکی تعلیمات کو شامل کیا گیا، نیز وہ آئرستانی آئین کے رہنما اصولوں سے بھی متاثر ہیں۔[17] اور بنیادی فرائض کو سنہ 1976ء میں آئین کی بیالیسویں ترمیم میں شامل کیا گیا۔[18]

بنیادی حقوق[ترمیم]

آئین ہند کے حصہ سوم میں مذکور بنیادی حقوق تمام ہندوستانیوں کے شہری حقوق کی ضمانت فراہم کرتے ہیں، اسی طرح ریاست کو فرد کی ذاتی آزادی میں مخل ہونے سے باز رکھتا نیز شہریوں کے حقوق کے تحفظ کی ذمہ داری بھی ریاست پر عائد کرتا ہے۔ آئین میں اصلاً سات بنیادی حقوق فراہم کیے گئے تھے : مساوات کا حق، آزادی کا حق، غصب کے خلاف حق، مذہب، ثقافت اور تعلیم کی آزادی کا حق، جائداد کا حق اور آئینی چارہ جوئی کا حق۔ تاہم جائداد کے حق کو سنہ 1978ء میں 44 ویں ترمیم کے ذریعہ آئین کے تیسرے حصہ سے ہٹا دیا گیا۔

مذکورہ بالا بنیادی حقوق کا مقصد انفرادی آزادی اور اُن جمہوری اصولوں کا تحفظ ہے جو معاشرے کے تمام افراد کی مساوات پر مبنی ہیں۔ دفعہ 13 کے تحت یہ حقوق مقننہ اور عاملہ کے اختیارات کو محدود کرتے ہیں اور ان حقوق کی خلاف ورزی پر بھارت کی عدالت عظمی اور ریاستی عدالتوں کو یہ اختیار حاصل ہے کہ ایسی کسی قانون سازی یا عاملہ کی کارروائی کو غیر آئینی قرار دے سکیں۔ دفعہ 12 میں مذکور تعریف کے مطابق یہ حقوق بڑے پیمانے پر ریاست کے خلاف قابل نفاذ ہیں اور نہ صرف وفاقی اور ریاستی حکومتوں کی مقننہ اور عاملہ بازؤوں بلکہ مقامی انتظامی حکام اور عوامی کام کرنے والی یا سرکاری نوعیت کی دیگر ایجنسیوں اور اداروں کے خلاف بھی قابل نفاذ ہیں۔ تاہم کچھ حقوق مثلاً دفعات 15، 17، 18، 23، 24 میں مذکور حقوق نجی افراد کے خلاف بھی موجود ہیں۔ نیز کچھ بنیادی حقوق - بشمول ان کے جو دفعات 14، 20، 21، 25 میں مذکور ہیں - بھارت کی سر زمین پر کسی بھی قومیت کے حامل اشخاص پر لاگو ہوتے ہیں، جبکہ کچھ حقوق - مثلاً جو دفعات 15، 16، 19، 30 کے تحت موجود ہیں - صرف ہندوستانی شہریوں کے لیے ہیں۔

بنیادی حقوق مطلق نہیں ہیں چنانچہ عوامی مفادات کے تحفط کی خاطر ان پر مناسب پابندیاں بھی عائد کی جا سکتی ہیں۔ 1973ء میں كیشوانند بھارتی بمقابلہ کیرالا حکومت کے معاملے میں بھارتی عدالت عظمیٰ نے 1967ء کے اپنے سابقہ فیصلے کو منسوخ کرتے ہوئے یہ فیصلہ کیا کہ بنیادی حقوق میں ترمیم کی جا سکتی ہے، اگر اس طرح کی کسی ترمیم سے آئین کے بنیادی ڈھانچے کی خلاف ورزی ہوتی ہو تو عدالتی نطر ثانی کے تحت پارلیمنٹ کے ہر ایوان میں دو تہائی اکثریت سے منظور آئینی ترمیم کے ذریعہ بنیادی حقوق میں اضافہ یا حذف کیا جا سکتا ہے یا بصورت دیگر نظر ثانی کی جا سکتی ہے۔ ہنگامی صورت حال نافذ ہونے کی صورت میں دفعہ 20 اور 21 کو چھوڑ کر دیگر بنیادی حقوق میں سے کسی کو بھی صدر جمہوریہ کے حکم سے عارضی طور پر معطل کیا جا سکتا ہے۔ نیز ایمرجنسی کے دوران میں صدر جمہوریہ کے حکم سے آئینی چارہ جوئی کے حقوق کو بھی معطل کیا جا سکتا ہے، نتیجتاً دفعہ 20 اور 21 کے سوا کسی بھی بنیادی حق کے نفاذ کے لیے شہریوں کی عدالت عظمیٰ میں جانے پر پابندی عائد ہو جاتی ہے۔ مزید، پارلیمنٹ بھی دفعہ 33 کے تحت قانون بنا کر شہریوں کے فرائض کی مناسب ادائیگی کو یقینی بنانے اور نظم و ضبط کی بحالی کے لیے بھارتی مسلح افواج اور پولیس کے ارکان کے بنیادی حقوق کو محدود کر سکتی ہے۔

حق مساوات[ترمیم]

مساوات کا حق آئین کی اہم ضمانتوں میں سے ایک ہے۔ اس حق کا تذکرہ دفعہ 14 تا 16 میں موجود ہے، جن میں اجتماعی طور پر قانونی مساوات اور غیر امتیازی سلوک کے عام اصول شامل ہیں اور دفعہ 17 تا 18 میں اجتماعی طور پر سماجی مساوات کا فلسفہ مذکور ہے۔ دفعہ 14 قانونی مساوات کی ضمانت دیتا ہے اور ساتھ ہی بھارت کی سرحدوں کے اندر تمام افراد کو قانون کا یکساں تحفظ فراہم کرتا ہے۔ اس میں قانونی مقتدرہ کے سامنے تمام افراد کی مساوی ماتحتی اور یکساں حالات میں مساوی برتاؤ بھی شامل ہے۔ موخر الذکر دفعہ میں ریاست کو اس بات کی بھی اجازت دی گئی ہے کہ وہ جائز مقاصد کے لیے افراد کی درجہ بندی کر سکتی ہے، بشرطیکہ اس کے لیے معقول بنیاد موجود ہو، جس کا مطلب یہ ہے کہ درجہ بندی میں من مانی نہ ہو اور درجہ بندی کیے جانے والے لوگوں میں ہونے والی تفریق ایک طریقہ کار پر مبنی ہو، نیز اس درجہ بندی سے مطلوبہ مقصد کا عقلی تعلق ہونا ضروری ہے۔

دفعہ 15 میں مذہب، نسل، ذات، جنس، جائے پیدائش یا ان میں سے کسی ایک کی بنیاد پر امتیازی سلوک کرنے پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ جزوی یا کلی طور ریاستی سرمایے کے زیر انتظام چلنے والے عوامی تفریحی مقامات یا عوامی نزہت گاہوں میں مفت داخلے کے سلسلے میں یہ حق ریاست کے ساتھ ساتھ نجی افراد کے خلاف بھی قابل نفاذ ہے ؛ تاہم ریاست کو خواتین اور بچوں یا درج فہرست ذاتوں اور قبیلوں سمیت سماجی اور تعلیمی طور پر پسماندہ طبقوں کے شہریوں کے لیے خصوصی انتظام کرنے سے نہیں روکا گیا ہے۔ اس استثنا کی وجہ یہ ہے کہ اس دفعہ میں مذکور طبقوں کے لوگ محروم سمجھے جاتے ہیں اور انھیں خصوصی تحفظ کی ضرورت ہوتی ہے۔ دفعہ 16 میں عوامی روزگار کے مساوی مواقع فراہم کرنے کی ضمانت موجود ہے اور ریاست کو محض مذہب، نسل، ذات، جنس، جائے پیدائش، جائے سکونت یا ان میں سے کسی ایک کی بنیاد پر کسی شہری کے خلاف امتیازی سلوک کرنے سے باز رہنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ نیز اس دفعہ میں ریاست کو تمام پسماندہ طبقوں کے شہریوں کی عوامی خدمات میں مناسب نمائندگی کو یقینی بنانے کے لیے ان کے مفاد میں مثبت کارروائی کرنے کی رعایت دی گئی ہے، اسی طرح کسی مذہبی ادارے کے عہدے کو اس مذہب کی پیروی کرنے والے شخص کے لیے مخصوص کیا گیا ہے۔

دفعہ 17 میں چھوت چھات کو قابل سزا جرم قرار دیا گیا ہے، چنانچہ اس مقصد کے لیے قانون تحفظ شہری حقوق 1955ء پارلیمنٹ کی جانب سے نافذ کیا گیا ہے۔ دفعہ 18 میں ریاست کو فوجی یا تعلیمی امتیازات کو چھوڑ کر کسی کو بھی القاب سے نوازنے سے منع کیا گیا ہے اور کوئی بھی ہندوستانی شہری کسی غیر ملکی ریاست سے کوئی لقب قبول نہیں کر سکتا، یوں بھارتی اشرافیہ کے القاب اور انگریزوں کے دیے گئے القاب کو ختم کر دیا گیا ہے۔ تاہم عدالت عظمی نے بھارت رتن جیسے اعزاز کو اس بنیاد پر درست قرار دیا ہے کہ یہ اعزاز محض آرائشی ہیں اور وصول کنندہ اس اعزاز کو لقب کے طور پر استعمال نہیں کر سکتا۔

آزادی کا حق[ترمیم]

دستور سازوں نے حق آزادی کی اہمیت کے پیش نظر اس حق کو دفعہ 19-22 میں شامل کیا ہے اور ان دفعات میں کچھ پابندیاں بھی شامل کی ہیں جنہیں خصوصی حالات میں ریاست کی جانب سے انفرادی آزادی پر لاگو کیا جا سکتا ہے۔ دفعہ 19 میں شہری حقوق کے تحت چھ آزادیوں کی ضمانت دی گئی ہے، تاہم یہ ضمانت محض ہندوستانی شہریوں کو حاصل ہے۔ چھ قسم کی یہ آزادیاں حسب ذیل ہیں :

  1. آزادی اظہار رائے
  2. بدون ہتھیار اجتماع کی آزادی
  3. آزادی تنظیم
  4. بھارت میں سفر کی آزادی
  5. بھارت کے کسی بھی خطے میں سکونت کی آزادی
  6. پیشہ، کاروبار یا تجارت کی آزادی

یہ تمام آزادیاں دفعہ 19 میں مذکور ہیں اور کچھ مناسب پابندیوں کے تابع ہیں، جنہیں ریاست کی جانب سے ان پر نافذ کیا جا سکتا ہے۔ آزادی کی جس قسم کو محدود کرنا مقصود ہو اس کے مطابق پابندیوں کو نافذ کرنے کی بنیادیں مختلف ہوتی ہیں، ان میں قومی سلامتی، عوامی نظم و نسق، شرافت اور اخلاقیات، توہین عدالت، جرائم پر اکسانا اور بدنامی شامل ہیں۔ عوامی مفادات کی خاطر ریاست کو کسی تجارت، صنعت یا خدمت کو قومیانے کا اختیار بھی دیا گیا ہے۔

دفعہ 19 میں مذکور آزادیوں کی ضمانت کو دفعہ 20 تا 22 کے ذریعہ بھی محفوظ رکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ان شقوں کی توسیع اور خصوصاً مقررہ طریقہ کار کے اصول کے متعلق آئین ساز اسمبلی میں زبردست بحث ہوئی تھی۔ بحث کے دوران میں خاص طور پر بینیگل نرسنگ راؤ نے یہ دلیل دی کہ ایسی دفعہ کے نفاذ سے سماجی قانون سازی میں رکاوٹ آئے گی اور نظام کو برقرار رکھنے میں طریقہ کار کی مشکلات پیدا ہوں گی، اس لیے اسے مکمل طور آئین سے باہر ہی رکھا جائے۔ بالآخر آئین ساز اسمبلی نے 1948ء میں "مقررہ طریقہ کار" کے الفاظ ہٹا کر ان کی جگہ "قانونی طور پر مقررہ طریقہ کار" کی تعبیر استعمال کی۔ نتیجتاً دفعہ 21 جو ریاست کو کسی شخص کی زندگی یا ذاتی آزادی میں مداخلت سے باز رکھتی ہے کے مفہوم کو 1978ء تک عاملہ کی کارروائی تک محدود سمجھا گیا۔ تاہم 1978ء میں مینکا گاندھی بمقابلہ بھارت یونین کے معاملے میں عدالت عظمی نے دفعہ 21 کے تحفظ کو مقننہ کی کارروائی تک توسیع دیتے ہوئے فیصلہ کیا کہ کسی کارروائی کا تعین کرنے والا قانون مناسب، منصفانہ اور منطقی ہونا چاہیے۔ اسی معاملے میں عدالت عظمی نے یہ بھی کہا کہ دفعہ 21 کے تحت "زندگی" کا مطلب محض ایک "مخلوق کے وجود" سے کہیں زیادہ ہے ؛ اس میں انسانی وقار کے ساتھ جینے کا حق اور وہ تمام پہلو جو زندگی کو "بامعنی، مکمل اور قابل زیست" بناتے ہیں، شامل ہیں۔ اس کے بعد کی عدالتی تشریحات نے دفعہ 21 کے اندر متعدد حقوق کو شامل کرتے ہوئے اس کے حدود میں توسیع کی، ان حقوق میں ذریعہ معاش، صاف ماحول، اچھی صحت، عدالتوں میں تیز رفتار سماعت اور بحالت قید انسانی رویہ کے استعمال سے متعلق حقوق شامل ہیں۔ نیز سنہ 2002ء کی چھیاسویں آئینی ترمیم میں دفعہ 21 الف میں ابتدائی تعلیم کے حق کو بنیادی حق قرار دیا گیا۔

حوالہ جات[ترمیم]

ملاحظات[ترمیم]

  1. Austin 1999, p. 50
  2. Tayal, B.B. & Jacob, A. (2005)، Indian History, World Developments and Civics، p. A-23
  3. Austin 1999, pp. 52–53
  4. Austin 1999, p. 53
  5. Austin 1999, pp. 53–54
  6. Austin 1999, p. 54
  7. Austin 1999, pp. 54–55
  8. Austin 1999, p. 56
  9. Austin 1999, pp. 56–57
  10. Austin 1999, p. 57
  11. Basu 1993, p. 15
  12. Basu 1993, p. 19
  13. Austin 1999, pp. 61–62
  14. Austin 1999, pp. 62–63
  15. Austin 1999, p. 59
  16. Austin 1999, p. 73
  17. Austin 1999, pp. 73–74
  18. Basu 1993, p. 131

کتابیات[ترمیم]

  • Granville Austin (1999)۔ The Indian Constitution: Cornerstone of a Nation۔ New Delhi: Oxford University Press۔ صفحہ: 390۔ ISBN 0-19-564959-1 
  • Durga Das Basu (1993)۔ Introduction to the Constitution of India (15th ایڈیشن)۔ New Delhi: Prentice Hall of India۔ صفحہ: 475۔ ISBN 81-203-0839-5 
  • Durga Das Basu (2003)۔ Shorter Constitution of India (13th ایڈیشن)۔ Nagpur: Wadhwa & Co۔ صفحہ: 1972۔ ISBN 978-81-8038-206-2 

مزید پڑھیے[ترمیم]