آذربائیجان کی سیاست

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
سلسلہ مضامین
سیاست و حکومت
Azerbaijan
باب Azerbaijan


آذربائیجان نیم صدارتی جمہوریہ ریاست ہے۔ صدر آذربائیجان سربراہ ریاست ہے اور وزیر اعظم آذربائیجان سربراہ حکومت ہے۔ حکومت کی باگ ڈور صدر کے ہاتھ میں ہوتی ہے اور وہی عاملہ کے سارے اختیارات استعمال کرتا ہے جبکہ مقننہ کے اختیارات پارلیمان اور حکومت کے زیر استعمال ہے۔ آذربائیجان کی عدلیہ عاملہ اور مقننہ سے آزاد اکائی ہے۔[1]

سیاسی تاریخ[ترمیم]

30 اگست 1991 کو سوویت اتحاد کے آذربائیجان کو آزادی ملی۔ آذربائیجانی کمیونسٹ پارٹی کے سابق اور اول سکریٹری ایاز متیلبو آزاد آذاربائیجان کے پہلے صدر مقرر ہوئے۔ نگورنو کاراباخ کے خوجالی میں مارچ 1992ء میں آذاربائیجانیوں کے قتل عام کے بعد ایاز کو استعفی دینا پڑا اور ملک میں سیاسی ہنگامی حالات شروع ہو گئے۔ مئی 1992ء میں وہ پھر حکومت پر قابض ہو گئے لیکن ایک ہفتہ کے اندر ہی انھوں نے صدارتی انتخابات کو منسوخ کر دیا اور تمام سیاسی سرگرمیوں پر پابندی لگا دی۔ اس سے حزب مخالف پارٹی آذربائیجان پاپولر فرنٹ پارٹی کو ایک مضبوط تحریک چلانے کا موقع مل گیا۔ پاپولر فرنٹ نے کمیونسٹ سوویت کو تحلیل کر دیا اور سے تمام انتظامی امور کو 50 رکنی ایوان بالا میں منتقل کر دیا۔

جون 1992ء میں صدارتی انتخابات ہوئے اور پاپولر فرنٹ کے ابو الفضل ایلجی بے صدر منتخب ہوئے۔ ان انتخاب میں 7 امیدوار تھے مگر ان سب کے درمیان میں ایلجی بے کو 54 فیصد ووٹ ملے اور آذربائیجان کے پہلے جمہوری طور منتخب صدر بنے۔ وہ پہلے غیر کمیونسٹ صدر بھی تھے۔ انھوں نے آذربائیجان سے سوویت کی فوج کو باہر کر دیا اور اس طرح آذربائیجان پہلا اور سابق سوویت ملک بنا جہاں سوویت کی فوج نہیں تھی۔ اس کے معا بعد ایلجی بے نے نیشنل کیپسین نیوی کو قائم کیا اور روس سے ایک چوتھائی کیسپین نیوی حاصل کرنے کامعاہدہ بھی کر لیا۔

نیشنل کونسل نے نئے اسپیکر حیدر علیف کے ذریعے نئے صدر کو اختیارات سونپ دئے۔ حیدر علیف آذربائیجانی کمیونسٹ پارٹی کے سابق سکریٹری رہ چکے ہیں۔ وہ بعد میں سوویت اتحاد کے پولٹ بیورو، کے جی پی کے رکن بھی رہے اور 1987ء تک سوویت اتحاد کے نائب وزیر اعظم بھی رہے تھے۔ اگست 1987ء میں ریفرینڈم کے ذریعے الیجی بے کو معزول کر دیا گیا تھا۔ بعد میں وہ انتخابات کے ذریعے 5 برس کی مدت کے لیے صدر منتخب ہوئے۔ 1998ء میں وہ دوسری مرتبہ 5 برس کے لیے صدر منتخب ہوئے۔

حوالہ جات[ترمیم]

  1. Jody LaPorte (2016)۔ "Semi-presidentialism in Azerbaijan"۔ $1 میں Robert Elgie، Sophia Moestrup۔ Semi-Presidentialism in the Caucasus and Central Asia۔ London: Palgrave Macmillan (شائع 15 مئی 2016)۔ صفحہ: 91–117۔ ISBN 978-1-137-38780-6۔ LCCN 2016939393۔ OCLC 6039791976۔ doi:10.1057/978-1-137-38781-3_4۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 اکتوبر 2017۔ LaPorte examines the dynamics of semi-presidentialism in Azerbaijan. Azerbaijan’s regime is a curious hybrid, in which semi-presidential institutions operate in the larger context of authoritarianism. The author compares formal Constitutional provisions with the practice of politics in the country, suggesting that formal and informal sources of authority come together to enhance the effective powers of the presidency. In addition to the considerable formal powers laid out in the Constitution, Azerbaijan’s president also benefits from the support of the ruling party and informal family and patronage networks. LaPorte concludes by discussing the theoretical implications of this symbiosis between formal and informal institutions in Azerbaijan’s semi-presidential regime.