مندرجات کا رخ کریں

آروگیہ نکیتن

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
گلشنِ صحت
آروگیہ نکیتن کا اردو ترجمہ ”گُلشنِ صحت“
مصنفتارا شنکر بندوپادھیائے
اصل عنوانআরোগ্য নিকেতন (آروگیہ نکیتن)
مترجمشانتی رنجن بھٹاچاریہ
ملک بھارت
زبانبنگالی
تاریخ اشاعت
1953ء
1990ء (اردو ترجمہ)
اعزازاتساہتیہ اکادمی انعام (1956ء)
ریختہ ای بکسگُلشنِ صحت

آروگیہ نکیتن (یعنی ”شفا خانہ“) سنہ 1953ء میں تحریر کردہ ایک بنگالی ناول ہے جس کے خالق بھارت کے نامور ادیب تارا شنکر بندوپادھیائے ہیں۔[1][2] یہ ناول سب سے پہلے 1359 بنگالی سال کے ماہِ چَیتر میں آنند بازار پتریکا میں ”سنجیون فارمیسی“ کے عنوان سے شائع ہوا تھا۔ بعد ازاں جب اس کا دوسرا ایڈیشن شائع کیا گیا تو مصنف نے اس میں کئی ترامیم و اصلاحات کیں اور اس کا عنوان بدل کر ”آروگیہ نکیتن“ رکھ دیا۔[3]

یہ شاہکار سنہ 1955ء میں رابندر پُرسکار اور 1956ء میں ساہتیہ اکادمی انعام کا مستحق ٹھہرا۔[4][5] بعد ازاں سنہ 1967ء میں فلمساز بِجَے بوس نے اسی پر مبنی ایک فلم بنائی۔ سنہ 1990ء میں شانتی رنجن بھٹاچاریہ نے اسے ”گُلشنِ صحت“ کے عنوان اردو قالب میں ڈھالا۔ اردو کے علاوہ یہ ناول کئی زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔

کہانی

[ترمیم]

یہ کہانی مغربی بنگال کے دیہی علاقے دیبی پور میں قائم ایک قدیم آیورویدک دوا خانے ”آروگیہ نکیتن“ کے گرد گھومتی ہے، جو مشائی خاندان کی تین نسلوں کی طبی خدمت کا مرکز رہا ہے۔

جگ بندھو کویراج مشائی نے اس دواخانے کی بنیاد رکھی۔ وہ ایک عظیم آیورویدک طبیب تھے جو نبض دیکھ کر بیماری اور بعض اوقات موت تک کی پیش گوئی کر لیتے تھے۔ ان کے بعد ان کے بیٹے جیون مشائی نے یہ وراثت سنبھالی۔

کہانی کا مرکزی محور کویراج جیون دت مشائی ہے جو جدید تعلیم یافتہ ڈاکٹر رنگ لال سے متاثر ہوکر الوپیتھی طب پڑھنا چاہتا تھا۔ وہ میڈیکل کالج میں داخل ہوا مگر حالات کے باعث اسے چھوڑ کر دوبارہ آیوروید سیکھنی پڑی۔ وہ اپنے والد جتنا ہی ماہر طبیب بن گیا مگر زمانہ اب بدل چکا تھا۔

آیوروید بدنامی کا شکار ہو چکا ہے کیونکہ کچھ دھوکے باز افراد محض اس کے ماہر بننے کا دکھاوا کرتے تھے۔ اب لوگ بمشکل ہی آروگیہ نکیتن آیا کرتے اور اب دیبی پور کے لوگ آیوروید سے زیادہ الوپیتھی دواخانے اور سرکاری اسپتال پر بھروسا کرتے تھے، جسے ڈاکٹر پردیوت جیسے قابل ڈاکٹروں نے سنبھالا ہوا تھا۔ ڈاکٹر پردیوت جیون مشائی کے نبض دیکھ کر تشخیص کرنے اور موت کی پیشگوئی پر تنقید کرتا ہے۔ وہ اسے غیر سائنسی اور غیر اخلاقی سمجھتا ہے۔

ناول کا اصل تناؤ جیون مشائی اور ڈاکٹر پردیوت کے درمیان روایت و جدیدیت کی فکری اور اخلاقی کشمکش ہے۔ کہانی مریضوں کے علاج، ان کی موت اور علاج کے مختلف نظریات کے ذریعے زندگی اور موت کی معنویت پر قاری کو غور و فکر پر مجبور کرتی ہے۔

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. "Our Contributors". Indian Literature (بزبان انگریزی). 2 (1): 182–184. 1958. ISSN:0019-5804.
  2. Rajakrishnan V. (2000). "Beat from the Territory of the Dead". Indian Literature (بزبان انگریزی). 44 (3 (197)): 179–185. ISSN:0019-5804.
  3. "আলোচনা : আরোগ‍্য নিকেতন উপন‍্যাস". Amar Bangla Academy (بزبان بنگالی). 14 Jul 2020. Retrieved 2025-06-30.
  4. "Sahitya Akademi award: Bengali" (بزبان انگریزی). sahitya-akademi.gov.in. Retrieved 2019-07-12.
  5. Sayad Mustafa Siraj (2012). Die, Said the Tree and Other Stories (بزبان انگریزی). Katha. pp. 13–. ISBN:978-81-89934-98-9.