آغا بابر
آغا بابر | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 31 مارچ 1919 بٹالا، ضلع گرداسپور، برطانوی پنجاب |
وفات | 25 ستمبر 1998 (79 سال) نیویارک شہر، ریاستہائے متحدہ امریکا |
شہریت | ![]() ![]() |
بہن/بھائی | |
عملی زندگی | |
مادر علمی | جامعہ پنجاب |
پیشہ | ڈراما نگار، افسانہ نگار، مدیر، ناول نگار |
پیشہ ورانہ زبان | اردو |
ملازمت | بین الخدماتی تعلقات عامہ |
تحریک | حلقہ ارباب ذوق |
![]() | |
درستی - ترمیم ![]() |
آغا بابر (پیدائش: 31 مارچ، 1919ء- وفات: 25 ستمبر، 1998ء) پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو زبان کے ممتاز افسانہ نگار، ناول نگار اور ڈراما نویس تھے۔
حالات زندگی[ترمیم]
آغا بابر 31 مارچ، 1919ء کوبٹالہ، ضلع گرداسپور، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ ان کا صل نام سجاد حسین تھا۔ وہ گورنمنٹ کالج لاہور اور پنجاب یونیورسٹی کے فارغ التحصیل تھے۔ ابتدا میں انہوں نے فلموں میں مکالمہ نویس کے طور پر کام کیا اور تقسیم ہند کے بعد پاکستان منتقل ہو گئے اورانٹر سروسز پبلک ریلیشنزکے جریدے مجاہد اور ہلال کے مدیر رہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ امریکا چلے گئے اور عمر کا باقی حصہ انہوں نے وہیں بسر کیا۔ وہ مشہور افسانہ نگار اور مؤرخ عاشق حسین بٹالوی اور ممتاز قانون دان اعجاز حسین بٹالوی کے بھائی تھے۔ آغا بابر اردو کے اہم افسانہ نگاروں میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کے افسانوی مجموعوں میں چاک گریباں ، لب گویا، اڑن طشتری، کہانی بولتی ہے اور پھول کی کوئی قیمت نہیں ، ایک ناول حوا کی کہانی کے علاوہ ڈراموں کے تین مجموعے بڑا صاحب، سیز فائر اور گوارا ہونیش عشق شامل ہیں۔ انہوں نے اپنی سوانح عمری بھی قلم بند کی تھی مگر وہ ان کی وفات کہ وجہ سے ادھوری رہ گئے۔[1]
تصانیف[ترمیم]
- چاک گریباں (افسانے)
- لب گویا (افسانے)
- اڑن طشتری (افسانے)
- کہانی بولتی ہے (افسانے)
- پھول کی کوئی قیمت نہیں (افسانے)
- حوا کی کہانی (ناول)
- بڑا صاحب (ڈراما)
- سیش فائر (ڈراما)
- گوارا ہونیش عشق (ڈراما)
وفات[ترمیم]
آغا بابر 25 ستمبر 1998ء کو نیو یارک ریاستہائے متحدہ امریکا میں وفات پاگئے۔[1]
حوالہ جات[ترمیم]
- ^ ا ب عقیل عباس جعفری، پاکستان کرونیکل، ورثہ پبلی کیشنز کراچی، 2010ء، ص 825