آغا خان دوم

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
آغا خان دوم
(فارسی میں: آقا علی شاه ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1830ء [1]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
محلات   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات اگست1885ء (54–55 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پونے   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن عراق   ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت برطانوی ہند   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
زوجہ لیڈی علی شاہ [2]  ویکی ڈیٹا پر (P26) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد آغا خان سوم   ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والد آغا خان اول   ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
خاندان قاجار خاندان   ویکی ڈیٹا پر (P53) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مناصب
اسماعیلی نزاری امام   ویکی ڈیٹا پر (P39) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
برسر عہدہ
1881  – 1885 
آغا خان اول  
آغا خان سوم  
عملی زندگی
پیشہ امام   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

آپ آغاخان ثانی کے نام سے بھی معروف تھے۔ آپ کی پیدائش محلات(ایران )میں ١٢٤٦ھ /١٨٣٠ء میں ہوئی تھی۔آپ کی والدہ ماجدہ کا نام " شہزادی سرور جہان بیگم تھا "جو ایران کے بادشاہ فتح علی شاہ قاچار کی بیٹی تھی ۔

ہم عصر دُنیا[ترمیم]

"جب آپ دس سال کے تھے تو آپ کے والد صاحب نے آپ کو آپ کی والدہ شہزادی سرورجہان بیگم کے ساتھ عراق روانہ کیا۔چنانچہ آپ کی تعلیم و تربیت بھی وہان ہی ہوئی۔اُس وقت عراق میں ایران کے شہزادے رہتے تھے۔جن میں خاص طور پر فتح علی شاہ قاچار کے بیٹا ظلُ السلطان اور دوسرے جلاوطن شہزادے آغاخان دوم کے دوست تھے۔اور امام اُن کے ساتھ شکار وغیرہ بھی کھیلنے جایا کرتے تھے۔وہی عراق میں آپ کی پہلی شادی ہوئی تھی۔جن کے بطن سے دو فرزند ہوئے۔یہ بیگم کچھ عرصے بعد فوت ہوگئیں۔آغاخان دوم بہت بہادر اور اشکار کے شوقين تھے۔اور بہت بڑے نشانچی تھے۔ " جب حضرت امام حسن علی شاہ آغاخان آول ممبئ پر مستقل طور پر رہنے لگے۔ تو آغاخان دوم بھی ممبئ تشریف لے آئے۔اور امام حسن علی شاہ آغاخان آول نے اُن کو آپنا والی عہد نامزد کیا۔اس کے بعد آپ اپنے والد صاحب کی مذھبی امور اور جماعت کی نظم و نسق میں مدد کرتے تھے۔اِس سلسلے میں کَچھ، کاٹھیاواڑ اور سندھ کی جماعتوں کا بھی دورہ کیاتھا۔اور ہدایت اور نصیحت کے پیغام بھی پہنچائے تھے۔بمبئ میں آپ کی دوسری شادی ہوئی ۔ لیکن یہ بیگم بھی فوت ہوگئیں۔اس کے بعد آپ نے تیسری شادی نواب عالیہ شمس الملک جو ایران کی شاہی خاندان کی شہزادی تھیں۔اُن کے ساتھ ممبئ میں ہوئی۔جن کے بطن سے آغا خان سوم کراچی میں پیدا ہوئے۔ دوسرے فرزند پیر شہاب الدین شاہ عُرف پیر خلیل اللہ شاہ اور آغا نور شاہ تھے۔

جب سے اِمام حسن علی شاہ آغاخان اول نے ہندوستان میں مستقل طور پر قیام کیا۔ اُس وقت سے انگریزوں کی حکومت ہندوستان میں پھیل گئی۔سندھ پر ١٢٥٩ھ بمطابق ١٨٤٣ء میں قبصہ ہوا۔اس کے بعد پنجاب اور بلوچستان فتح ہوئے۔اور ١٢٧٤ھ ١٨٥٧ء میںمغل خاندان کی حکومت ختم کرکےانگریز پورےہندوستان کے حاکم بن گئے تھے۔شروغ میں اس حکومت کے پایہ تخت کلکتہ تھا۔پھر اس کو شملہ میں رکھا گیا۔اس طرح انگريز حکومت کا وائسرائے وہان رہتا تھا۔اور مختلف علاقوں میں گورنر مقرر کرکے پورے ہندوستان پر حکومت کرتے تھے۔اس انگریزحکومت کو " برٹش انڈین گورنمنٹ" کہتے تھے۔جو برطانیہ کی حکومت کے ماتخت یعنی" ملکہ وکٹوریہ "کے تخت تھی۔ " اس حکومت کے ماتخت ہندوستان میں مقامی لوگوں کو کچھ حقوق ملے تھے۔جن کے تحت وہ آپنی مذھبی امور میں تو آزاد تھے۔لیکن سیاست وغیرہ میں حصہ نہیں لے سکتے تھے۔خاص طور پر انگریزوں نے مسلمانوں کو ہٹاکر آپنی حکومت قائم کی تھی۔اس لیے مسلمانوں کو کسی بھی تحریک میں حصہ لینے کی آزادی نہ تھی۔اس لیے انگريزوں نے جگہ جگہ انگریزی تعلیم۔اور مقامی زبانوں میں تعلیم۔کے لیے سسکولیں قائم کیے تھے۔اور ملک میں آپنی طاقت مضبوظ قائم کرنے کے لیے ریلوے نظام قائم کیا۔اور دوسرے اقدامات کیے تھے۔تاکہ تمام علاقوں پر اچھی طرح تلسلط قائم رکھ سکیں۔مسلمان انگریزعیسائیوں سے دوستی نہیں رکھتے تھے۔اور تعلیم کے میدان میں بھی دوسری قوموں کی نسبت کم فائدہ اُٹھاتے تھے۔ " مسلمانوں کے کئی امرا اور ہندو راجاؤن اور مہاراجاؤن کو انگريزوں نے پنشن دیکر انھیں آپنے ماتخت کر رکھا تھا۔اُن کو آپنے آپنے علاقوں میں رہنے کی اجازت تو تھی۔مگر اب اُن علاقوں میں وہ لیڈر نہیں بن سکتے تھے۔مثلاً سندھ کے میروں کو شروغ میں کلکتہ میں رکھا گیا تھا۔ لیکن جب پورے ہندوستان پرانگریزمسلط ہو گئے۔تو اُن کو آپنے آپنے علاقوں میں رہنے دیا گیا تھا۔

اس کے علاوہ انگریزوں نے مقامی لوگوں کو فوج میں بھرتی کرکے آپنے لشکر بنائے۔اور اُن کو لڑنے کے لیے نیا ہتھیاروں سے بھی لیس کیا۔اس طرح پورے ملک میں انگريز حکومت تھی۔اور بمبئ میں گورنر رہتا تھا۔جو سندھ اور ممبئ تک کے علاقے کا انتظام کرتا تھا۔اور ممبئ میں آغاخان دوم شاہ علی شاہ قیام پزیر تھے۔انھوں نے آپنے رہنے کے لیے۔پونا۔میں بھی مقام بنایا تھا۔چنانچہ وہ۔پونا۔میں بھیرہتے تھے۔جہان کی اب و ہوا امام شاہ علی شاہ کو موافق تھی۔اور آپ بیگم نواب عالیہ شمس الملک لیڈی علی شاہ کے ساتھ گرمیوں میں پونا میں اور گرمیوں میں بمبئ میں آپنے شہزادوں کے ساتھ رہتے تھے۔

خاندان[ترمیم]

آغاخان دوم کی بیگم جن کو لیڈی شاہ کے نام سے بھی یاد کیا جاتا تھا۔بہت ہی نیک خاتون تھیں۔اور آپنے اعلی کردار کی وجہ سے بہت مشہور ہوئیں۔ممبئ میں کئی مہا رانیوں اور شہزادیوں کے ساتھ ملتی جُلتی تھی۔اور اُن کی دُکھ تکلیف میں مدد کرتی تھیں۔اور آغاخان دوم اور اُن کے فرزندوں کی دیکھ بھال کرتی گھیں۔آپ بے حد پرہیزگار اور عابد تھیں۔امام آغاخان دوم علی شاہ کے بڑے شہزادے، ـ1⃣ ـ پیر شہاب الدین شاہ رحمۃ اللّٰہ علیہ تھے۔جو بڑے عالم و فضل تھے۔اُن کو امام نے پیر کا لقب عنایت کیا تھا۔انھوں نے دو کتابیں لکھی ایک ۔۔رسالہ درحقیقت دین۔۔۔اور دوسری۔خطابات عالیہ۔۔یہ دونوں کتابیں فارسی زبان میں ہیں۔آپ کی علمی خدمت بہت ہے۔جن میں خواجہ جماعتوں کو وعظ اور نصیحت کرنا۔اور دُعا پڑھنے کے لیے تلفظ وغیرہ سکھاناہیں۔ممبئ سے بہت سی عالم و فاضل لوگ آپ سے ملنے کے لیے اتے تھے۔اور علم سے بہرہ در ہوتے تھے۔آپ ٣٣ سال عمر میں١٣٠٢ /١٨٨٥ء میں پونا وفات ہوا۔اور آپ کو دفن کے لیے کربلا لے گئے تھے۔

2⃣ نور شاہ آغاخان دوم کے دوسرے شہزادے تھے۔اور آپ پیر شہاب الدین شاہ سے تین سال چھوٹے تھے۔آپ کو بھی آپنی والد صاحب کی طرح شکار کا شوق تھا۔ایک دفعہ گھوڑے پر شکار کے لیے گئے ہوئے تھے۔کہ جہان پر ایک حادثہ پیش ایا۔ جس وجہ سے وہ پیر شہاب الدین سے تین مہینہ پہلے ہی ہوا تھا۔ان دو جوان شہزادوں کی وفات کا غم آغاخان دوم اور آپ کی بیگم صاحبہ کو بہت ہی ہوا تھا۔

"3⃣ـ آغاخان دوم کے تیسرے فرزند حضرت امام سُلطان آغاخان سوم کی پیدائش کراچی میں ١٦٩٤ھ ١٨٧٧ءمیں ٢ نومبر کو ہوئی۔ان کی والدہ ماجدہ لیڈی علی شاہ آپنی فرزند کے ساتھ کراچی میں کچھ عرصہ تک رہیں۔پھر آپ ممبئ تشریف لے گئیں۔جہان اُن کی پرورش کرتی رہیں۔١٣٠٢ھ / ١٨٨٥ء میں امام آغا علی شاہ آغاخان دوم کی وفات ہوئی۔اس کے بعد آپ کے فرزند امام سلطان محمد شاہ آغاخان سوم مسند امامت پر جلوہ افروز ہوئے۔لیڈی علی شاہ امام کے زمانے میں جماعتوں کا کام کرتی تھیں۔اور کئی ملکوں کا بھی سفر کیا۔آپنے فرزند کے زمانے لندن میں برطانیہ کے شہنشاه جارج پنچم سے بھی ملی تھیں۔آپ شام، ایران اور عراق کے حاکموں سے بھی ملی تھیں۔اور آخر کار عراق کے شہر بغداد میں سکونت اختیار کی تھی۔جہان آپ کی وفات ١٣٥٦ھ/ فروری ١٩٣٨ء میں ہوئی تھی۔

امام آغاخان دوم علی شاہ کے زمانے میں واقعات ۔[ترمیم]

"بمبئ میں برٹش انڈیا گورنمنٹ کے گورنر سر جمس فرگوسن تھے۔ان کی امپررئیل کاونسل کے لیے خاص ممبر تھے۔جن میں امام آقا علی شاہ آغاخان دوم بھی ایک اعزازی رکن کی حیثیت رکھتے تھے۔اس کے علاوہ بمبئ میں مسلمانوں نے ایک نیشنل ایسوسی ایشن بنائی تھی۔ جس کے آپ صدر تھے۔اور بمبئ کے آس پاس کے مسلمانوں کی قیادت کرتے تھے۔ امام شاہ علی شاہ آغاخان دوم مریدوں کی تعلیم و تربیت کے بارے میں نمایان حصہ لیتے تھے۔اور بمبئ میں اسماعیلی بچوں کی تعلیم کے لیے ایک مدرسہ قائم کیا تھا۔جہان بہت سے بچے تعلیم حاصل کرتے تھے۔آپ علیہ السلام بہت ہی فیاض اور ہمدرد تھے۔اور ہر طرح سے دوسروں کی مدد کرتے تھے۔امام آغاخان دوم وسطیٰ ایشاء خصوصاً ۔بدخشان۔سمرقند۔اور بخارا کی جماعتوں کی اسماعیلیوں سے رابطہ رکھتے تھے۔اورشام۔ایران۔عراق۔اور افعانستان سے مرید امام علیہ السلام کی دیدار کے لیے ممبئ تشریف لاتے تھے۔امام نے کئی خواجوں کو افریقہ اور خلیج فارس کے علاقوں میں تجارت کی غرض سے ہجرت کرنے کی ہدایت دی تھی۔جس سے جماعت میں بہت ترقی اور آبادی ہوئی۔

امام علی شاہ آغاخان دوم صرف چار سال تک مسند امامت پر جلوہ افروز رہے۔ آپ ١٣٠٢ ھ / ١٧اگست ١٨٨٥ ء میں پیر کے دن شام کے ساڑھے پانچ بجے پونا میں آپنے بنگلے میں وفات پائی۔آپ کے جسم خاکی کو کربلا میں دفن کیا گیا۔آپ کے بعد آپ کے فرزند حضرت امام سلطان محمد شاہ آغا خان سوم مسند امامت پر جلوہ افروز ہوئے۔

حوالہ جات[ترمیم]

  1. پیرایج پرسن آئی ڈی: https://wikidata-externalid-url.toolforge.org/?p=4638&url_prefix=https://www.thepeerage.com/&id=p12239.htm#i122390 — بنام: Sultan Aqa Ali Shah, Aga Khan II — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017 — مصنف: ڈئریل راجر لنڈی — خالق: ڈئریل راجر لنڈی
  2. پیرایج پرسن آئی ڈی: https://wikidata-externalid-url.toolforge.org/?p=4638&url_prefix=https://www.thepeerage.com/&id=p12239.htm#i122390 — اخذ شدہ بتاریخ: 7 اگست 2020

(تاریخ ائمہ اسماعیلیہ حصہ چہارم)