آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ مسلمانان ہند کی ایک غیر حکومتی تنظیم ہے جو سنہ 1972ء میں قائم ہوئی۔ بورڈ کے قیام کا اصل مقصد یہ تھا کہ بھارت میں مسلمانوں کے عائلی قوانین کا تحفظ اور بالخصوص مسلم پرسنل لا ایکٹ، 1937ء[1] کو بدستور نافذ العمل رہنے کے لیے مناسب اور ضروری حکمت عملی اختیار کی جائے۔[2][3] نیز بھارت کے مسلمانوں کے نجی معاملات میں شرعی احکام کے مطابق فیصلہ کیا جا سکے، سنہ 1937ء سے قبل ان معاملات میں کچھ مسلمان ہندو رسم و رواج کی پیروی کرتے تھے۔ مذکورہ قانون چند وراثتی معاملات کو چھوڑ کر تمام عائلی قوانین کا احاطہ کرتا ہے۔[4]

مسلم پرسنل لا بورڈ کو بھارتی مسلم رائے عامہ کے نمائندہ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے, ہرچند کہ اس نمائندگی کی کچھ مسلمانوں نے مخالفت بھی کی[5][6][7] لیکن بیشتر مسلم فرقوں، جماعتوں اور مسلکوں نے بورڈ کی نمائندگی پر اتفاق کیا اور عملاً اس کی کارگردگی میں شریک رہے۔ بورڈ میں مسلم معاشرے کے مختلف شعبہ ہائے زندگی کی شخصیات موجود ہیں جن میں بالخصوص مذہبی رہنما، علما، ماہرین قانون اور سیاست دان قابل ذکر ہیں۔ تاہم بعض دانشوروں مثلاً سید طاہر محمود، عارف محمد خان اور عدالت عظمی کے سبکدوش جج مارکنڈے کاٹجو[8][9] وغیرہ نے بورڈ کو تحلیل کرنے کی وکالت کی ہے۔[10][11] مسلم پرسنل لا بورڈ کے فیصلے بھارت میں موجود احمدیوں (قادیانیوں) پر نافذ نہیں ہوتے،[12][13][14] نیز انھیں بورڈ میں شامل ہونے کی اجازت بھی نہیں ہے کیونکہ عالم اسلام اور تمام مسلمانوں کا متفقہ فیصلہ ہے کہ احمدی (قادیانی) اسلام سے خارج ہیں۔[15][16] بورڈ کے موجودہ صدر محمد رابع حسنی ندوی ہیں جبکہ دیوبندی، بریلوی، جماعت اسلامی، اہل حدیث(سلفی) اور شیعہ مکاتب فکر کی سرکردہ نمائندہ شخصیات بحیثیت نائب صدر منتخب کی جاتی ہیں۔

قیام کا پس منظر[ترمیم]

1972ء میں بھارتی پارلیمنٹ میں لے پالک بل پیش کیا گیا جو تمام مذاہب کے لیے تھا۔ اس بل کی رو سے منہ بولے بیٹے کو سگے بیٹے کے تمام حقوق حاصل ہو رہے تھے۔ اس وقت کے وزیر قانون ایچ آر گوکھلے نے اس بل کو یکساں سول کوڈ کی جانب پہلا قدم بتایا تھا۔ اس بل کا اثر یہ ہوا کہ مسلمانوں کے کئی حلقوں میں بے چینی پیدا ہو گئی۔ چنانچہ سید منت اللہ رحمانی کی تحریک پر دار العلوم دیوبند کے سابق مہتمم قاری محمد طیب قاسمی نے 13 ،14 مارچ، 1972ء کو دیوبند میں اہل فکر کا ایک اجلاس بلایا جس میں ملک بھر کے علما اور دانشور جمع ہوئے۔ اجلاس میں طے کیا گیا کہ مسلم عائلی قوانین کے تحفظ کی پرزور آواز ممبئی سے اٹھ رہی ہے، اس لیے ممبئی میں ایک نمائندہ اجلاس منعقد ہونا چاہیے۔

تاسیس[ترمیم]

27 ،28 دسمبر، 1972ء کو ممبئی میں ایک بڑے اجتماع میں اجلاس منعقد ہوا۔ ایک طرف لاکھوں عوام کا مجمع تھا تو دوسری طرف حنفی، شافعی، مقلد، غیر مقلد، دیوبندی، بریلوی، شیعہ، سنی، داؤدی بوہرہ، سلیمانی بوہرہ، جماعت اسلامی ہند اور جمعیت علمائے ہند غرض یہ کہ تمام مسلم فرقوں، مسلکوں اور جماعتوں کے رہنما موجود تھے اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی تاسیس پر اتفاق ہوا۔ لہٰذا 7 اپریل، 1973ء کو حیدرآباد، دکن میں بورڈ کی باقاعدہ تاسیس عمل میں آئی۔ قاری محمد طیب قاسمی اس کے پہلے صدر اور منت اللہ رحمانی پہلے معتمد عمومی منتخب ہوئے۔[17]

مقاصد[ترمیم]

مسلم پرسنل لا بورڈ کے مقاصد حسب ذیل ہیں :

  1. بھارت میں مسلم عائلی قوانین کے تحفظ اور شریعت ایکٹ کے نفاذ کو قائم اور باقی رکھنے کے لیے مؤثر تدابیر اختیار کرنا۔
  2. بالواسطہ، بلا واسطہ یا متوازی قانون سازی، جس سے قانون شریعت میں مداخلت ہوتی ہو، علاوہ ازیں کہ وہ قوانین پارلیمنٹ یا ریاستی مجلس قانون ساز میں وضع کیے جا چکے ہوں یا آئندہ وضع کیے جانے والے ہوں یا اس طرح کے عدالتی فیصلے جو مسلم عائلی قوانین میں مداخلت کا ذریعہ بنتے ہوں، انھیں ختم کرانے یا مسلمانوں کو ان سے مستثنیٰ قرار دیے جانے کی جدوجہد کرنا۔
  3. مسلمانوں کو عائلی و معاشرتی زندگی کے بارے میں شرعی احکام و آداب، حقوق و فرائض اور اختیارات و حدود سے واقف کرانا اور اس سلسلے میں ضروری لٹریچر کی اشاعت کرنا۔
  4. شریعت اسلامی کے عائلی قوانین کی اشاعت اور مسلمانوں پر ان کے نفاذ کے لیے ہمہ گیر خاکہ تیار کرنا۔
  5. مسلم پرسنل لا کے تحفظ کی تحریک کے لیے بہ وقت ضرورت مجلس عمل بنانا، جس کے ذریعے بورڈ کے فیصلے درآمد کرنے کی خاطر پورے ملک میں منظم جدوجہد کی جا سکے۔
  6. علما اور ماہرین قانون پر مشتمل ایک مستقل کمیٹی کے ذریعے مرکزی یا ریاستی حکومتوں یا دوسرے سرکاری و نیم سرکاری اداروں کے ذریعے نافذ کردہ قوانین اور گشتی احکام یا ریاستی اسمبلیوں اور پارلیمنٹ میں پیش کیے جانے والے مسودات قانون کا اس نقطہ نظر سے جائزہ لیتے رہنا کہ ان کا مسلم پرسنل لا پر کیا اثر پڑتا ہے۔
  7. مسلمانوں کے تمام فقہی مسلکوں اور فرقوں کے مابین خیر سگالی، اخوت اور باہمی اشتراک و تعاون کے جذبات کی نشو و نما کرنا اور مسلم عائلی قوانین کی بقا و تحفظ کے مشترکہ مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے ان کے درمیان رابطے اور اتحاد و اتفاق کو پروان چڑھانا۔
  8. ہندستان میں نافذ محمڈن لا کا شریعت اسلامی کی روشنی میں جائزہ لینا اور نئے مسائل کے پیش نظر مسلمانوں کے مختلف فقہی مسالک کے تحقیقی مطالعے کا اہتمام کرنا اور شریعت اسلامی کے اصولوں پر قائم رہتے ہوئے کتاب و سنت کی اساس پر ماہرین شریعت اور فقہ اسلامی کی رہنمائی میں پیش آمدہ مسائل کا مناسب حل تلاش کرنا۔
  9. بورڈ کے مذکورہ بالا اغراض و مقاصد کے حصول کے لیے وفود کو ترتیب دینا، مطالعاتی شرائط (study terms) تشکیل دینا، سیمی نار، سمپوزیم، خطابات، اجتماعات، دوروں اور کانفرنسوں کا انتظام کرنا۔ نیز ضروری لٹریچر کی اشاعت اور بہ وقت ضرورت اخبارات و رسائل اور خبرناموں وغیرہ کا اجرا اور اغراض و مقاصد کے لیے دیگر ضروری امور انجام دینا۔[18]

بورڈ کے صدور[ترمیم]

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے پہلے صدر حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب قاسمی تھے، جو 1973ء سے 1983ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔ قاری طیب صاحب کی وفات کے بعد مولانا سید ابو الحسن علی ندوی کو بورڈ کا دوسرا صدر منتخب کیا گیا۔ آپ 1983ء سے 1999ء کے اختتام تک بخوبی اس فریضہ کو انجام دیتے رہے۔ اس کے بعد بورڈ کے تیسرے اور سب سے مختصر وقتی صدر قاضی مجاہد الاسلام قاسمی کو بورڈ کا صدر منتخب کیا گیا۔ یہ دور 2000ء سے شروع ہوا اور 2002ء میں ان کی وفات پر ختم ہو گیا۔ اس کے بعد 2002ء میں سید محمد رابع حسنی ندوی کو بورڈ کا چوتھا صدر منتخب کیا گیا جو اب بھی اس عہدے پر فائز ہیں۔ حال ہی میں بورڈ کے پچیسویں اجلاس میں انھیں ایک بار پھر چھٹی مرتبہ بالاتفاق صدر منتخب کر لیا گیا ہے۔

منت اللہ رحمانی بورڈ کے پہلے معتمد عمومی (جنرل سکریٹری )۔ ان کے بعد سید نظام الدین معتمد عمومی رہے۔ ان کی وفات کے بعد سید محمد ولی رحمانی کو معتمد عمومی نام زد کیا گیا ہے۔[19]

خدمات[ترمیم]

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی خدمات کا دائرہ خاصا وسیع ہے۔ ان میں سے کچھ یہ ہیں :

  1. بورڈ کا پہلا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے ہندستانی مسلمانوں کو عائلی قوانین پر متحد و متفق کیا۔
  2. ہندستانی مسلمانوں میں عائلی قوانین کے تئیں احساس تحفظ پیدا کیا۔
  3. بورڈ کی تحریک پر حکومت ہند نے 1978ء میں لے پالک بل واپس لے لیا۔ 1980ء میں جب یہ بل دوبارہ پیش کیا گیا تو مسلمانوں کو اس سے مستثنیٰ قرار دیا گیا۔
  4. 1975ء میں ایمرجنسی کے نفاذ اور جبری نس بندی کے سخت ہنگامی حالات کے دوران میں بورڈ نے دہلی میں مجلس عاملہ کا اجلاس بلایا اور اعلان کیا کہ نس بندی حرام ہے۔
  5. 1978ء میں الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ کے فیصلے کے مطابق حکومت کو مفاد عامہ کے لیے مذہبی مقامات کی زمین قبضانے کی اجازت دی گئی تھی۔ بورڈ کی تحریک پر یہ فیصلہ واپس لیا گیا۔
  6. 1986 کے شاہ بانو کیس میں شوہر پر یہ لازم کیا گیا تھا کہ وہ عورت کے دوسرے نکاح تک اسے نان و نفقہ دے گا۔ یہ بات شریعت سے متصادم تھی۔ چنانچہ بورڈ نے ملک بھر میں زبردست تحریک چلائی۔ 6 مئی 1986ء کو حکومت ہند کو مسلم مطلقہ بل منظور کرنا پڑا۔
  7. بورڈ نے دفعاتی ترتیب کے لحاظ سے "مجموعہ قوانین اسلامی" مرتب کرایا۔ برصغیر میں فتاوی عالم گیری کی ترتیب کے بعد یہ پہلی کام یاب کوشش تھی۔
  8. حکومت ہند عرصے سے نکاح کے لازمی رجسٹریشن کا قانون لانا چاہتی تھی۔ اس سے پہلے ہی بورڈ نے ماڈل نکاح نامہ ترتیب دیا۔ میاں بیوی اگر اس نکاح نامے پر دستخط کر دیں تو انھیں باہمی اختلافات نپٹانے کے لیے عدالت جانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ دارالقضا یا شرعی پنچایت کے ذریعے مسئلہ حل ہو جائے گا۔
  9. عام مسلمانوں اور غیر مسلم قانون دانوں کو شریعت سے واقف کرانے کے لیے "تفہیم شریعت کمیٹی" تشکیل دی گئی، اس کے داعی خالد سیف اللہ رحمانی ہیں۔
  10. بورڈ نے دوسرے بہت سے مقدموں کے ساتھ بابری مسجد کا مقدمہ عدالت عالیہ میں لڑا اور عدالت عظمی میں ایک مستقل فریق کی حیثیت سے اخیر تک اس مقدمہ کی پیروی کر تا رہا۔

نکاح نامہ[ترمیم]

مسلم پرسنل لا بورڈ نے 2003ء میں صوبہ اترپردیش میں ایک ماڈل نکاح نامہ متعارف کرایا تھا جس میں زوجین کو بعض ضروری ہدایات اور ان امور کی نشان دہی کی گئی تھی جن کی بنا پر نکاح فسخ ہوجاتا ہے۔[20][21]

مسلم پرسنل لا بورڈ کے مطابق اس نکاح نامے کو جاری کرنے کا مقصد یہ ہے کہ نکاح و طلاق سے متعلق مسلم معاشرے میں موجود ناہمواریوں اور برائیوں کا سد باب کیا جا سکے۔ چنانچہ اس نکاح نامے میں زوجین اور ان کے اہل خانہ کو اپنے اپنے حقوق ادا کرنے کی تاکید کی گئی، شادی کی رسومات میں اسراف اور فضول خرچی نیز جہیز کے نام پر رقم اور اشیا کے مطالبات پیش کرنے سے منع کیا گیا اور مہر ادا کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ مزید اس نکاح نامے میں دیگر امور کے ساتھ ساتھ ایک اقرار نامہ بھی موجود ہے جس کے تحت زوجین کو یہ معاہدہ کرنا ہوگا کہ وہ اپنی آئندہ زندگی شریعت کے مطابق گزاریں گے اور تنازع کی صورت میں یک طرفہ فیصلہ کرنے کی بجائے اپنے کسی بڑے، دار القضا یا کسی مستند ادارے کے سامنے اپنا معاملہ پیش کریں گے۔ نکاح نامے میں قاضی کی ذمہ داریاں بھی بیان کی گئی ہیں نیز مسلمانوں کو ایک ہی مجلس اور ایک مرتبہ میں تین طلاق دینے سے منع کیا گیا ہے۔[22]

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. "Seculkar, thats a laugh"۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 نومبر 2016 
  2. "AIMPLB Home Page"۔ 06 فروری 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 نومبر 2016 
  3. vakilno1.com۔ "The Muslim Personal Law (Shariat) Application Act, 1937"۔ vakilno1.com۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 فروری 2012 
  4. "The Muslim Personal Law Board Shouldn't Presume to Speak For All Indian Muslims"۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 نومبر 2016 
  5. Bruce B Lawrence (15 November 2007)۔ On violence: a reader.۔ Duke University Press۔ صفحہ: 265۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 فروری 2012 
  6. Vrinda B Narain (24 May 2008)۔ Reclaiming the nation: Muslim women and the law in India۔ University of Toronto Press۔ صفحہ: 93۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 فروری 2012 
  7. "Youth raise voice, seek say in Muslim law board"۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 نومبر 2016 
  8. "Muslim personal law is barbaric: Justice Markandey Katju"۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 نومبر 2016 
  9. "Katju favours uniform civil law"۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 نومبر 2016 
  10. "Ban triple talaq and abolish Muslim Personal Law Board, says former minorities commission chairman"۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 نومبر 2016 
  11. "Arif Mohammad Khan on Shah Bano case: 'Najma Heptullah was key influence on Rajiv Gandhi'"۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 نومبر 2016 
  12. "The Curse of The Muslim Personal Law Board"۔ 21 جون 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 نومبر 2016 
  13. "'Heretical' Ahmadiyya sect raises Muslim hackles"۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 نومبر 2016 
  14. "Wretched Of The Land"۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 نومبر 2016 
  15. Jawed Naqvi (1 September 2008)۔ "Religious violence hastens India's leap into deeper obscurantism"۔ Dawn۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 دسمبر 2014 
  16. "IS THE AHMADI COMMUNITY JUST AS PERSECUTED IN OTHER MUSLIM-MAJORITY COUNTRIES?"۔ Herald.Dawn۔ 13 October 2013۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 دسمبر 2014 
  17. سہ ماہی خبرنامہ بورڈ، شمارہ : جنوری - جون 2005، ص: 29
  18. تعارف نامہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ، ص:2
  19. سیاسی-متحدہ-جماعت-کے -قی-755260/ مسلمانوں کی غیر سیاسی متحدہ جماعت کے قیام کی کوشش[مردہ ربط]
  20. Shia board moots model ‘nikahnama’, denounces ‘triple talaq’ in one sitting | lucknow | Hindustan Times
  21. No Triple Talaq Without Both Husband And Wife's Consent: Shia Law Board
  22. BBC Urdu

مزید پڑھیے[ترمیم]

بیرونی روابط[ترمیم]

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کٹ