ابن الحجاج

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
ابن الحجاج
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 941ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بغداد   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 25 اپریل 1001ء (59–60 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن مسجد کاظمیہ   ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ شاعر   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

ابن الحجاج (پیدائش: 941ء — وفات: 25 اپریل 1001ء) سلطنت عباسیہ کے عہد میں عربی شاعر اور کاتب تھا۔

سوانح[ترمیم]

ابن الحجاج کا نام حسین بن احمد بن محمد بن جعفر تھا جبکہ کنیت ابو عبد اللہ تھی۔ ابن الحجاج غالباً 330ھ مطابق 941ء میں موجودہ ایران کے کسی شہر میں پیدا ہوا۔ مستند مقام پیدائش کا اندازہ نہیں ہو سکا۔ ابن الحجاج کا خاندان سرکاری ملازمتوں پر فائز تھا اور وہ دور آل بویہ کا دور تھا۔ بحیثیت کاتب کے اُس نے شاعری سے دولت حاصل کی۔ وہ اپنے معاصرین میں سے اہم ترین شخصیات، بالخصوص عزالدولہ بختیار کا مدح خواں بن گیا۔ عزالدولہ نے ابن الحجاج کو بغداد کا محتسب مقرر کر دیا۔ یہ عہدہ اُس کے لیے نہایت نامناسب و ناموزوں ثابت ہوا کیونکہ اُسے شاعری کی انتہائی نامناسب اصناف یعنی فحش گوئی اور عریاں نویسی سے کافی شغف تھا اور یہ شوق اُس کی متاخر زندگی تک اُس کے ساتھ ساتھ چلتا رہا۔کچھ عرصے کے بعد وہ عہدہ محتسب سے معزول کر دیا گیا۔ اگرچہ اُس نے پھر اِس عہدے کے حصول کی بے سود کوشش بھی کی۔ اُس نے اپنے متعدد اَشعار میں اُن جاگیرات کا ذِکر کیا ہے جو اُس نے حاصل کیں یا اُس کو ورثہ میں ملیں۔ چند غزلیات میں تو ایسے تنازعات کا ذِکر بھی ہے جیسے کہ ایک تنازع کا ذِکر ایک جاگیر کے قبضہ کے سلسلے میں اُس کے اور ایک کُردی شخص کے درمیان پیش آیا تھا۔بلحاظ عقائد وہ شیعی تھا۔

کتابت کی تعلیم[ترمیم]

ابن الحجاج کاتب تھا،  اُسے کتابت کی تعلیم ابو اسحاق ابراہیم الصابی (متوفی 384ھ مطابق 994ء) نے دِی تھی۔

شاعری[ترمیم]

شاعری میں عریاں نویسی اور فحش گوئی نے اُس کی زِندگی میں اُسے بغداد کی عوام کے سامنے رسوا رکھا۔ محتسب کے عہدے پر بھی اُس نے اپنی ایسی نامناسب شاعری کو ترک نہ کیا۔متاخرین نے بھی اُس کی اِن حرکات کو برا خیال کیا۔ پیرس میں اُس کے ایک دِیوان کی جو تلخیص موجود ہے، کی ایک نظم بعنوان ’’بدکاری کی حوصلہ افزائی‘‘ کے سامنے کسی قاری نے یہ سوال لکھ دیا ہے کہ: ’’کیا محتسب کا یہی کام ہے؟‘‘۔ ابن الحجاج کا دِیوان کئی جلدوں پر مشتمل تھا۔ اِس دِیوان کا جو نسخہ برٹش میوزیم میں محفوظ ہے وہ ردیف دال اور راء پر کچھ حصے ہی ہیں۔ اُس کے ہم عصر شعرا میں سید شریف رضی نے اُس کی اُن نظموں کا انتخاب کیا جو ذرا کم عریاں ہیں۔ اِس انتخاب کا نام النظیف من السخیف رکھا تھا۔ 510ھ میں ہبۃ اللہ الاصطرلابی نے 141 ابواب کا انتخاب کیا جسے فحش نظموں سے مبرا قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یہ انتخاب پیرس کے مخطوطہ نمبر 5913 کے تحت محفوظ ہے اور اِس انتخاب کے ساتھ ابن الخشاب نحوی کا ایک دیباچہ بھی شامل ہے۔ ثعالبی نے یتیمۃ الدھر میں اِن اشعار کا خاصا طویل مجموعہ درج کر دیا ہے۔[1] اُس کی نظموں میں عموماً بدکاری کا ذِکر کثرت سے آتا ہے۔

ابن کثیر نے لکھا ہے کہ: ’’اِس کی شاعری میں اِس قدر بے حیائی اور بے ہودگی ہوتی تھی کہ زبان اُس کے تلفظ سے اور کان اُس کے سننے سے گھناتے ہیں۔اُس کے اشعار میں معنی سے قطع نظر اُن کے الفاظ میں ایک خاص مرتبہ حاصل تھا، اُس کے اندر ایک ایسا ملکہ تھا جس سے انتہائی خراب معنی کی بھی بہت عمدگی و سنجیدگی کے ساتھ فصیح الفاظ میں پیش کرسکتا تھا۔ اُس کے علاوہ اُس کے کچھ عمدہ اشعار بھی تھے۔‘‘[2]

ممتاز شخصیات سے وابستگی[ترمیم]

اپنے عہد میں ابن الحجاج کو جن ممتاز شخصیات سے واسطہ پڑا، اُن میں سے ایک وزیر یزید بن محمد المہلبی تھا جس نے ابن الحجاج سے یہ خواہش کی تھی کہ وہ المتنبی کی ہجو کہے۔ دوسرے اشخاص میں سابور بن اَردشیر، ابن بقیہ عضدالدولہ، بہاؤالدولہ، ابن عباد اور ابن العمید شامل ہیں۔ ابن الحجاج نے حاکم مصر کی مدح سرائی کی جو ہجو سے خائف رہتا تھا۔ اِس مدح سرائی میں اُسے ایک ہزار دینار کا تحفہ ملا۔ ایسے واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ اُس کی بیشتر آمدنی کا حصہ ایسی دھمکی آمیز یا دھمکی کی قسم جیسے واقعات سے حاصل ہوتا تھا۔

وفات[ترمیم]

ابن الحجاج نے17 جمادی الثانی 391ھ مطابق 14 اپریل 1001ء کو کوفہ اور بغداد کے وسطی علاقے رینل میں وفات پائی۔ اُس کا جنازہ بغداد لایا گیا جہاں اُسے مسجد کاظمیہ سے ملحق قبرستان میں دفن کر دیا گیا۔[3]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ثعالبی: یتیمۃ الدھر،  جلد 2،  صفحہ 211 تا  270۔
  2. ابن کثیر: تاریخ ابن کثیر، جلد 11، صفحہ 567، 568۔
  3. ابن کثیر: تاریخ ابن کثیر، جلد 11، صفحہ 568۔