ابن رائق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
ابن رائق
معلومات شخصیت
تاریخ پیدائش 9ویں صدی  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 11 اپریل 942  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
موصل  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ عسکری قائد  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

ابن رائق – ابوبکر محمد ابن رائق (وفات: 11 اپریل 942ء) خلافت عباسیہ کا امیرالامراء، وزیر اور بغداد کا صاحب الشُرطہ تھا۔ الراضی باللہ کے عہدِ حکمرانی میں ابن رائق کو عروج حاصل ہوا۔

سوانح[ترمیم]

خاندان[ترمیم]

ابن رائق اصلاً خزر تھا اور اُس کا باپ بلحاظ مذہب یہودی تھا جس نے بعد ازاں اسلام قبول کر لیا تھا۔ ابوبکر محمد کا والد رائق خلیفہ المعتضد باللہ عباسی کے ممالیک میں سے تھا۔ اِس کے علاوہ ابن رائق سے متعلق معلومات یا تفصیلات معلوم نہیں ہوسکیں۔

واقعات حکومت[ترمیم]

317ھ مطابق 930ء میں ابن رائق اور اُس کے بھائی ابراہیم‘ دونوں کو بغداد کا صاحبِ الشُرطہ مقرر کیا گیا۔ 318ھ مطابق 931ء میں دونوں کو اِس عہدہ سے معزول کر دیا گیا لیکن محمد بن رائق کو دوبارہ 319ھ مطابق 932ء میں اِس عہدے پر بحال کر دیا گیا اور اِس کا بھائی ابراہیم ابن رائق حاجبِ اعلیٰ مقرر ہوا۔ 320ھ مطابق 932ء میں خلیفہ المقتدر باللہ کے قتل کے بعد دونوں بھائی اور لوگوں کے ہمراہ مدائن اور پھر وہاں سے واسط بھاگ گئے۔ 322ھ مطابق 934ء میں جب الراضی باللہ خلیفہ بنا تو اُس نے محمد بن رائق کو واسط اور بصرہ کا والی (گورنر) مقرر کر دیا۔ 324ھ مطابق 936ء کے اِختتام (یعنی نومبر 936ء) پر ابن رائق کو بغداد طلب کیا گیا اور اِسے اعلیٰ درجے کے فوجی اور دِیوانی اِختیارات دے کر امیرالامراء کا خطاب دیا گیا اور خطبہ جمعہ میں اِس کا نام بھی شامل کر لیا گیا۔ [1]

بجکم ترکی کے خلاف کارروائی[ترمیم]

طاقتور سپہ سالار بجکم ترکی کو کچلنے کی غرض سے ابن رائق نے واسط میں ابو عبد اللہ البَرِیدِی سے سازش کی اور بجکم ترکی کے ا ستیصال پر اُسے واسط کا گورنر بنا دینے کا وعدہ کر لیا لیکن ابو عبد اللہ البَرِیدِی کو شکست ہوئی۔ ذوالقعدہ 326ھ مطابق ستمبر 938ء میں بجکم ترکی بغداد میں داخل ہو گیا اور اُسے امیرالامراء مقرر کر دیا گیا۔ ابن رائق بجکم ترکی کے داخلۂ بغداد سے روپوش ہو گیا اور ابو عبد اللہ البَرِیدِی کو واسط کا گورنر مقرر کر دیا گیا۔ جب بجکم ترکی خلیفہ کی ہمراہی میں حمدانیوں کے خلاف مہم پر روانہ ہوا تو ابن رائق دوبارہ بغداد میں آ موجود ہوا لیکن واپس اِس وعدے پر جانے کی خواہش ظاہر کی کہ اُسے حران، الرَّہا اور قنسرین فرات کے بالائی اضلاع سمیت اور سرحدی قلعوں کی گورنری دے دی جائے۔ یہ شرائط منظور کرلی گئیں۔[2]

بلاد الشام پر عسکری کارروائیاں[ترمیم]

جب ابن رائق نے بلاد الشام پر حملہ کیا تو محمد بن ظُغجْ اِخشِیدی نے 328ھ مطابق 939ء میں ابن رائق کے خلاف فوج روانہ کی۔ اِس جنگ کی تفاصیل میں اختلاف پایا جاتا ہے لیکن کچھ عرصہ میں ہی دونوں کے مابین صلح قرار پاگئی۔ جس کی رُو سے مصر محمد بن طُغج کے پاس رہا اور ابن رائق کو الرَّملہ تک بلاد الشام کے علاقہ تک ہی قناعت کرنا پڑی۔[3]

ترک دیلمی تنازعات[ترمیم]

تھوڑی ہی مدت میں بغداد میں ترکوں اور دیلمیوں کے جھگڑے شروع ہو گئے اور دَیلمی غالب آگئے۔ دیلمیوں نے کُورِتِگِین کو امیرالامراء مقرر کر دیا۔ کُورتِگِین سے نجات پانے کے لیے خلیفہ المتقی للہ نے ابن رائق سے التجاء کی۔ چنانچہ ماہِ رمضان 329ھ مطابق جون 941ء میں وہ دمشق سے روانہ ہوا۔ عُکبَرا کے مقام پر کُورتِگِین سے مڈبھیڑ ہوئی اور محض چند دِن کی جنگ کے بعد ابن رائق بغداد میں داخل ہو گیا۔ جس پر کُورتِگَین بغداد میں اپنی فوجیں لے کر آیا مگر شکست کھا گیا اور گرفتار کر لیا گیا۔ جس پر خلیفہ المتقی للہ نے ابن رائق کو امیرالامراء کا منصب عطاء کیا۔[4]

ابو عبد اللہ البریدی سے تنازعات[ترمیم]

اِس اثناء میں ابو عبد اللہ البریدی نے واسط پر قبضہ کر لیا تھا اور اُس کے خلاف ابن رائق اکتوبر 941ء میں روانہ ہوا لیکن دونوں میں مفاہمت ہو گئی اور البریدی نے واسط کے عوض میں سالانہ خراج دینا قبول کر لیا۔ تھوڑے ہی عرصے میں ترکوں نے ابن رائق کا ساتھ چھوڑ دیا اور جب بغداد میں قحط و گرانی کی وجہ سے فتنہ و فساد برپا ہوا تو البریدی نے اپنے بھائی ابو الحسن کو فوج دے کر بغداد کے خلاف روانہ کیا۔ خلیفہ المتقی للہ اور امیرالامراء ابن رائق کو موصل کے حمدانی گورنر ناصر الدولہ بن حمدان کے پاس پناہ لینے کے لیے خط لکھا اور ابو عبد اللہ البریدی کے خلاف لڑنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ خط پاتے ہی ناصر الدولہ نے اپنے بھائی سیف الدولہ علی کو بھاری لشکر دے کر روانہ کیا مگر وہ ابھی تکریت تک ہی پہنچا تھا کہ خلیفہ المتقی للہ اور ابن رائق وہاں سے بھاگ چکے تھے۔ سیف الدولہ اِن دونوں کو لے کر اپنے بھائی کے پاس واپس آگیا۔[5]

حمدانیوں کے معاملات اور خلیفہ کا بغداد سے فرار[ترمیم]

اِس تمام عرصہ میں سیف الدولہ نے خلیفہ المتقی للہ کی خوب خدمت کی۔ جب یہ لوگ موصل کے قریب پہنچے تو تب ناصر الدولہ وہاں سے نکل کر موصل کے مشرقی حصے میں ٹھہر گیا اور وہاں سے تحائف خلیفہ کی خدمت میں بھیجے۔ لیکن خود خلیفہ کی خدمت میں محض اِس لیے حاضر نہ ہوا کہ اُسے ابن رائق کے لوگوں سے حملے کا خطرہ تھا۔ اِس لیے خلیفہ نے اپنے بیٹے ابو منصور کو ناصر الدولہ کے پاس سلام کرنے کی غرض سے بھیجا اور ابن رائق کو بھی ساتھ روانہ کر دیا۔[6] واپسی پر جب خلیفہ کا لڑکا گھوڑے پر سوار ہوکر لوٹنے لگا تو ابن رائق نے بھی ساتھ ہی لوٹنا چاہا تو اُسے ناصر الدولہ نے ٹھہر جانے کا کہا کہ سیاسی حالات پر بحث کی جاسکے مگر ابن رائق نے وہاں ٹھہرنے سے عذرخواہی کی تو ناصر الدولہ نے اُس کی آستین پکڑ لی اور آستین پھٹ گئی۔ ابن رائق بہت عجلت سے گھوڑے پر سوار ہونے کی کوشش میں گھوڑے سے گرگیا تو ناصر الدولہ نے اُسے قتل کرنے کا حکم دیا اور وہیں 23 رجب 330ھ مطابق 11 اپریل 942ء کو ابن رائق کو قتل کر دیا گیا۔[7][8]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. اردو دائرہ معارف اسلامیہ: جلد 1، صفحہ 317۔
  2. اردو دائرہ معارف اسلامیہ: جلد 1، صفحہ 317۔
  3. اردو دائرہ معارف اسلامیہ: جلد 1، صفحہ 317۔
  4. اردو دائرہ معارف اسلامیہ: جلد 1، صفحہ 317۔
  5. ابن کثیر: جلد 11، صفحہ 362۔
  6. ابن کثیر: جلد 11، صفحہ 362۔
  7. اردو دائرہ معارف اسلامیہ: جلد 1، صفحہ 318۔
  8. ابن کثیر: جلد 11، صفحہ 364