ابن عادل حنبلی
ابن عادل حنبلی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
عملی زندگی | |
پیشہ | مفسر قرآن |
کارہائے نمایاں | اللباب فی علوم الکتاب |
درستی - ترمیم ![]() |
ابو حفص سراج الدین عمر بن علی بن عادل حنبلی دمشقی نعمانی ۔ ایک حنبلی عالم، فقیہ اور مفسر اور کتاب اللباب فی علوم کتاب کے مصنف تھے ۔
نسب، کنیت اور ولادت
[ترمیم]ابن عادل کی کنیتیں ابو حفص اور ابو الحسن تھیں، جبکہ انھیں سراج الدین اور زین الدین کے القابات سے بھی یاد کیا جاتا تھا۔ ان کے نسب "النعمانی" کے کئی احتمالات ہیں: یا تو یہ "نُعْمان" سے نسبت ہے جو تین مقامات کے لیے مشترکہ نام ہے:
- . النُّعمانية: جو دریائے دجلہ کے کنارے بغداد اور واسط کے درمیان واقع ایک بستی ہے۔
- . النُّعمانية: جو مصر کا ایک گاؤں ہے۔
- . نُعمان: جو شام میں معرۃ النعمان کے نام سے مشہور ایک بڑا شہر ہے، جو حلب اور حمص کے درمیان واقع ہے۔
یہ بھی ممکن ہے کہ یہ نسبت صحابی النعمان بن بشیر کی طرف ہو، جس صورت میں اسے "نُعمان" بضم النون اور سکون العین پڑھا جائے گا۔ جہاں تک ان کی پیدائش کا تعلق ہے، تو کتبِ تراجم میں ان کی ولادت کا کوئی خاص سال مذکور نہیں ہے۔ لیکن چونکہ ابن عادل کے بیشتر اساتذہ دمشق سے تھے، اس لیے ان اساتذہ کی تاریخ ولادت و وفات کو دیکھتے ہوئے ان کی پیدائش کا ایک اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ان کے اہم اساتذہ میں:
- محمد بن علی بن ساعد (637ھ میں پیدا ہوئے اور 714ھ میں قاہرہ میں وفات پائی)۔
- زيرة بنت عمر بن المنجا (624ھ میں پیدا ہوئیں اور 716ھ میں دمشق میں وفات پائی)۔[1]
- احمد بن ابی طالب المعروف ابن الشحنة النجار (730ھ میں وفات پائی اور ان کی روایت کا سماع 706ھ میں ظاہر ہوا)۔
ان معلومات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ابن عادل کی ولادت غالباً ساتویں صدی ہجری کے آخر میں ہوئی اور زیادہ قریب قیاس یہ ہے کہ وہ 675ھ کے بعد پیدا ہوئے۔[2]
شیوخ
[ترمیم]ابن عادل نے دمشق کے کئی جلیل القدر علما اور شیوخ سے تعلیم حاصل کی، جن میں سے چند اہم درج ذیل ہیں:
- . ابو عبد اللہ شمس الدین محمد بن علی بن ساعد بن اسماعیل بن سلیم بن ساعد المحروسی الرقی المشہدی
ولادت: 637ھ وفات: 714ھ
- . ابو العباس شهاب الدين احمد بن ابی طالب بن نعمة بن حسن بن علی بن بیان الدیرمقرنی الصالحي
معروف بہ: ابن الشخنہ وفات: 730ھ ابن عادل نے ان سے "صحیح بخاری" کا سماع کیا۔
- . ام محمد وجیہة الدين وزيرة بنت عمر بن اسعد بن المنجا الدمشقية الحنبلية
ولادت: 624ھ وفات: 716ھ ابن عادل نے ان سے بھی "صحیح بخاری" کا سماع کیا۔[3][4]
تصانیف
[ترمیم]- . اللباب في علوم الكتاب
ابن عادل کی سب سے مشہور اور اہم تصنیف ہے، جو ایک جامع تفسیر ہے۔ اس کتاب میں قرآن کریم کے معانی، علوم اور مسائل کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔
- . حاشية على المحرر في الفقه الحنبلي
یہ کتاب حنبلی فقہ کی مشہور کتاب "المحرر" پر ایک علمی حاشیہ ہے، جس میں فقہی مسائل کی وضاحت اور تشریحات پیش کی گئی ہیں۔[5]
عقیدہ
[ترمیم]ابن عادل النعمانی کی تفسیر سے واضح ہوتا ہے کہ وہ صفاتِ باری تعالیٰ کی تاویل کرتے تھے، جیسا کہ اشعری عقیدہ رکھنے والے اہل سنت کرتے ہیں۔ انھوں نے تفسیر قرآن میں صفات کی کئی تاویلات پیش کی ہیں، خاص طور پر سورۃ الفاتحہ کی تفسیر میں۔ وہ اکثر ائمہ تفسیر اور متکلمین جیسے امام فخر الدین الرازی، قرطبی اور زمخشری کے اقوال نقل کرتے ہیں اور معتزلہ کے نظریات پر تنقید کرتے ہیں۔
امام ابن عادل الحنبلی نے فرمایا:
آیت "وَجَاءَ رَبُّكَ وَالْمَلَكُ صَفًّا صَفًّا" (الفجر: 22) کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کا حکم اور فیصلہ آیا، جیسا کہ حسن بصری نے کہا اور یہ "حذفِ مضاف" کی مثال ہے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ اللہ اپنی آیات کے ذریعے ان کے پاس آیا، جیسا کہ آیت "إِلَّا أَنْ يَأْتِيَهُمُ اللَّهُ فِي ظُلَلٍ مِنَ الْغَمَامِ" (البقرة: 210) میں ہے، یعنی بادلوں کے ساتھ آنا۔ کچھ نے کہا کہ آیات کا آنا اللہ کے آنے سے منسوب کیا گیا تاکہ ان آیات کی عظمت کو واضح کیا جائے، جیسا کہ حدیث میں ہے: "اے ابن آدم! میں بیمار تھا، تو نے میری عیادت نہ کی۔ میں نے تجھ سے پانی مانگا، تو نے پلایا نہیں۔ میں نے تجھ سے کھانا مانگا، تو نے کھلایا نہیں۔" ایک قول یہ بھی ہے کہ شکوک و شبہات ختم ہو گئے اور معارف یقینی ہو گئے، جیسے کسی چیز کے آجانے سے شبہات ختم ہو جاتے ہیں۔ ایک اور قول ہے کہ اس کا مطلب اللہ کا قہر اور غلبہ ہے، جیسے کہا جاتا ہے: "ہم پر بنو امیہ آئے"، یعنی ان کا قہر غالب آیا۔ اہلِ اشارت کے مطابق اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی قدرت ظاہر ہوئی اور غالب آ گئی۔ اللہ تعالیٰ کسی جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے سے پاک ہے، کیونکہ وہ زمان و مکان سے منزہ ہے۔ وقت کا گذرنا اس پر ممکن نہیں، کیونکہ وقت کا گذرنا کسی چیز کی فنا اور کمزوری کو ظاہر کرتا ہے اور اللہ ہر قسم کی کمزوری سے پاک ہے۔[6][7]
وفات
[ترمیم]کتبِ تراجم میں ابن عادل النعمانی کی وفات کا کوئی مخصوص سال ذکر نہیں کیا گیا، لیکن ایک تحقیق کے مطابق ان کی زندگی 675 ہجری سے 775 ہجری کے درمیان محدود ہے۔[2]
حوالہ جات
[ترمیم]- ↑ الجديد في ترجمة ابن عادل الدمشقي الحلبي، مرهف عبد الجبار سقا، منشورات مركز أبحاث فقه المعاملات الإسلامية صفحة 22
- ^ ا ب ابن عادل المكتبة الشاملة اطلع عليه في 23 أغسطس 2015 آرکائیو شدہ 2017-07-19 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ الجديد في ترجمة ابن عادل الدمشقي الحلبي، مرهف عبد الجبار سقا، منشورات مركز أبحاث فقه المعاملات الإسلامية صفحة 27-30
- ↑ البداية والنهاية الجزء 14 صفحة 150
- ↑ اللباب في علوم الكتاب: ابن عادل المكتبة الشاملة اطلع عليه في 23 أغسطس 2015 آرکائیو شدہ 2017-07-19 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ كتاب: المفسرون بين التأويل والإثبات في آيات الصفات، تأليف: الشيخ محمد بن عبد الرحمن المغراوي، الناشر: مؤسسة الرسالة، الطبعة الأولى: 2000م، ص: 1113-1114.
- ↑ تفسير ابن عادل الحنبلي (اللباب في علوم الكتاب)، تفسير قوله تعالى: ﴿وَجَاء رَبُّكَ وَالْمَلَكُ صَفًّا صَفًّا﴾ [[[سورہ سانچہ:نام سورہ 89|89]]:22].