ابن مالک

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
(ابن مالك سے رجوع مکرر)
ابن مالک
معلومات شخصیت
پیدائشی نام (عربی میں: محمد بن عبد الله بن مالك الطائي الجياني ویکی ڈیٹا پر (P1477) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیدائش سنہ 600ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
خائن   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 672ء (71–72 سال)[1][2]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ ماہرِ لسانیات   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی [1]  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل عربی ادب ،  شعر ،  نظم   ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

ابن مالک، ابو عبد اللہ جمال الدین محمد عربی زبان کے مشہور نحوی اور لغوی تھے۔ اُن کا عرصہ حیات 1204ء سے 1274ء کا ہے جس دور میں مسلم دنیا زوال کی جانب گامزن تھی۔ وہ علم نحو، تصریف اور علم الشعر میں مہارت کاملہ رکھتے تھے۔ ہسپانیہ چھوڑنے کے بعد ابن مالک نے شافعی مسلک اختیار کر لیا اور حلب و حمات میں عربی زبان کی تدریس جاری رکھی۔ کچھ عرصہ ان شہروں میں گزارنے کے بعد بالآخر دمشق کا رخ کیا اور وہیں مستقل سکونت اختیار کر لی، وہاں ابن مالک مدرسہ عادلیہ کے مدرس رہے۔ عربی زبان میں ان کے قد کا اندازہ ان کی کتاب خلاصۃ الالفیہ (جو عموماً الفیہ کے نام سے معروف ہے) سے لگایا جا سکتا ہے جو عربی قواعد کی مشہور ترین کتاب ہے اور اس کی 43 شرحیں لکھی جا چکی ہیں۔

نام و لقب[ترمیم]

ابن مالک کی نام محمد بن عبد اللہ بن محمد بن عبد اللہ بن مالک الطائی ہے۔ کنیت ابو عبد اللہ ہے۔ لقب جمال الدین ہے مگر ابن العماد الحنبلی نے القاب علامہ اور حجۃ العرب بھی لکھے ہیں۔[3] اندلس کے مقام خائن، ہسپانیہ میں ولادت ہوئی اِسی سبب سے ابن مالک کو جیانی یا خیانی بھی کہتے ہیں۔[4]

نسب[ترمیم]

صاحب شذرات الذھب علامہ ابن العماد الحنبلی نے ابن مالک کا نسب یوں بیان کیا ہے :

جمال الدین ابو عبد اللہ محمد ابن عبد اللہ بن عبد اللہ بن مالک الطائی الجیانی۔[3]

ابن کثیر الدمشقی نے بھی یہی نسب بیان کیا ہے۔[5] ابن کثیر الدمشقی نے نسب کے آخر پر صرف لفظ نحوی کا اضافہ کیا ہے جو ابن مالک کے نحوی ہونے کا اعتراف ہے۔[5]

ولادت[ترمیم]

ابن مالک کی ولادت 600ھ مطابق 1204ء کو اندلس کے شہر خائن، ہسپانیہ میں ہوئی (عربی میں اِس مقام کو جیان بھی کہتے ہیں)۔ اب یہ خطہ اسپین کا تنظیمی صوبہ اندلوسیا کہلاتا ہے۔ ابن العماد الحنبلی ابن مالک کی ولادت غالباً 600ھ یا 601ھ کہتے ہیں جو سن عیسوی کے مطابق 1204ء یا 1205ء ٹھہرتی ہے۔[3] مورخ اسلام ابن کثیر الدمشقی نے سال ولادت 600ھ ہی لکھا ہے۔[5]

ابتدائی حالات[ترمیم]

ابن مالک چونکہ اندلس میں پیدا ہوئے مگر اُن کے ابتدائی حالات پر بہت کم حقائق دستیاب ہو سکے ہیں۔ بعض اوقات مورخین اندلس کے نزدیک آپ کا ذکر نہیں ملتا۔ اِس کی وجہ یہ بھی ہے کہ ابن مالک مزید تحصیل علم کے واسطے مشرق آ گئے تھے اور عرصہ مدید تک شام کے شہر حلب میں مقیم رہے اور بعد ازاں دمشق چلے آئے۔ ابتدائی معلومات قریباً نہ ہونے کے برابر ہیں۔

تحصیل علم[ترمیم]

شہر جیان موجودہ خائن، ہسپانیہ میں ابن مالک نے ابو المظفر ابو الحسن ثابت بن الخیار الملقب بہ ابن طیلسان، ابو رزین بن ثابت بن محمد بن یوسف بن الخیار الکلاعی النبلی، ابو العباس احمد بن نُوار، ابو عبد اللہ محمد بن مالک المرشانی سے تعلیم حاصل کی۔ بعد ازاں وہ اندلس سے مشرق کی مسلم دنیا میں مزید تحصیل علم کے واسطے چلے آئے اور دمشق پہنچے۔ دمشق میں انھوں نے امام نووی، ابن الحاجب، ابن یعیش اور ابو علی الشلویین جیسے عربی زبان کے عظیم نحویوں سے استفادہ حاصل کیا۔ دمشق میں ہی ابن مالک نے نُکرم اور ابو الحسن بن السخاوی سے حدیث پڑھی۔[6] امام نووی سے شرح صحیح مسلم کو روایت کیا ہے۔[7]

مشرق میں آمد[ترمیم]

ابن مالک کب مشرق کے مضافات میں آئے اور کب حلب، حماۃ اور دمشق پہنچے؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب ہمیں نہیں ملتا، البتہ کچھ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ ابن مالک نے امام نووی سے روایت کیا ہے اور امام نووی کی وفات 676ھ مطابق 1277ء میں ہوئی اور ابن مالک خود 672ھ مطابق 1274ء میں فوت ہو چکے تھے، حالانکہ ابن مالک امام نووی سے 31 سال قبل پیدا ہوئے تھے۔ غالباً وہ 630ھ سے 640ھ کے درمیانی عرصہ میں شام آئے اور یہاں محدثین، علما اور مورخین اور نحویوں سے تحصیل علم کیا۔

درس نحو[ترمیم]

تحصیل علم کے بعد ابن مالک نے اولاً شہر حلب میں نحو پر درس دینا شروع کیا اور وہیں وہ مدرسہ العادلیہ میں امام مقرر ہو گئے۔ کچھ عرصہ بعد وہ حماۃ میں درس دینے لگے۔[6] بعد ازاں دمشق چلے گئے جہاں تا دم آخر مقیم رہے۔

ابن خلکان سے ملاقات[ترمیم]

علامہ ابن کثیر الدمشقی نے البدایہ والنہایہ میں لکھا ہے کہ ابن مالک نے ابن خلکان سے ملاقات کی ہے اور یہ ملاقات کثرت سے ہوتی رہی۔[5] ابن مالک کا ابن خلکان سے ملاقات کرنا اُن کے درجہ شرف کا باعث بھی ہے کیونکہ بعض مورخین صرف ابن خلکان کو ہی مورخ خیال کرتے ہیں مگر اُن کے تذکرہ حیات میں کبھی ابن مالک کا ذکر نہیں آتا ۔

فقہ شافعیہ کا مسلک[ترمیم]

اولاً ابن مالک امام مالک کے مذہب پر تھے یعنی مالکی، مگر دمشق میں انھوں نے امام محمد بن ادریس شافعی کی پیروی اختیار کی اور فقہ شافعی پر عمل پیرا ہوئے۔ دمشق میں امام نووی سے آپ نے روایت کیا ہے۔[6] آپ فقہی مسلک میں شافعی ہیں۔ آپ کے شافعی فقہ پر عمل پیراء ہونے کے متعلق ابن العماد الحنبلی نے لکھا ہے۔[7] شہر حلب اور حماۃ میں ابن مالک نے قیام کے دوران مذہب شافعیہ کو تسلیم کر لیا تھا۔ اِس حوالے سے یہ بات اہم ہے کہ ابن مالک ساتویں صدی ہجری میں گذرے ہیں اور قریباً تیسری صدی ہجری سے نویں صدی ہجری تک شام اور اُس کے مضافات میں فقہ شافعیہ بہت زور و شور سے رائج رہا ہے اور اندلس کے نامی گرامی علما، مورخ اور عالم فقہ مالکیہ کے پیروکار رہے ہیں۔

شہرت و ذہانت[ترمیم]

ابن مالک فاضل انسان تھے، عربی ادب میں اور عربی لغت میں انھیں مہارت کاملہ حاصل ہو گئی تھی حتیٰ کہ اُن کی شہرت کے سامنے امام سیبویہ (متوفی 179ھ / 795ء) کی شہرت بھی تقریباً ماند پڑ گئی تھی۔ وہ عابد، زاہد، دیانتدار، راستباز اور رقیق القلب انسان تھے۔ عقل و فہیم، خوش اخلاقی اور زِیرکی اعلیٰ درجہ کی تھی۔[6] ابن العماد الحنبلی نے الحافظ ذہبی کا قول نقل کیا ہے کہ ابن مالک آسان شعر کہا کرتے تھے، الفاظِ متین کا استعمال کرتے، لہجہ نرم رہتا تھا، کثیر نوافل اداء کرتے اور حسن آواز کی کثرت عطاء ہوئی تھی، رقیق القلب تھے، عقل کل کا نمونہ تھے۔[7]

وفات[ترمیم]

ابن مالک کی وفات بروز بدھ 21 شعبان 672ھ مطابق 21 فروری 1274ء کو بوقت شب دمشق، بلاد الشام میں ہوئی۔ عمر قمری سال کے اعتبار سے 72 سال اور شمسی سال کے اعتبار سے 70 سال تھی۔[6][7] مورخ ابن کثیر الدمشقی نے تاریخ وفات 12 رمضان 672ھ لکھی ہے [5] جو شاید درست معلوم نہیں ہوتی کیونکہ مورخین حلب و دمشق نے آپ کا ماہِ وفات شعبان 672ھ لکھا ہے۔ تدفین دمشق میں بمقام قاسیون، قاضی عز الدین الصائغ کے قبرستان میں کی گئی۔[5]

تصانیف[ترمیم]

ابن مالک کی تصنیفات متعدد ہیں، جن کی اُن کے دوستوں نے تحسین و ستائش اور دشمنوں نے تنقیص و تغلیط کی ہے، لیکن اُن کی کتب کے مطالعہ کے بعد کہا جا سکتا ہے کہ علم نحو کے اُصول و قواعد کی ترتیب و تدین اور اُن کا جو مربوط و منضبط بیان ہمیں ابن مالک سے ملا ہے وہ فی الحقیقت اُن کی بہت بڑی علم کی خدمت ہے، البتہ اُن کی تحریر میں وہ سادگی یا وضاحت موجود نہیں جو ایک درسی کتب میں ہونی لازم ہے۔[6]

ابن العماد الحنبلی نے شذرات الذھب میں صرف اِن کتب کا ذکر کیا ہے : تسہیل الفوائد جو علم نحو پر ہے، کتاب الضرب فی معرفۃ لسان العرب، کتاب الکافیۃ الشافِہ، کتاب الخلاصۃ، کتاب العمدہ مع شرح، کتاب سک المنظوم و فَک المختوم، کتاب اکمال الاعلام بتثلیث الکلام۔[7]

ابن مالک کی مکمل کتب کی فہرست یوں ہے :

  • کتاب تسہیل الفوائد و تکمیل المقاصد : علم نحو پر ایک رسالہ ہے جس کا ایجاز اغلاق کی حد تک کو پہنچ گیا ہے۔ پہلی بار شہر فاس سے 1323ھ میں طبع ہوا۔
  • الکافیۃ والشافیۃ : بحر رجز میں 2757 اشعار ہیں، بعض نے انھیں 3000 اشعار بھی کہا ہے۔ دراصل یہ اشعار علم نحو پر ایک رسالہ کی شکل میں ہیں۔ الجزائر کی جامع مسجد میں اِس کا ایک مخطوطہ تحت عدد نمبر 14 جلد 3 کی شکل میں محفوظ ہے۔
  • کتاب الخلاصۃ الفِیَۃ : اِسے اِختصاراً کتاب الاَلفِیَۃ بھی کہا جاتا ہے، اِس میں ایک ہزار اشعار بزبان عربی علم نحو پر مرتب کیے گئے ہیں۔ مصنف ابن مالک نے خود اِس کتاب کے دیباچہ میں لکھا ہے کہ اولاً ابن معطی (متوفی 648ھ/ 1250ء) نے الفِیَۃ کے نام سے لکھا تھا جس کی میں اتباع میں یہ رسالہ لکھ رہا ہوں۔ یہ رسالہ بیروت، لبنان سے پہلی بار 1305ھ/ 1888ء میں، قاہرہ، مصر سے 1306ھ/ 1889ء میں، دوبارہ قاہرہ، مصر سے 1307ھ/ 1890ء میں، لاہور سے 1305ھ/ 1888ء میں شائع ہوا۔ فرانسیسی مستشرق سلویسٹر ڈی ساسی (پیدائش: 21 ستمبر 1758ء - وفات: 21 فروری 1838ء)نے فرانسیسی زبان میں اِس رسالہ کا ایڈیشن پیرس سے شائع کیا جو بعد ازاں لندن سے 1248ھ مطابق 1833ء میں شائع ہوا تھا۔ ڈی ساسی نے اپنی تصنیف (1829 Anthologie grammaticale ) میں اِس کے 8 ابواب کا فرانسیسی زبان میں ترجمہ شامل کیا ہے جو اِس کتاب کے صفحات نمبر 134 سے 144 اور 315 سے 347 تک محیط ہیں۔ یہ فرانسیسی زبان کا ترجمہ پیرس سے 1244ھ/ 1829ء میں شائع ہوا تھا۔ بعد ازاں یہ فرانسیسی زبان کا ترجمہ قسطنطنیہ استنبول سے 1304ھ/ 1887ء میں شائع ہوا۔
  • لامیۃ الافعال/ کتاب المفتاح فی ابنیۃ الافعال: بحر بسیط میں 114 اشعار کی نظم ہے جس میں قافیہ لام یعنی ل ہے اور جس میں اوزانِ فعل پر بحث کی گئی ہے۔ اِس کا فرانسیسی زبان کا ترجمہ برلن سے شائع ہوا۔
  • عمدۃ الحافظ و عدۃ اللافظ : علم نحو پر ایک مختصر رسالہ ہے۔ برلن کے کتب خانہ میں عدد نمبر 6631 کے تحت محفوظ ہے۔
  • تحفۃ المورد فی المقصور و الممدود : بحر طویل میں حرف و کی روی کے ساتھ 162 اشعار کی ایک نظم ہے جس میں الف مقصورہ اور لاف ممدودہ کے تقریباً تمام وہ الفاظ درج کردیے گئے ہیں جن کے مختلف معانی ہوتے ہیں۔ اس رسالہ کے ساتھ مصنف کی ایک لکھی ہوئی مختصر سی شرح بھی ہے جو قاہرہ سے 1314ھ/ 1897ء اور 1329ھ/ 1911ء میں شائع ہوئی تھی۔
  • کتاب الاکمال/ کتاب الاعلام بمُثلث الکلام: رجز مزدوج میں ایک نظم ہے جس میں اُن الفاظ کا ذکر کیا گیا ہے جو حرکاتِ ثلاثہ کے اختلاف سے تین مختلف انداز سے پڑھے جاتے ہیں۔ یہ کتاب سلطان صلاح الدین ایوبی کے پوتے سلطان الملک الناصر کے نام سے منتسب ہے۔ قاہرہ، مصر سے 1329ھ/ 1911ء میں پہلی بار شائع ہوئی۔
  • سَبْکُ المنظوم و فکّ المختوم : علم صرف و نحو کا خلاصہ ہے۔ برلن کے کتب خانہ میں عدد نمبر 6630 کے تحت محفوظ ہے۔ مخطوطہ کی شکل میں ہے، ابھی تک طبع نہیں ہوا۔
  • شرح عمدۃ الحافظ و عدۃ اللافظ : یہ بشکل مخطوطہ برلن کے کتب خانہ میں عدد نمبر 6632 کے تحت محفوظ ہے۔ ابھی تک طبع نہیں ہو سکا۔
  • ایجاز التعریف فی علم التصریف: ایک مختصر سا رسالہ ہے۔ جرمن مستشرق جوزف ڈیرن برگ نے اِسے کیٹلاگ کیا اور اب یہ برلن کے کتب خانہ میں عدد نمبر 86 جلد 3 کے تحت محفوظ ہے۔
  • کتاب العروض: علم عروض پر ایک مختصر کتاب ہے۔ جرمن مستشرق جوزف ڈیرن برگ نے اِسے کیٹلاگ کیا اور اب یہ برلن کے کتب خانہ میں عدد نمبر 330 جلد 3 کے تحت محفوظ ہے۔
  • کتاب شواہد التوضیح والتصحیح لمشکلات الجامع الصحیح: حدیث کی مستند کتاب صحیح بخاری کی 99 عبارتوں کی نحوی تشریح ہے۔ جرمن مستشرق جوزف ڈیرن برگ نے اِسے کیٹلاگ کیا اور اب یہ برلن کے کتب خانہ میں عدد نمبر 141 کے تحت محفوظ ہے۔
  • کتاب الالفاظ المختلفۃ: مترادف الفاظ پر ایک رسالہ ہے۔ برلن کے کتب خانہ میں عدد نمبر 7041 کے تحت محفوظ ہے۔
  • الاعتضاد دی الفرق بین الظاء و الضاد: حرف ض کی روی میں بحر بسیط کے 62 اشعار کی ایک نظم ہے جس کے ساتھ ایسے ہم شکل الفاظ کی مختصر طور پر تشریح کی گئی جن میں حرف ض یا ظ ہو یا پھر حرف ط یا ظ ہو۔ برلن کے کتب خانہ میں عدد نمبر 7023 کے تحت محفوظ ہے۔
  • ایک کتاب نامعلوم الاسم: اِس کتاب کا نام معلوم نہیں ہو سکا مگر اِس میں 49 اشعار کی ایک نظم ہے جس میں وہ ثلاثی افعال دیے گئے ہیں جن کا تیسرا حرف و اور ی کے ساتھ لکھے جاتے ہوں۔ اِسے امام جلال الدین سیوطی نے کتاب المزھر میں نقل کیا ہے جو بولاق، قاہرہ، مصر سے 1282ھ/ 1866ء میں شائع ہونے والی کتاب المزھر کی جلد 2 کے صفحات نمبر 145 سے 147 تک محیط ہیں۔
  • متعدد مختصر رسائل : اِن رسائل میں لغوی، نحوی اور دیگر قسم کی خلافِ قیاس بے قاعدگیوں کا ذکر کیا گیا ہے اور جن میں سے بعض المزھر اور الضرب فی لسان العرب میں بیان کر دی گئی ہیں۔[8]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ^ ا ب http://data.bnf.fr/ark:/12148/cb14503900s — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
  2. Diamond Catalogue ID for persons and organisations: https://opac.diamond-ils.org/agent/6563 — بنام: Muḥammad ibn ʿAbd Allāh Ibn Mālik
  3. ^ ا ب پ ابن العماد الحنبلی: شذرات الذھب فی اخبار من ذھب، جلد 7 صفحہ 590۔
  4. دائرۃ المعارف الاسلامیۃ: ج 1، ص 681، ذکر ابن مالک۔ مطبوعہ لاہور 1964ء۔
  5. ^ ا ب پ ت ٹ ث ابن کثیر الدمشقی: البدایۃ والنہایۃ، جلد 13، صفحہ 319، مطبوعہ لاہور۔
  6. ^ ا ب پ ت ٹ ث دائرۃ المعارف الاسلامیۃ: جلد 1 صفحہ 681۔ مطبوعہ لاہور۔ 1964ء۔
  7. ^ ا ب پ ت ٹ ابن العماد الحنبلی: شذرات الذھب فی اخبار من ذھب، جلد 7 صفحہ 591۔
  8. دائرۃ المعارف الاسلامیۃ: جلد 1 صفحہ 681/682، مطبوعہ لاہور، 1964ء۔