ابو اسحاق سبیعی
ابو اسحاق سبیعی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
تاریخ پیدائش | سنہ 654ء |
وفات | سنہ 745ء (90–91 سال) کوفہ |
رہائش | کوفہ |
عملی زندگی | |
استاد | سعد بن ایاس شیبانی |
پیشہ | محدث |
درستی - ترمیم |
ابو اسحٰق سبیعیؒ تابعین میں سے ہیں۔آپ نے 128ھ میں وفات پائی ۔
نام ونسب
[ترمیم]عمرو نام، ابو اسحٰق کنیت ، کنیت سے زیادہ مشہور ہیں ، نسب نامہ یہ ہے عمرو بن عبد اللہ بن علی بن احمد بن ذی یحمد بن سبیع بن صعب بن معاویہ بن کثیر بن مالک بن جشم بن حاشذ بن چشم بن خیران بن نوف بن ہمدان ہمدانی کوفی۔ ہمدان میں ان کا ممتاز اور مشہور خاندان تھا، اسلامی عہد میں یہ خاندان کوفہ میں آباد ہو گیا تھا، حضرت عثمانؓ کے زمانہ میں ابو اسحٰق کے دادا مدینہ آئے تھے، حضرت عثمانؓ نے ان کے خاندانی، اعزاز کا لحاظ کر کے پندرہ ہزار پانسو ان کا اور سو سو ان کے اہل و عیال کا وظیفہ مقرر کیا۔ [1]
پیدائش
[ترمیم]ابو اسحٰق غالباً کوفہ ہی میں عثمانی عہد کے آخر میں جب کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت میں تین سال باقی تھے، پیدا ہوئے۔ [2]
اموی دور
[ترمیم]اموی دور میں بھی ابو اسحٰق کا خاندانی اعزاز قائم رہا، امیر معاویہؓ کے زمانہ میں یہ اور ان کے والد تین سو وظیفہ پاتے تھے۔ [3]
فضل وکمال
[ترمیم]مرکز علم کوفہ میں ابو اسحٰق کی نشو و نما ہوئی تھی، ان میں تحصیل علم کی فطری استعداد وصلاحیت تھی۔ اس لیے علمائے کوفہ کے فیض سے پورا فائدہ اٹھایا اور ان کا شمار علما کے اکابر علما میں ہو گیا، علامہ نووی لکھتے ہیں کہ ان کی توثیق، جلالت اور ثناء پر سب کا اتفاق ہے حافظ لکھتے ہیں کہ وہ علم کا ظرف تھے، ان کے مناقب بہت ہیں (تذکرۃ الحفاظ:1/102)ابن ناصر الدین ان کو ائمہ اسلام اور بڑے حفاظ حدیث میں لکھتے ہیں۔ [4] قرآن کے وہ نہایت مشہور قاری تھے، عبداللہ بن مسعودؓ کے اصحاب ان کو عمراء القاری کہتے تھے، اس فن کی تعلیم انھوں نے اس فن کے مشہور علما ابو عبد الرحمن سلمی اور اسود بن یزید سے حاصل کی تھی۔ [5]
حدیث
[ترمیم]حدیث کے اکابر حفاظ میں تھے، حافظ ذہبی ان کو علم کا ظرف اور علمائے اعلام میں لکھتے ہیں [6]صحابہ میں انھوں نے ابن عباسؓ، ابن عمرؓ، ابن زبیرؓ، معاویہؓ ، عمرو بن یزید الخطمیؓ ، نعمان بن بشیرؓ ، عمرو بن الحارثؓ ، عمرو بن الحریثؓ ، زید بن ارقمؓ ، براء بن عازبؓ ، سلیمان بن صردؓ ، حارثہ بن وہبؓ ، عدی بن حاتمؓ ، جابر بن سمرہؓ ، رافع بن خدیجؓ ، عروہ بارقیؓ ، ابو حذیفہؓ ، خالد بن عرفطہؓ ، جریر بن عبداللہ بجلی، اشعث بن قیسؓ، مسور بن مخرمہؓ اور تابعین میں ایک کثیر جماعت سے سماعِ حدیث کیا تھا ، ابن مدینی نے ان کے شیوخ کی تعداد باختلافِ روایت تین یا چار سو (300-400) لکھی ہے ، ان میں اڑتیس صحابہ تھے۔ [7] ابو حاتم روایات کی کثرت اور رجال کے علم میں ان کو امام زہری کا ہم پایہ سمجھتے تھے[8] ابو داؤد طیالسی کا بیان ہے کہ ہم نے چار آدمیوں کے پاس حدیث کا ذخیرہ پایا ، ان چار میں ایک ابو اسحٰق بھی ہیں، حضرت علیؓ کی احادیث اور ابن مسعودؓ کی روایات ان کے پاس زیادہ تھیں، ان کی جملہ احادیث کی تعداد دوہزار(2000) تک بیان کی جاتی ہے۔ [9]
تلامذہ
[ترمیم]شیوخ کے تناسب سے ان کے تلامذہ کا دائرہ بھی نہایت وسیع تھا اور اس میں بڑے بڑے تابعین اور تبع تابعین تھے، بعض قابل ذکر نام یہ ہیں، سلیمان التیمی ، اعمش، قتادہ، اسمعیل بن ابی خالد ، شریک بن عبداللہ ، عمارہ بن زریق ، منصور بن معتمر ، سفیان ثوری ، مسعر، مالک بن منحول سفیان بن عینیہ، زبیر بن معاویہ، زائدہ، حسن بن صالح اور ابوبکرہ بن عباس وغیرہ۔ [10]
زہد وعبادت
[ترمیم]اس علم کے ساتھ عمل بھی اس درجہ کا تھا، بڑے عابد و زاہد تھے، حافظ ذہبی لکھتے ہیں ‘کان صواما قوامامتقیتلا تین دن میں ایک قرآن ختم کرتے تھے، روزہ بھی بکثرت رکھتے تھے۔ آخر عمر میں جب قویٰ ضعیف اورعبادتِ شاقہ کے متحمل نہ رہ گئے تھے اس وقت ان معمولات میں فرق آگیا تھا، لیکن پھر بھی مہینہ میں تین دن اور ہر جمعہ دوشنبہ کو اور شہر حرم میں پابندی سے روزہ رکھتے تھے اور ایک رکعت میں پوری سورۂ بقرہ ختم کرتے تھے۔
جہاد فی سبیل اللہ
[ترمیم]جہاد فی سبیل اللہ کا بھی ولولہ تھا، امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانہ مین روم کی فوج کشی میں شریک ہوئے تھے۔ [11]
وفات
[ترمیم]127ھ یا 128ھ میں وفات پائی، وفات کے وقت کم و بیش سو سال کے قریب عمر تھی۔ [12]